اسٹاک ہوم // سویڈن میں ملک کی تیسری بڑی مسجد ،ویکسجو مسجد،میں باالآخر اذان دئے جانے کی حکام نے اجازت دیدی ہے۔یہ جازت تاہم ہفتے میں فقط ایک دن،جمعہ،کیلئے ہے اور مسلمانوں کو پونے چار منٹ کیلئے اجازت دی جا چکی ہے۔سویڈن کی پولیس نے ملک میں عام انتخابات سے 5ماہ قبل ہی ایک مسجد کو ہفتہ وار اذان کی اجازت دے دی جہاں پر حالیہ برسوں میں پناہ گزینوں کی آمد بھی جاری رہی ہے ۔پولیس کی جانب سے ایک سال کے لیے دی گئی اجازت پر چند سیاست دانوں کو تشویش ہے کہ اس سے ملک میں ثقافتی حوالے سے کشیدگی ہوگی جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ 9ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے یہ ایک متوازن قدم ہے ۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ویکسجو میں قائم مسجد میں ہر جمعہ کو 3منٹ 45سیکنڈز تک اذان دینے کی اجازت ہوگی۔
ایک غیر ملکی خبرایجنسی سے بات کرتے ہوئے سٹی کونسل آنا ٹینجے کا کہنا تھا کہ ”’اذان سے مشرقی شہر ویکسجو میں افہام و تفہیم کو تقویت نہیں ملے گی بلکہ اس سے شہر میں مزید تقسیم کا خدشہ ہے“’۔سویڈن کی جماعت سوشل ڈیموکریٹس کے وزیراعظم اسٹیفن لوفون کا کہنا تھا کہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بے روزگاری سے نمٹنے اور اسکولوں کے اعلیٰ معیار کو یقینی بنانا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ”’سویڈن کا پورا معاشرہ مختلف مذاہب پر مشتمل ہے“’۔سویڈن کے پرائیویٹ ٹی وی چینل میں نشر ہونے والی رپورٹ میں سماجی تحقیقاتی کمپنی ایس آئی ایف او کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 60فیصد شہری سویڈن میں اذان پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا تھا کہ ویکسجو میں قائم مسجد میں ہر جمعہ کو 3منٹ 45سیکنڈز تک اذان دینے کی اجازت ہوگی۔کرسچن ڈیموکریٹس کے رہنما ایبا بوش تھور نے کہا کہ ”شہریوں کو ان کے گھروں میں اس کی آواز نہیں آنی چاہیے “۔پولیس کا کہنا تھا کہ مسجد کے اسپیکر کی آواز کو ایک خاص حد سے زیادہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تاکہ قریبی گھروں میں موجود افراد کو اذیت نہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ مذہب کی بنیاد پر نہیں کیا گیا ہے بلکہ قومی قانون کے تحت کیا گیا ہے ۔
ہزاروں افراد سالانہ مسجد میں آتے ہیں اور اذان کی خواہش کرتے ہیں۔
سویڈن میں موجود مسلمانوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے تاہم سویڈش ایجنسی فار سپورٹ ٹو فیتھ کمیونیٹیز کے ایک اندازے کے مطابق ملک میں 4 لاکھ کے قریب مسلمان ہیں۔ویکسجو میں مسلمان برادری کے ترجمان آویدی اسلامی کا کہنا تھا کہ ہزاروں افراد سالانہ مسجد میں آتے ہیں اور اذان کی خواہش کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ”ہمارا ایک ایسا معاشرہ جہاں ہم مختلف ہیں اور ہمیں ان اختلافات سے خود کو مضبوط تر بنالینا چاہیے“۔