انجینئر رشید کا حُریت کیلئے نیا پلان،نئی پیشکش!

سرینگر// اسمبلی میں ہونے کے باوجود علیٰحدگی پسندوں کے جیسی سیاست کرنے کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے آرہے انجینئر رشید نے مشترکہ مزاحمتی قیادت کو عطیات جمع کرکے شوپیاں میں مارے گئے نوجوانوں کے خاندانوں کی امداد کرنے کا مشورہ دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ بصورت دیگر وہ لوگ درجہ چہارم کی سرکاری نوکری اور معاوضہ لیں گے اور ہندوستان پھر سمجھے گا کہ اس نے کشمیریوں کے خون کی قیمت چکائی ہے۔انجینئر رشید نے اس مد میں ”اپنی حلال کمائی میں سے“حصہ ڈالنے کی بھی پیش کش کی ہے۔

” ایسے میں نئی دلی تک بھی یہ واضح پیغام پہنچایا جاسکتا ہے کہ کشمیر ی بھکاری نہیں ہیں اور یہاں جاری تحریک عوامی تحریک ہے جسکے لئے یہاں کے لوگ خون کے ساتھ ساتھ کچھ بھی دیتے آرہے ہیں“۔

انجینئر رشید نے یہ مشورہ ایک فیس بُک لائیو کے ذرئعہ مزاحمتی قیادت تک پہنچانا چاہا ہے۔واضح رہے کہ وہ سوشل میڈیا پر خاصے سرگرم ہیں اور انکے فیس بُک پیج پر انکے قریب ڈیڑھ لاکھ حامی ہیں جنہیں وہ تقریباََ روزانہ بنیادوں پر ”لائیو“کے ذرئعہ مخاطب کرتے ہیں۔پیر کی صبح کو انہوں نے ایک مختصر ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ سہ پہر چار بجے وہ مزاحمتی قیادت کیلئے بہت ہی اہم بات رکھنے والے ہیں جسکے بعد انہوں نے سوا چار بجے کے قریب لائیو ویڈیو میں حریت کانفرنس کے سامنے یہ تجویز رکھی۔انہوں نے کہا”میں حریت کے بزرگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب بھی یہاں کوئی شہید ہوتا ہے تو دو چار دن ہم مین سٹریم کے سیاستدانوں کو گالیاں دیتے ہیں لیکن کچھ دن بعد انہی میں سے کوئی چوری چھپے جاکر متاثرہ خاندانوں کو چار پانچ لاکھ روپے کا معاوضہ یا درجہ چہارم کی نوکری دیتا ہے اور پھر یہی سودا بیچ کر دنیا کو گمراہ کیا جاتا ہے۔دوسری طرف ہم اس خاندان کو گالیاں دینے لگتے ہیں اور وہ ایک تو اپنا لخت جگر کھوچکے ہوتے ہیں اور دوسری طرح اپنے ہی لوگوں کے عتاب کا شکار بھی ہوجاتے ہیں“۔اسے ایک مسئلہ بتاتے ہوئے وہ یوں اپنی تجویز پیش کرتے ہیں”میری ایک تجویز ہے اپنی حریت کانفرنس یا مشترکہ مزاحمتی قیادت سے،میں بہر حال، چاہے لاکھ اختلافات سہی انکو ہی لوگوں کی جائز آواز سمجھتا ہوں۔میں ان سے اپیل کرتا ہوںکہ وہ اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرکے نئی دلی تک یہ بات پہنچائیں کہ ہماری تحریک پاکستان کے پیسے سے نہیں چلتی ہے۔اگر مشترکہ مزاحمتی قیادت چاہے تو وہ لوگوں سے اپیل کرکے اتنے عطیات جمع کرائیں کہ ان دو لڑکوں کے گھروں کی اتنی امداد کی جائے کہ انہیں سرکاری مععاوضہ لینے کی ضرورت نہ ہو“۔انہوں نے کہا کہ شوپیاں میں مارے گئے نوجوان اگر مارے نہ گئے ہوتے اور انہیں عام سی سرکاری نوکری مل جاتی تو وہ بقیہ زندگی میں قریب چالیس چالیس لاکھ روپے کماتے۔انہوں نے کہا ہے کہ اسکی بجائے دونوں ”شہداءکے وارثین“ کو پچاس پچاس لاکھ روپے کی رقم دی جانی چاہیئے”تاکہ محبوبہ مفتی(وزیر اعلیٰ)یا کسی میں یہ ہمت نہ ہو کہ مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے وہ ان خاندانوں کو ایس آر او43کے تحت درجہ چہارم کی نوکری یا چند لاکھ روپے دیکر انکی جان کی قیمت مقرر نہ کرے“۔واضح رہے کہ شوپیاں میں چند روز قبل فوج نے فائرنگ کرکے دو نوجوانوں کو جاں بحق کردیا ہے جبکہ پولس اس سلسلے میں فوج کے خلاف ایف آئی آر دائر کرچکی ہے۔اس طرح کے واقعات میں ریاستی سرکارمتاثرہ خاندانوں کو چند لاکھ روپے کا معاوضہ یا ایس آر او43کے تحت درجہ چہارم کی سرکاری نوکری دیتی آرہی ہے۔حالانکہ فوجی کارروائی کا شکار ہونے والے اکثر اپنے خاندانوں کے واحد کماو ہوتے ہیں تاہم سرکار سے معاوضہ لینے کیلئے انہیں سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔علیٰحدگی پسند قیادت پہلے پہل اس طرح کا معاوضہ نہ لینے کی ہدایات دیتی رہی ہے ۔

