قصور//چودہ دن تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد زینب سمیت آٹھ بچیوں کے ریپ اور قتل کے ملزم عمران علی کو لاہور کے قریب واقع شہر قصور سے گرفتار کیا گیا۔مگر ایک سوال ہر ایک کے ذہن میں تھا کہ تصاویر کی موجودگی میں جہاں عمران علی بہروپ بدل کر ہر معاملے میں سامنے رہا آخر ایسا کیا ہوا جو نظر اس پر پڑی؟
اس واقعے کے تحقیقات کرنے پولیس اہلکاروں میں سے ایک نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کے پاس سی سی ٹی وی شواہد تھے جن میں ایک چہرہ تھا۔مگر اس چہرے کی تلاش بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھا تو پولیس نے یہ تفتیش کیسے سرانجام دی؟
پولیس کا چیلنج
قصور کی آبادی تیس لاکھ کے قریب ہے جس میں سے تحصیل یعنی شہر کی آبادی سات سے آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ اس میں سے خواتین اور بزرگ نکالنے کے بعد 60 سے 70 ہزار کے قریب افراد تفتیش کے پہلے مرحلے میں شامل ہوئے۔ان میں سے مختلف افراد کو جسمانی اور چہرے کے خدوخال کی بنیاد پر مزید چھان پھٹک کے عمل سے گزارا گیا۔جس کے بعد تفتیشی ٹیمیں روٹ پر نکلیں اور اس علاقے کے گھر گھر جا کر ان افراد کی حتمی فہرست بنائی گئی جن کا ڈے این اے کیا گیا۔تقریباً 1100 افراد اس حتمی عمل سے گزرے جن کا ڈی این کیا گیا۔ڈی این اے ٹیسٹ کے اس مرحلے پر پاکستان فورینزکس سائنس ایجنسی کی جانب سے ایسے افراد کی فہرست سامنے آئی جن کے نتائج قاتل کے ڈی این کے قریب ترین تھے۔ان افراد کی فہرست سامنے آنے کے بعد پولیس نے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا۔
ملزم کی والدہ اور چچا نے بتایا کہ انھیں ٹی وی پر فوٹیج دیکھنے کے بعد شک تو ہوا تھا اور باتیں شروع ہوئیں کہ اس کی شکل ملتی ہے مگر کسی نے پولیس کو بتانے کی زحمت نہیں کی۔
جیکٹ کے بٹن
سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں ملزم عمران علی نے داڑھی رکھی ہے اور ایک زِپ والی جیکٹ پہن رکھی ہے جس کے دونوں کاندھوں پر دو بڑے بٹن لگے ہوئے ہیں۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں جیکٹ کا رنگ سفید نظر آرہا ہے جو اس کا حقیقی رنگ نہیں مگر یہ کوئی بھی گہرا رنگ ہو سکتا تھا۔چھاپے کے دوران عمران علی کے گھر سے ایسی ہی ایک جیکٹ ملی جس کے دونوں بٹنوں کی مدد سے یہ پولیس ملزم کی گردن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔اس کا ڈی این اے جب مکمل میچ ہوا تو پھر صرف گرفتاری ہی آخری کام رہ گیا تھا جس میں اس کی والدہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مدد کی۔گرفتاری کے لیے ڈی پی او وہاڑی عمر سعید جنہیں اسی قسم کا کیس ریکارڈ وقت میں حل کرنے کی وجہ سے آئی جی پنجاب نے خصوصی طور پر اس جے آئی ٹی میں شامل کیا تھا ملزم کے گھر گئے اور انہیں گرفتار کر کے گھر کی تلاشی لی۔یوں ایک سیریل کِلر اپنی مخصوص جیکٹ کی وجہ سے پکڑا گیا۔ملزم سے تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم نے بہت زیادہ پس و پیش نہیں کی اور دوسری بات پر ہی اس نے سارے قتل اور جرائم مان لیے۔یوں ایک سیریل کِلر اپنی مخصوص جیکٹ کی وجہ سے پکڑا گیا۔
ملزم نے بہت زیادہ پس و پیش نہیں کیا
ملزم پولیس کی توقع کے برعکس اتنا چالاک اور ہوشیار نہیں تھا بلکہ چند پولیس افسران نے تو یہ تک کہا کہ اگر پولیس اس کیس کو شروع سے بلکہ پہلے قتل کے بعد ہی سنجیدگی سے لیتی اور درست لائن پر تفتیش کرتی تو معاملات اتنی سنگینی نہ اختیار کرتے۔ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ ‘زینب کو قتل کرنے کے بعد وہ میلاد کی محفل میں گیا‘۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے محفل میں جانے قبل وضو کیا یا تیاری کی تو ملزم کا جواب نفی میں تھا۔
ملزم کی والدہ اور چچا نے بتایا کہ انھیں ٹی وی پر فوٹیج دیکھنے کے بعد شک تو ہوا تھا اور باتیں شروع ہوئیں کہ اس کی شکل ملتی ہے مگر کسی نے پولیس کو بتانے کی زحمت نہیں کی۔یاد رہے کہ ملزم علی عمران کے والد کا انتقال گذشتہ سال 12 دسمبر کو ہوا تھا۔پولیس کے مطابق ملزم نہ صرف سیریل کِلر یعنی قاتل ہے بلکہ ایک سیریل پیڈوفائل بھی ہے جو نفسیاتی حد تک بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔ملزم نے دورانِ تفتیش بتایا کہ وہ پکڑے جانے کے ڈر سے بچوں کا گلا گھونٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتارتا تھا۔ملزم نے دورانِ تفتیش بتایا کہ اس نے پانچ بچیوں کو زیرِ تعمیر گھروں میں ریپ کر کے قتل کیا اور لاش قتل کے دن ہی ٹھکانے لگا دی۔جبکہ زینب سمیت تین لڑکیوں کو کوڑے کے ڈھیر کے قریب یا اسی پر ریپ کر کے قتل کر کے پھینک دیا جہاں سے زینب کی لاش ملی تھی۔بشکریہ (بی بی سی اردو)
یہ بھی پڑھیں