بھارت کے مختلف حصوں سے کورونا کے حوالے سے بہت ہی تکلیف دہ خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ ایک جانب اگر لوگ احتیاط کو ترجیح دے رہے ہیں تو دوسری جانب افسردگی اور مایوسی میں موت کو گلے بھی لگا رہے ہیں۔
احتیاط کا یہ عالم ہے کہ سڑک پر پانچ پانچ سو کے کئی نوٹ پڑے رہے لیکن کورونا کے خوف کی وجہ سے کسی نے انہیں چھونے کی کوشش نہیں کی۔
انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سڑک پر 500 کے کئی کرنسی نوٹوں کے کھلے پڑے رہنے کا واقعہ دہلی کے لارنس روڈ کا ہے۔
اخبار کے مطابق علاقے کے کئی لوگوں نے نوٹ دیکھے لیکن کورونا کے خطرے کے پیش نظر انہیں ہاتھ لگانے سے باز رہے۔ جب پولیس کو بلايا گیا تو اس نے بھی نوٹوں کو سینیٹائز کرنے کے بعد اٹھایا اور لفافے میں ڈال کر پولیس سٹیشن چلی گئی۔
ایک خاتون نے بعد میں دعویٰ کیا کہ یہ ان کے نوٹ ہیں جو اے ٹی ایم سے نکالنے اور سینیٹائز کرنے کے بعد سوکھنے کے لیے بالکونی میں رکھے تھے جہاں سے وہ ہوا سے اُڑ گئے۔
دوسری جانب دارالحکومت دہلی سے ملحق گروگرام جو پہلے گڑگاؤں کہلاتا تھا وہاں ایک شخص نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کر لی ہے۔ اخبار دی ٹائمز آف انڈیا نے خبر دی ہے کہ مکیش نامی شخص کو جمعرات کے روز اپنا موبائل فون فروخت کرنے کے لیے ایک گاہک مل گیا۔
انھوں نے ڈھائی ہزار روپے میں اپنا گاہک کو اپنا فون بیچ کر اس سے اپنے بچوں کے لیے شکر، آٹے اور چاول کے ساتھ ایک ٹیبل فین بھی خریدا تاکہ ان کے بھوکے بچے چند دن آرام سے رہ سکیں۔
انہوں نے باقی پیسے اپنی بیوی کو دے دیے۔ اس کے بعد وہ ڈی ایل ایف 5 کے ساتھ بنی کچی بستی میں اپنے ٹن کی چھت والے کمرے میں گئے اور خود کو چھت سے لٹکا لیا۔ مکیش کی اہلیہ پونم اس وقت گھر کے پاس ایک نیم کے درخت کے نیچے موجود تھیں جب تھوڑی دیر بعد وہ آئیں تو انہوں نے اپنے شوہر کی لاش دیکھی۔
ان کی آخری رسومات کے لیے پڑوسیوں نے پانچ ہزار روپے کی رقم اکٹھی کی۔ اس سے قبل اسی طرح کی ایک خبر ریاست اتر پردیش سے آئی تھی جہاں ایک خاتون نے اپنے پانچ بچوں کو دریا برد کر دیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ ‘وہ ذہنی خلل کا شکار تھی’ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ‘اس نے بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر یہ قدم اٹھایا تھا۔’
مکیش کی اہلیہ نے بتایا کہ ‘ان کے شوہر کو کئی ماہ سے کوئی نوکری نہیں مل رہی تھی اور وہ چھوٹی موٹی مزدوری کر رہے تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ راستہ بھی بند ہو گیا تھا۔’