بعض لوگ اسے ایک ”ڈرامہ“بتاتے ہوئے انہیں آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کے قریب سمجھتے ہیں جبکہ این آئی اے نے انہیں علیٰحدگی پسندوں کے خلاف زیر تفتیش ایک معاملے میں گذشتہ سال کئی بار پوچھ تاچھ کیلئے بلایا تھا

انجینئر رشید کا کہنا ہے”اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو محبوبہ مفتی اور پولس افسران آئیندہ کچھ کرنے سے پہلے دس بار سوچیں گے کہ کشمیری لوگ ہمیں اپنے خون کی قیمت نہیں لگانے دینگے“۔وہ کہتے ہیں کہ انکی تجویز پر عمل کیا جائے تو” ایسے میں نئی دلی تک بھی یہ واضح پیغام پہنچایا جاسکتا ہے کہ کشمیر ی بھکاری نہیں ہیں اور یہاں جاری تحریک عوامی تحریک ہے جسکے لئے یہاں کے لوگ خون کے ساتھ ساتھ کچھ بھی دیتے آرہے ہیں“۔سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے اس تجویز کا کوئی مثبت یا منفی ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ انجینئر رشید ،جوممبر اسمبلی ہونے کے باوجود بھی علیٰحدگی پسندوں کے جیسی سیاست کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں،نے گذشتہ سال اسمبلی سے مستعفی ہوکر حریت میں شامل ہونے پر آمادہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔تاہم حریت کے دونوں دھڑوں یا ان سے باہر علیٰحدگی پسند جماعتوں نے انکی اس پیش کش پر بھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا تھا۔شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں حلقہ انتخاب لنگیٹ کے نمائندہ انجینئر رشیدسرکاری اداروں پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگاتے رہے ہیں اور وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری کو واحد راستہ بتاتے ہیں۔ بعض لوگ اسے انجینئر کا ”ڈرامہ“بتاتے ہوئے انہیں آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کے قریب سمجھتے ہیں جبکہ این آئی اے نے انہیں علیٰحدگی پسندوں کے خلاف زیر تفتیش ایک معاملے میں گذشتہ سال کئی بار پوچھ تاچھ کیلئے بلایا تھا۔تاہم انہوں نے گذشتہ ہفتے ریاست کے ایک سرکردہ انگریزی اخبار میں اپنے ہفتہ وار کالم کو ”میں اعتراف کرتا ہوں“کا عنوان دیا اور اسکا آغاذ ان الفاظ کے ساتھ کیا”کئیوں کیلئے انجینئر رشید ایک ڈرامہ کرنے والا ،جوکر،جاسوس،پریشانی،مشکوک،ایک اداکاراور(کسی کاپراکسی)ہے لیکن کم از کم میرے اپنے لئے میں اپنے ضمیر کا قیدی۔میں اپنی شانِ رفتہ اور عزت نفس کو بچانے کا مشتاق ہوں کہ جو مجھ سے تب چھینی گئی تھی کہ جب میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا“۔

Exit mobile version