سرینگر// دہشت گرد تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے اپنے سربراہ مُلا فضل اللہ کی 14 جون کو افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ میں ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کی پہلی مرتبہ تصدیق کرنے کے ساتھ ہی مفتی نور ولی محسود کو اپنا نیا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے مختلف خبررساں اداروں کو بھیجے گئے بیان میں ملّا فضل اللہ کی امریکا کے ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ’’ ہمارے لیے یہ امر باعث فخر ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تمام لیڈر کافروں کے حملوں میں مارے گئے ہیں‘‘۔فضل اللہ کے دو پیش رو حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود بھی ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
ترجمان نے مزید بتایا ہے کہ گروپ کی شوریٰ کونسل نے مفتی نور ولی محسود کو نیا امیر منتخب کر لیا ہے۔اس نئے امیر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان صاحب ہی نے 2012ء میں ملالہ یوسف زئی پر سوات میں قاتلانہ حملے کا حکم دیا تھا ۔ملا لہ اس حملے میں محفوظ رہی تھیں، وہ بعد میں ایک ہیرو کے طور پر ابھری تھیں اور انھیں کم عمری ہی میں نوبل امن انعام سے نواز دیا گیا تھا۔
ملّا فضل اللہ تو سفاکیت کی علامت سمجھے جاتے تھے لیکن اس کے برعکس چالیس سالہ مفتی نور ولی علمی پس منظر کے حامل ہیں۔انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی اور وہ بیت اللہ کے نائب کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔
انھوں نے رواں سال کے اوائل میں ایک کتاب لکھی تھی ۔اس میں انھوں نے پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعے کی منصوبہ بندی کا ذکر کیا ہے اور دہشت گردی کے اس واقعے میں ملوث جنگجوؤں کی شناخت ظاہر کی ہے۔ ان میں ایک جنگجو ابھی تک مفرور ہے۔اس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ جنوبی وزیرستان میں کہیں چھپا ہوا ہے۔
ملّا فضل اللہ تو سفاکیت کی علامت سمجھے جاتے تھے لیکن اس کے برعکس چالیس سالہ مفتی نور ولی علمی پس منظر کے حامل ہیں۔انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی اور وہ بیت اللہ کے نائب کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔
نور ولی محسود نے افغانستان میں امریکا کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کے خلاف بھی جنگ لڑی تھی اور پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر ٹی ٹی پی کے حملوں میں حصہ لیا تھا۔انگریزی روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق وہ تحصیل سرا روغہ کے علاقے گورگورے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کا نسلی تعلق محسود قبیلے کی ذیلی شاخ مچھی خیل سے ہے ۔ وہ بیت اللہ محسود کی قائم کردہ ایک عدالت میں قاضی بھی رہے تھے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے مختلف خبررساں اداروں کو بھیجے گئے بیان میں ملّا فضل اللہ کی امریکا کے ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ’’ ہمارے لیے یہ امر باعث فخر ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تمام لیڈر کافروں کے حملوں میں مارے گئے ہیں‘‘۔فضل اللہ کے دو پیش رو حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود بھی ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
ترجمان نے مزید بتایا ہے کہ گروپ کی شوریٰ کونسل نے مفتی نور ولی محسود کو نیا امیر منتخب کر لیا ہے۔اس نئے امیر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان صاحب ہی نے 2012ء میں ملالہ یوسف زئی پر سوات میں قاتلانہ حملے کا حکم دیا تھا ۔ملا لہ اس حملے میں محفوظ رہی تھیں، وہ بعد میں ایک ہیرو کے طور پر ابھری تھیں اور انھیں کم عمری ہی میں نوبل امن انعام سے نواز دیا گیا تھا۔
ملّا فضل اللہ تو سفاکیت کی علامت سمجھے جاتے تھے لیکن اس کے برعکس چالیس سالہ مفتی نور ولی علمی پس منظر کے حامل ہیں۔انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی اور وہ بیت اللہ کے نائب کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔
انھوں نے رواں سال کے اوائل میں ایک کتاب لکھی تھی ۔اس میں انھوں نے پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعے کی منصوبہ بندی کا ذکر کیا ہے اور دہشت گردی کے اس واقعے میں ملوث جنگجوؤں کی شناخت ظاہر کی ہے۔ ان میں ایک جنگجو ابھی تک مفرور ہے۔اس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ جنوبی وزیرستان میں کہیں چھپا ہوا ہے۔
نور ولی محسود نے افغانستان میں امریکا کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کے خلاف بھی جنگ لڑی تھی اور پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر ٹی ٹی پی کے حملوں میں حصہ لیا تھا۔انگریزی روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق وہ تحصیل سرا روغہ کے علاقے گورگورے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کا نسلی تعلق محسود قبیلے کی ذیلی شاخ مچھی خیل سے ہے ۔ وہ بیت اللہ محسود کی قائم کردہ ایک عدالت میں قاضی بھی رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئیں