سرینگر// جموں کشمیر کی اہم ترین مذہبی و سیاسی پارٹی جماعتِ اسلامی نے آج تنظیمی انتخابات کے حتمی مرحلہ میں ڈاکٹر حمید فیاض کو اگلے تین سال کیلئے امیر منتخب کرکے خود کو گویا دوسری صف کے لیڈروں کے سپرد کردیا۔62سالہ حمید فیاض بانیانِ جماعتِ اسلامی جموں کشمیر کے حلقہ سے باہر کے پہلے اور امارت کیلئے منتخب ہونے والے پہلے لیڈر ہیںاور اسے جماعت میں ایک بڑی تبدیلی کے بطور دیکھا جارہا ہے۔
جماعتِ اسلامی کے ترجمان اعلیٰ زاہد علی ایڈوکیٹ نے ایک مفصل بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر حمید فیاض کو اکثریتِ رائے سے تین سال کیلئے امیرِ جماعت منتخب کیا گیا ہے اور وہ تین سال کیلئے اس منصب پر فائز رہیں گے۔انہوں نے کہا”نمائندہ ارکان نے کثرت رائے سے ڈاکٹر عبدالحمید فیاض صاحب ساکن نادی گام شوپیان کو اگلے سہ سالہ میقات کے لےے بطور امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر منتخب کیا، وہ یکم ستمبر 2018کو منصب امارت کا چارج سنبھالیں گے“۔
جموں کشمیر کی مزاحمتی تحریک میں ایک اہم مقام رکھنے والی جماعتِ اسلامی کی امارت سے غلام محمد بٹ کی سبکدوشی اور ڈاکٹر حمید فیاض کا انتخاب ایک طرح سے اس تنظیم کے ایک نئے دور کی شروعات کہلایا جاسکتا ہے۔
جماعتِ اسلامی کا انتخابی نظام انتہائی پُرپیچ اور کئی مرحلوں والا ہے۔چناچہ پہلے نچلی سطح یا بنیادی اکائیوں،جنہیں تنظیم میں حلقے کہا جاتا ہے،کی سطح پر پھر تحصیل ،ضلع اور پھر مرکزی سطح پر اُن ارکان کا انتخاب ہوتا ہے کہ جو امیرِ جماعت کے انتخاب کیلئے الیکٹورل کالج بناتے ہیں اور انہی چنندہ ارکان کی کثرتِ رائے جماعت کے کسی بھی بنیادی رکن کو منصبِ امارت پر بٹھاتی ہے۔ابھی کے انتخابِ امیر کیلئے کل 165ارکان پہلے سے منتخب تھے تاہم ان میں سے دو کے سفرِ محمود پراور ایک کے صاحبِ فراش ہونے کی وجہ سے صرف 162ممبران انتخاب میں موجود رہے جن میں سے اکثریت نے ڈاکٹر حمید فیاض کا انتخاب کیا۔وہ غلام محمد بٹ کے جانشین ہونگے کہ جو کم از کم تینبار جماعت کے منصب ِ امارت پر فائز رہے ہیں۔انہوں نے 1996میں ان حالات میں جماعت کی امارت سنبھالی تھی کہ جب یہ تنظیم علیٰحدگی پسند جنگجووں کی راہنما کے بطور جانی جاتی تھی اور سرکاری فورسز کے عتاب کا نشانہ تھی۔بٹ نے عسکریت کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار کرکے جماعت کو ایک ”نئی طرح“دی یہاں تک کہ ان پر سرکاری ایجنسیوں کے قریب بلکہ انکے اشاروں پر ناچنے تک کا الزام لگا۔غلام محمد بٹ جماعتِ اسلامی جموں کشمیر کے واحد متنازعہ امیر رہے ہیں حتیٰ کہ انکے خلاف تنظیم میں بغاوت نے بھی سر اٹھایا تھا اور اسکے کئی سرکردہ ارکان نے الگ سرگرمیاں شروع کی تھیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جماعت کی دیرینہ پالیسی کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں یا سہ فریقی مذاکرات جس میں ہندو پاک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے عوام کے حقیقی نمائندوں کی شمولیت ناگزیر ہے، میں مضمر ہے
جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں کے نادی گام گاوں کے رہائشی ڈاکٹر حمید فیاض عنفوانِ شباب کو پہنچتے ہی جماعتِ اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے اور تب سے انہوں نے مختلف عہدوں پر کام کیا ہے۔وہ 1956میں پیدا ہوئے ہیں اور عصری و مذہبی علوم میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔انہوں نے کشمیریونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہوئی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ وہ ایک بااثر اور شعلہ بیان مقرر کے بطور اپنی پہچان بناچکے ہیں۔ذرائع کے مطابق جماعت سے 1976میں متعارف ہونے کے بعد انہیں تنظیم کے ذیلی ادارہ فلاحِ عام ٹرسٹ کے تحت قائم ایک اسکول میں استاد لگایا گیاتاہم 1986ءمیں نظمِ جماعت کی ہدایت پر انہوں نے بحیثیت سیکریٹری ضلع (قیم ضلع) پلوامہ نظم جماعت میں بطور ہمہ وقتی کارکن شمولیت اختیار کی۔ ازاں بعد وہ اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر (جماعت کی طلبہ تنظیم)کے ناظمِ اعلیٰ منتخب ہوئے اور گیارہ سال تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد بحیثیت معاون قیم جماعت مرکزی نظم میں شامل ہوئے اور چھ سال تک بحیثیت قیم جماعت (سیکریٹری جنرل) اپنی منصبی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
