سرینگر// انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس (آئی اے ایس)کے 2010بیچ کے کشمیری ٹاپر ڈاکٹر شاہ فیصل کے، زنا بالجبر کے بڑھتے واقعات کو لیکر، ہندوستان کو ”ریپستان“ کہنے پر جموں کشمیر سرکار نے حکومت ہند کی ہدایت پر انکے خلاف وجہ بتاو نوٹس جاری کیا ہے۔فی الوقت امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم پارہے شاہ فیصل نے تاہم اس نوٹس کا اپنے انداز میں نہ صرف تمسخر اڑایا ہے بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ”آزادی اظہار“ کیلئے لڑیں گے اور انہیں نوکری چھن جانے کا کوئی غم نہیں ہوگا۔تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب شاہ فیصل کے سیاست میں آنے کی تیاری کے بطور ہورہا ہے ۔
عمر عبداللہ تو بہت اُتاولے ہورہے تھے اور انہوں نے فیصل سے امریکہ جانے سے قبل ہی سیاست میں آنے کاباضابطہ اعلان کرنے کیلئے کہا تھا تاہم وہ پہلے امریکہ ہوآنا چاہتے تھے
مزاجاََ شریف اورشرمیلے شاہ فیصل نے ہندوستان میں زنا بالجبر کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف ناراضگی اور مایوسی کا اظہار کرنے کیلئے اپریل کے اواخر میں ایک انگریزی اخبار کی وہ خبر شئیر کی تھی کہ جس میں فحش فلمیں دیکھنے کے عادی ایک نوجوان کے اپنی والدہ کا ریپ کرنے کی دہلادینے والی کہانی بیان کی گئی تھی۔ شاہ فیصل نے اس خبر پر اپنا مختصر تبصرہ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھا تھا ”پدرانہ نظام جمع (بڑھتی ہوئی)آبادی جمع ناخواندگی جمع شراب(نوشی) جمع فحاشی جمع تیکنالوجی جمع انارکی ، برابر ہے ریپستان کے“۔ انکے اس ٹویٹ پر کافی بحث ہوئی تھی اور بے شمار لوگوں نے اسے ری ٹویٹ کرکے اسکی حمایت یا مخالفت میں اپنی رائے دی تھی۔ تاہم اس متنازعہ ٹویٹ کے قریب اڈھائی ماہ بعد حکومتِ ہند کے محکمہ”پرنسل اینڈ ٹریننگ “ کے کہنے پر شاہ فیصل کے خلاف محکمانہ تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔
جموں کشمیر سرکار کی جانب سے محکمانہ تحقیقات کیلئے جاری کئے گئے حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ شاہ فیصل اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ایمانداری اور دیانتداری کو نبھانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ شاہ فیصل نے خود منگل کے روز یہ حکم نامہ جو، انہیں بذریعہ ای میل موصول ہوا ہے، ٹویٹر اور فیس بُک پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ”جنوبی ایشیا میں ریپ کلچر کے خلاف طنزیہ ٹویٹ کے لئے مجھے میرے باس کی طرف سے لو لیٹر موصول ہوا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ضمیر کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے لئے جمہوری ہندوستان میں نو آبادیاتی دور کے سروس رولز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ میں یہ (لو لیٹر) اس لئے شیئر کررہا ہوں تاکہ سروس رولز میں تبدیلی کی ضرورت کو اُجاگر کیا جاسکے“۔ محکمانہ تحقیقات کے حکم میں کہا گیا ہے کہ حکومت ہند نے ایک مکتوب کے ذریعہ شاہ فیصل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان حالات میں شاہ فیصل کو کشمیری نوجوانوں کیلئے ایک ”رول ماڈل“کے بطور پیش کرنے کی بھی کوشش ہوئی تھی جو مگر ناکام رہی جیسا کہ ریٹائرڈ ملٹری کمانڈر اور ”کشمیر ایکسپرٹ“ جنرل حسنین نے نئی دلی میں ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران اعتراف کیا ہے۔
ڈاکٹرشاہ فیصل تعلیم سے ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور وہ 2010میں تب آئی اے ایس کے امتحان میں اول آکر کافی مشہور ہوئے تھے کہ جب وادی میں ایک زبردست احتجاجی تحریک جاری تھی جسے کچلنے کیلئے اُسوقت کے وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے قریب سوا سو افراد،بشمولِ کئی بچوں کے، کو مروادیا تھا۔ان حالات میں شاہ فیصل کو کشمیری نوجوانوں کیلئے ایک ”رول ماڈل“کے بطور پیش کرنے کی بھی کوشش ہوئی تھی جو مگر ناکام رہی جیسا کہ ریٹائرڈ ملٹری کمانڈر اور ”کشمیر ایکسپرٹ“ جنرل حسنین نے نئی دلی میں ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران اعتراف کیا ہے۔
