سنگبازوں کی رہائی کا اعلان،مزاحمتی قائدین کو للچانے کی کوشش

سرینگر// سرکاری فورسز پر سنگبازی کرنے کے ملزم بعض نوجوانوں کے خلاف دائر مقدمات کو واپس لئے جانے کے سرکاری اشارے کو اگرچہ وادی میں عام لوگوں نے زیادہ اہمیت تو نہیں دی ہے تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے سرکار علیٰحدگی پسند قیادت کو مذاکراتی میز پر آنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ چونکہ مذاکرات کار دنیشور شرما کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کرکے علیٰحدگی پسندوں نے مرکزی سرکار کے اس تازہ مشن کشمیر کی اعتباریت کو چوٹ پہنچائی ہے لہٰذا مرکزی سرکار نے سنگبازوں کے خلاف دائر معاملات کا جائزہ لئے جانے کی بات کہکر اپنی ”سنجیدگی“کا اظہار کرنا چاہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سرکار کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ کشمیر کی صورتحال سے سکیورٹی کے زاویہ نگاہ سے ہی نہیں نپٹا جا سکتا ہے۔

سنٹرل یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ نگار شیخ شوکت حسین کے مطابق چونکہ علیٰحدگی پسند قیادت نے مرکز کے مذاکرات کار دنیشور شرما کے ساتھ بات کرنے سے انکار کیا ہے لہٰذا مرکزی سرکار نے سنگبازوں کے خلاف دائر معاملات کا جائزہ لینے کا اعلان کرواکے دراصل علیٰحدگی پسندوں کو میز پر آنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔انکا کہنا ہے کہ پہلی بار سنگبازی کے الزام میں پھنسنے والے نوجوانوں کے مقدمات کے جائزہ اور انکی رہائی سے در اصل حکومت ہند وادی کے عوام سے مذاکرات کاری کے تئیں ایک مثبت ردعمل چاہتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ ایسے میں علیٰحدگی پسند قیادت میز پر آنے کو آمادہ ہو جائے گی۔واضح رہے کہ حکومت ہند نے 23اکتوبر کوانٹیلی جنس بیورو یا آئی بی کے سابق سربراہ دنیشور شرم کو جموں کشمیر میں مذاکرات کاری پر تعینات کردیا تھا اور انہوں نے 6نومبر کو ریاست کا پہلا دورہ کیا تھا جبکہ وہ جمعہ کو ریاست کے دوسرے دورے پر پہنچ چکے ہیں۔علیٰحدگی پسند قیادت نے تاہم مسٹر شرما کے مشن کشمیر کو وقت گذاری کیلئے شروع کردہ ایک بے معنیٰ عمل قرار دیتے ہوئے اس میں شامل ہونے سے انکار کیا ہوا ہے حالانکہ مسٹر شرما نے کئی بار کہا ہے کہ دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ علیٰحدگی پسند قیادت کے ساتھ بھی مذاکرات کرنے کی کوشش کرینگے۔

پروفیسر حسین کا کہنا ہے کہ حکومت ہند کو اس مذاکراتی عمل کیلئے اعتباریت ضرورت ہے اور اسی وجہ سے علیٰحدگی پسند قیادت کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انکے مطابق حکومت نے پہلے زبردستی کرنا چاہی تھی اور جب اس سے بات نہ بنی تو اب سنگبازوں کو رہا کردئے جانے کے جیسا اعلان کیا گیا۔تاہم انکا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ 2010کی احتجاجی تحریک کے بعد عمر عبداللہ کے زمانے میں بھی ایسا ہوا تھا لیکن 2016میں لوگ پھر سڑکوں پر آنکلے۔قابلِ ذکر ہے کہ عمر عبداللہ نے1200سنگبازوں کو عام معافی دئے جانے کا اعلان کیا تھا جس پر تاہم پولس اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے اعتراض اٹھائے جانے کے بعد عمل نہیں کیا جا سکا تھا۔

چونکہ علیٰحدگی پسند قیادت نے مرکز کے مذاکرات کار دنیشور شرما کے ساتھ بات کرنے سے انکار کیا ہے لہٰذا مرکزی سرکار نے سنگبازوں کے خلاف دائر معاملات کا جائزہ لینے کا اعلان کرواکے دراصل علیٰحدگی پسندوں کو میز پر آنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ نگار نور احمد بابا بھی شیخ شوکت حسین کے جیسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ دنیشور شرما کی تجاویز پر عمل کرکے مرکزی سرکار مذاکراتی عمل کو کسی حد تک معتبر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔انکا کہنا ہے کہ اگرچہ سنگبازوں کی معافی کا مسئلہ کشمیر کے بڑے اور اہم مسئلے کے ساتھ کوئی تعلق تو نہیں ہے البتہ اس طرح کے فیصلے سے سرکار یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ چیزیں مثبت سمت میں آگے بڑھ سکتی ہیں۔انکا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سرکار کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ کشمیر کی صورتحال سے سکیورٹی کے زاویہ نگاہ سے ہی نہیں نپٹا جا سکتا ہے۔

اپنے دوسرے دورے کے پہلے دن جمعہ کو جموں میں محبوبہ مفتی کے ساتھ ملاقات کے دوران دنیشور شرما نے علیٰحدگی پسند قیادت کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کیلئے وزیرِ اعلیٰ کو ”اپنی سطح پر“کوششیں کرنے کیلئے کہا ہے۔تاہم علیٰحدگی پسند راہنما مولوی عمر فاروق نے کل ہی نماز جمعہ کے موقعہ پر ہزاروں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے سنگبازوں کی معافی کے سرکاری فیصلے کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے اسے ایک مصنوعی اقدام قرار دیا اور کہا کہ اگر سرکار کا واقعہ دل بدل گیا ہو تو پھر اسے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے سبھی سیاسی قیدیوں کو رہا کردینا چاہیئے۔

Exit mobile version