جموں کشمیر کی مزاحمتی تحریک میں ایک اہم مقام رکھنے والی جماعتِ اسلامی کی امارت سے غلام محمد بٹ کی سبکدوشی اور ڈاکٹر حمید فیاض کا انتخاب ایک طرح سے اس تنظیم کے ایک نئے دور کی شروعات کہلایا جاسکتا ہے۔چناچہ غلام محمد بٹ تنظیم کے پہلے امیر مولانا سعدالدین تاربلی اور بانی ارکان،جن میں مولانا غلام احمد احرار،مولانا حکیم غلام نبی،مولانا قاری سیف الدین،شیخ محمد حسن و دیگراں،کے دور کے تنظیمی قائدین میں سے آخری تھے جبکہ حمید فیاض کو مقابلتاََنئی پود کے قائد ین میں شمار کیا جاسکتا ہے۔وہ اہم ذمہ داریوں پر کام کرتے ہوئے کافی تجربہ حاصل کرچکے ہیں ۔تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ انکا دورِ امارت غلام محمد بٹ کے دور سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہوسکتا ہے۔انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر ایک مبصر نے کہا”وہ مقابلتاََ جوان ہیں لہٰذا انکے دور میں جماعت میں کئی تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ وہ بٹ صاحب کے معتمدِ خاص رہے ہیں لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے پیش رو کی پالیسی اور پروگرام کو ہی آگے بڑھائیں گے اور یہ محسوس تک نہ ہونے پائے کی جماعت کی امارت میں کسی قسم کی تبدیلی ہوئی ہے“۔
”وہ مقابلتاََ جوان ہیں لہٰذا انکے دور میں جماعت میں کئی تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ وہ بٹ صاحب کے معتمدِ خاص رہے ہیں لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے پیش رو کی پالیسی اور پروگرام کو ہی آگے بڑھائیں گے اور یہ محسوس تک نہ ہونے پائے کی جماعت کی امارت میں کسی قسم کی تبدیلی ہوئی ہے“۔
ایڈوکیٹ زاہد علی کے بیان کے مطابق امیر منتخب ہونے پر خود ڈاکٹر حمید نے مجلس نمائندگان کے اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں اس عزم کو دہرایا کہ جماعت کو اس کے دستور کے مطابق آگے لے جانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی اور اقامت دین کی”پُرامن اور جمہوری جدوجہد“ میں سرعت لانے کی خاطر ہر ممکنہ اقدام کیا جائے گا۔بیان میں درج ہے” مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جماعت کی دیرینہ پالیسی کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں یا سہ فریقی مذاکرات جس میں ہندو پاک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے عوام کے حقیقی نمائندوں کی شمولیت ناگزیر ہے، میں مضمر ہے اور جماعت اسلامی دونوں ہمسایہ ممالک پر زور دیتی رہے گی کہ وہ اس ستّر سالہ پرانے انسانی مسئلے کو جموں کشمیر کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کرنے کی خاطر موثر اقدامات کریں اور جموں کشمیر کے عوام جو اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں کے ساتھ مل کر ایک منصفانہ اور پائیدار حل تلاش کریں۔ انہوں نے یہ بات واضح کی کہ جہاں تک جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کا سوال ہے جو اس کو آئین ہند کے دفعات 35-A اور 370 کے تحت حاصل ہے کے تحفظ کے لےے جاری عوامی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا اور کسی کو بھی اس پوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ عارضی پوزیشن تب تک اس ریاست کو حاصل رہے گی جب تک یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جاتا“۔