ضلع کمشنر اور ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کشمیر سمیت کئی اہم عہدوں پر کام کرنے کے بعد حال ہی تک جموں کشمیر پاور ڈیولوپمنٹ کارپوریشن (جے کے پی سی سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر رہے شاہ فیصل کا تبادلہ کرکے انہیں محکمہ سیاحت کا انچارج سکریٹری بنایا گیا تھا تاہم وہ حکومتِ ہند کے مالی تعاون سے امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک کورس کرنے کیلئے تعلیمی رخصت پر چلے گئے۔
ہندوستان کیلئے ”ریپستان“ کے لفظ کے استعمال والے ٹویٹ سے اسلئے انہوں نے مقامی طور بھی کئی لوگوں کو حیران کردیا تھا جو انکی”سوچ میں اچانک تبدیلی“محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ تاہم اسے، کشمیری نوجوانوں میں مقبول ہونے کیلئے ابھی تک ناکام”رول ماڈل“ کا، ایک ”نیا حربہ“بتانے لگے۔
جموں کشمیر سرکار کی جانب سے اپنے ملازمین پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کئے جانے کے باوجود، دیگر افسروں کے برعکس ،فیس بُک اور ٹویٹر پر سرگرم شاہ فیصل نے اس سے قبل جموں کشمیر کے سیاسی تنازعے اور کشمیری عوام کی مزاحمت کی جانب اشارے کے ساتھ ایک فیس بُک پوسٹ میں کہا تھا کہ کشمیریوں کا مستقبل ہندوستان کے ساتھ محفوظ ہے تاہم کشمیر میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے لوگوں نے اس پوسٹ کیلئے انکی شدید تنقید کی تھی یہاں تک کہ انکے لئے بدزبانی بھی کی گئی تھی۔ ہندوستان کیلئے ”ریپستان“ کے لفظ کے استعمال والے ٹویٹ سے اسلئے انہوں نے مقامی طور بھی کئی لوگوں کو حیران کردیا تھا جو انکی”سوچ میں اچانک تبدیلی“محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ تاہم اسے، کشمیری نوجوانوں میں مقبول ہونے کیلئے ابھی تک ناکام”رول ماڈل“ کا، ایک ”نیا حربہ“بتانے لگے۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ شاہ فیصل نے نوکری چھوڑ کر سیاست میں آنے کا حتمی فیصلہ لے لیا ہے جسکا وہ یا تو امریکہ میں رہتے ہوئے ہی یا پھر واپسی پر باضابطہ اعلان کرنے والے ہیں۔
انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ فیصل نیشنل کانفرنس کی طرفسے شمالی کشمیر سے پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے والے ہیں۔ان ذرائع نے بتایا ”شاہ فیصل کا شمالی کشمیر سے نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنا طے ہے۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور عمر عبداللہ تو بہت اُتاولے ہورہے تھے اور انہوں نے فیصل سے امریکہ جانے سے قبل ہی سیاست میں آنے کاباضابطہ اعلان کرنے کیلئے کہا تھا تاہم وہ پہلے امریکہ ہوآنا چاہتے تھے“۔ان ذرائع نے مزید بتایا”پلان یہ ہے کہ فیصل امریکہ میں رہتے ہوئے کئی چیزوں کو لیکر کھل کر لکھیں گے یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم مودی کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں جسکے بعد وہ نوکری کو خیر باد کہکر باضابطہ طور سیاست میں آئیں گے تاکہ لوگوں کے سامنے یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے انکے لئے بہترین کیرئر کو تج دے کر بہت بڑی قربانی دی ہے“۔جے کے پی سی سی میں شاہ فیصل کے ماتحت رہے ایک افسر نے اس بات کی تصدیق کی کہ انکے سابق باس کے سیاست میں آکر نیشنل کانفرنس کے امیدوار کے بطور پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کی تیاری ہے۔انہوں نے کہا ”حالانکہ ہم یہ سنکر حیران تھے لیکن دفتر میں ایسی باتیں ہورہی تھیں کہ انہیں(شاہ فیصل کو) الیکشن لڑنا ہے،ہم نے یہ بھی سنا تھا کہ بعض دوست انہیں اپنا کیرئرتباہ نہ کرنے کی صلاح دیتے ہیں لیکن انہوں نے من بنالیا ہے اور انکے کئی دوستوں کو انکی کامیابی طے لگتی ہے“۔
