سرینگر// مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما نے اپنے ”مشن کشمیر“کے دوسرے دور کے دوران پروفیسر غنی بٹ سمیت کم از کم دو حُریت لیڈروں کے ساتھ ملاقات کی ہے اگرچہ مشترکہ مزاحمتی قیادت نے شرما سے نہ ملنے کا فیصلہ لیا ہوا ہے۔بٹ نے شرما کے ساتھ ہوئی ملاقات کی تفصیلات تو نہیں بتائی ہیں تاہم اُنکا کہنا ہے کہ اُنکے دروازے کسی کیلئے بھی کھلے ہیں اور وہ ”کسی سے کیوں نہ ملیں“۔
حالانکہ انفرادی حیثیت میں بٹ کی اس ملاقات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے تاہم لوگ چمہ گوئیاں کر رہے ہیں کہ قیادت کے پالیسی فیصلے کے خلاف جانے پر کہیں بٹ کو حریت سے باہر تو نہیں کیا جائے گا کہ جیسا شہرت کی بلندیوں پر رہنے کے باوجود کبھی شبیر شاہ کے ساتھ کیا گیا تھا
ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اکنامک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ دنیشور شرما 27نومبر کی رات کو ساڑھے دس بجے غنی بٹ کے وزیر باغ سرینگر میں واقع بنگلے پر پہنچ گئے جہاں بٹ ایک اور حُریت لیڈر سمیت اس خاص مہمان کے منتظر تھے۔ٹائمز نے دوسرے لیڈر کا نام تو ظاہر نہیں کیا ہے البتہ کہا ہے کہ رات کے اندھیرے میں ہونے والی یہ ملاقات کم و بیش گھنٹے بھر کی تھی۔حالانکہ بٹ کی موجودہ مزاحمتی قیادت میں بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے تاہم وہ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حُریت کانفرنس کے ایک سینئر لیڈر ہیں اور مولوی ،یٰسین ملک اور سید علی شاہ گیلانی کی مشترکہ مزاحمتی قیادت نے نئی دلی کی نیت پر شک کرتے ہوئے دنیشور شرما کے ”مشن کشمیر“کو ایک سعی لاحاصل قرار دیاہے اور اسکا حصہ نہ بننے کا فیصلہ اور اعلان کیا ہوا ہے۔حالانکہ دنیشور شرما نے وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی سے حُریت کو شامل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک اپنا ”اثرورسوخ“استعمال کرنے کیلئے کہا ہوا ہے اور ریاستی سرکار اس حوالے سے زبردست کوششیں کر چکی ہے۔چناچہ شرما کے ساتھ ملاقات پر آمادہ ہونے کیلئے سید علی شاہ گیلانی کے یہاں بھی دو ایک ہفتے قبل رات کے اندھیرے میں ایلچی بھیجا جاچکا تھا تاہم،سید گیلانی کے یہاں سے جاری ہوئے ایک اخباری بیان کے مطابق،اُنہوں نے مذخورہ کیلئے گھر کا پھاٹک تک نہیں کھولا۔
پروفیسر غنی نے اس حوالے سے اُنسے پوچھے جانے پر کہا ہے”ہمارے دروازے مذاکرات کیلئے کھلے ہیں،ہم لوگوں کے ساتھ بات کیوں نہ کریں؟ہم صحافیوں سے ملتے ہیں اور بعض اوقات یہاں آنے والی وفود سے ملتے ہیں،ہم نے ایسا یشونت سنہا کے ساتھ بھی کیا تھا،کوئی اور لوگ ہم سے ملنے آئیں تو ہم اُنسے کیوں نہ ملیں“۔تاہم مذاکرات میں پاکستان کی شمولیت کو لازمی بتاتے ہوئے اُنہوں نے کہا ہے”ہم محسوس کرتے ہیں کہ جب تک نہ پاکستان کو شامل کیا جائے،کوئی پیشرفت نہیں ہو سکتی ہے“۔اُنہوں نے مزید کہا ہے کہ ہندوپاک کو مسئلہ کشمیر پر بات کرنی چاہیئے اور ساتھ ہی دونوں ممالک کو کشمیریوں کے ساتھ بھی بات کرنی چاہیئے۔
شرما کے ساتھ ملاقات پر آمادہ ہونے کیلئے سید علی شاہ گیلانی کے یہاں بھی دو ایک ہفتے قبل رات کے اندھیرے میں ایلچی بھیجا جاچکا تھا تاہم،سید گیلانی کے یہاں سے جاری ہوئے ایک اخباری بیان کے مطابق،اُنہوں نے مذخورہ کیلئے گھر کا پھاٹک تک نہیں کھولا۔
وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے 23اکتوبر کو مذاکرات کار نامزد کئے جانے کے بعد دنیشور شرما دو بار کشمیر آئے ہیں تاہم وہ مین اسٹریم کی کچھ سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان کو چھوڑ کر چند محلہ کمیٹیوں،گمنام کلبوں اور انجمنوں کے سوا کسی سے ملنے میں کامیاب نہیں رہے تھے تاہم دوسرے دورے کے دوران اُنہوں نے پروفیسر غنی کے یہاں اپنے لئے دروازہ کھلوانے سے ایک سُرخی ضرور بٹور لی ہے۔حالانکہ انفرادی حیثیت میں بٹ کی اس ملاقات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے تاہم لوگ چمہ گوئیاں کر رہے ہیں کہ قیادت کے پالیسی فیصلے کے خلاف جانے پر کہیں بٹ کو حریت سے باہر تو نہیں کیا جائے گا کہ جیسا شہرت کی بلندیوں پر رہنے کے باوجود کبھی شبیر شاہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
مذاکرات کار کے نئے وِچار،حُریت سے ملنے کو تیار!
ایک نظر ادھر بھی