سعودی عرب کے فوجی سربراہ،چوٹی کے کئی کمانڈر برطرف

ریاض// بدعنوانی کے نام پر کئی وزراءحکام اور شخصیات کے خلاف مہم چلانے کے بعد اب سعودی عرب نے فوج میں زبردست ردو بل کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے چیف آف اسٹاف سمیت چوٹی کے فوجی کمانڈروں کو برطرف کر دیا ہے ۔ذرائع کے مطابق سعودی شاہ سلمان نے بری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو بھی تبدیل کر دیا ہے ۔یہ خبر سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی نے جاری کی ہے مگر اس میں ان برطرفیوں کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ سعودی عرب کی افواج گذشتہ تین برس سے یمن میں باغیوں سے برسرِ پیکار ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ ملک میں روبہ عمل ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے پیچھے دراصل ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے ۔

یمن میں محمد بن سلمان ہی نے فوجی مداخلت کا آغاز کیا تھا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ سعودی عرب کی روایتی محتاط حکمت عملی میں تبدیلی آ چکی ہے ۔

گذشتہ برس شہزادوں، وزرا اور ارب پتی تاجروں سمیت درجنوں سعودی شہریوں کو پکڑ کر رٹز کارلٹن ہوٹل میں قید کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ شہزادہ محمد کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف چلائی جانے والی مہم بتائی گئی تھی۔ ایس پی اے کے مطابق چیف آف سٹاف جنرل عبدالرحمن بن صالح البنیان ان افراد میں شامل ہیں جنہیں عہدہ سے برطرف کیا گیا ہے ۔ کئی فوجی افرسران کو برطرف کیے جانے والے افسران کے عہدوں پر تقرری دے دی گئی ہے ۔اسی اثنا میں کئی سیاسی تقرریوں کا اعلان بھی کیا گیا جن میں ایک خاتون نائب وزیر کی تعیناتی کا نایاب فیصلہ شامل ہے ۔ تمادار بنت یوسف الرمہ کو مزدور اور سماجی بہبود کی وزرات میں تعینات کیا گیا۔ شہزادہ ترکی بن طلال کو نیا جنوب مغربی صوبے عصیر کا نائب گورنر تعینات کیا گیا ہے ۔وہ کروڑ پتی شہزادے ولید بن طلال کے بھائی ہیں جنہیں بد عنوانی کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور دو ماہ بعد رہا کیا گیا۔ یہ شاہ سلمان کے دور میں برپا ہونے والے متعدد انقلابات میں ایک اور انقلاب ہے ۔ تاہم اس کے پیچھے بھی ان کے صاحبزادے محمد بن سلمان کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے ۔

یمن میں محمد بن سلمان ہی نے فوجی مداخلت کا آغاز کیا تھا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ سعودی عرب کی روایتی محتاط حکمت عملی میں تبدیلی آ چکی ہے ۔ سعودی عرب کی یمن میں فوجی کارروائی اب تک اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی حد تک ناکام رہی ہے ۔ اور اس دوران اسے وہاں پیدا ہونے والے انسانی بحران کی قیمت چکانا پڑی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس جنگ سے سعودی خزانے پر بھاری بوجھ پڑا ہے ۔

Exit mobile version