شاہ فیصل کی جانب سے ”اظہارِ رائے کی آزادی“کیلئے نوکری قربان کرنے کو تیار ہونے کی بات مذکورہ بالا ذرائع کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق سمجھا جا سکتاہے جبکہ نیشنل کانفرنس کے نائبِ صدر عمر عبداللہ کا فیصل کے دفاع میں کھل کر سامنے آنے سے بھی اسی طرح کا اشارہ ملتا ہے۔
اپنی دادی اور سابق وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ کی بیگم، اکبر جہاں، کی 18 ویں برسی کے سلسلے میں نسیم باغ (حضرت بل) میں منعقدہ ایک تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا کہ شاہ فیصل کی ایمانداری اور دیانتداری پر سوال اٹھانا موصوف کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصل کی ایمانداری پر آج تک کسی بھی فرد نے انگلی نہیں اٹھائی ہے۔
پلان یہ ہے کہ فیصل امریکہ میں رہتے ہوئے کئی چیزوں کو لیکر کھل کر لکھیں گے یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم مودی کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں جسکے بعد وہ نوکری کو خیر باد کہکر باضابطہ طور سیاست میں آئیں گے تاکہ لوگوں کے سامنے یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے انکے لئے بہترین کیرئر کو تج دے کر بہت بڑی قربانی دی ہے
عمر عبداللہ نے مزید کہا ’’شاہ فیصل نے ریپ کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے۔ اس کے خلاف نہ صرف آپ نے تحقیقات شروع کی بلکہ اس کی ایمانداری اور دیانتداری پر سوال کھڑا کیا۔ آج تک اس کی ایمانداری پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ حکم نامے میں اس کی خدمات کو نظرانداز کرکے اس کی ایمانداری اور دیانتداری پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ یہ بہت غلط بات ہے۔ ان کے خلاف انکوائری کرنا بھی غلط ہے۔ کیونکہ آپ اس میں بھی من مرضی کرتے ہو۔ اگر آپ کو اس کے ٹویٹ پر اعتراض ہے تو آپ اپنا اعتراض جتائیں۔ لیکن اس کی ایمانداری اور دیانتداری پر سوال اٹھانا اس کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی ہے“۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ بڑے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ ریپ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔ اُتر پردیش میں پیش آمدہ ایک واقعہ کی طرف اشارے کے ساتھ انہوں نے کہا ”شاہ فیصل نے موجودہ حالات پر جو کہا فرض کرتے ہیں کہ غلط کہا ہے۔ جو لوگ آج قتل کے الزامات میں ملوث ہیں اُن کو جب پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں تو کیا وہ غلط نہیں۔ اگر منسٹر یہاں قتل کے الزامات جھیلنے والوں کو پھولوں کے ہار پہنائیں گے تو ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں۔ اگر دوسری ریاستوں میں افسر سماجی میڈیا کے ذریعہ ایسی ایسی باتیں پھیلائیں جن کا مقصد مذہبی فسادات برپا کرنا ہوتا ہے، ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں۔ کچھ مرکزی لیڈران کی طرف سے ہمیں غلط اور بے بنیاد باتیں سننے کو ملتی ہیں ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں“۔
شاہ فیصل کے ماتحت کام کرنے والوں کا عمر عبداللہ کی بات کے ساتھ اس حد تک اتفاق ہے کہ فیصل ابھی تک بد عنوانی سے پاک ایک دیانتدار افسر ثابت ہوئے ہیں۔
بعدازاں ایک ٹویٹ میں عمر عبداللہ نے کہا ’’ایسا لگتا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ (حکومت ہند) نے شاہ فیصل کا پیچھا کرنے پر بضد ہے۔ صفحے (محکمانہ تحقیقات کے حکم نامے) کی آخری سطر افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔ اس میں فیصل کی ایمانداری اور دیانتداری پر سوال کھڑا کیا گیا ہے۔ ایک طنزیہ ٹویٹ بے ایمانی کیسی ہوسکتی؟ یہ (ٹویٹ) اسے کیسے کرپٹ بناسکتا؟“۔ شاہ فیصل کے ماتحت کام کرنے والوں کا عمر عبداللہ کی بات کے ساتھ اس حد تک اتفاق ہے کہ فیصل ابھی تک بد عنوانی سے پاک ایک دیانتدار افسر ثابت ہوئے ہیں۔