سرینگر// پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس تاثر کو غلط بتایا ہے کہ پاک فوج کے تمام سربراہوں کے ساتھ اُنکے تعلقات ٹھیک نہیں تھے اور یہ کہ اکثر فوجی سربراہوں کے ساتھ اُنکی اچھی نہیں بنی ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ پاک فوج کے سربراہوں کے ساتھ اُنکے تعلقات آئین اور قانون کے دائرے میں رہے ہیں۔
ہم نے آج اس مرض کی تشخیص کر لی ہے اور اس کا علاج تبھی ممکن ہو گا جب پاکستان کی سمت کو درست جانب لے جایا جائے گا
برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اُنہوں نے کہا ہے”اب ہم نے اس مرض کی تشخیص کر لی ہے کہ جس کی وجہ سے اس ملک میں تمام مشکلیں اور مصیبتیں جھیلنی پڑی ہیں۔میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں ، یہی وجہ ہے کہ جے آئی ٹی پر اعتراضات کے باوجود اس کے سامنے پیش ہوا ہوں ، سپریم کورٹ کے فیصلے کو عوام نے مسترد کردیا ہے اس لئے ووٹ کے تقدس کے لئے میں آخری حد تک جاﺅں گا“۔ اُنہوں نے خود کو بے قصور بتاتے ہوئے کہا ہے ”اگر مزید تحقیقات کے دوران جُرم ثابت ہو جاتا ہے تو میں اور میری فیملی جیل جانے کے لئے تیار ہیں ،ووٹ کے احترام کو پاﺅں تلے روندنے کی روایت کو توڑنا ہوگا“۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کی کُرسی پر بیٹھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے لہٰذا وہ اس عہدے کیلئے مرے نہیں جارہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا”مجھے وزارت عظمیٰ کا کوئی شوق نہیں ہے کیوں کہ وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ایک بستر ہے جہاں پر ہر رات پہلو بدلتے ہوئے گزرتی ہے ۔ اس کے لیے ملک کی ایک سمت کا تعین کرنا ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ووٹ کے تقدس کا احترام کریں گے“۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا”میرے سیاسی مخالفین کو میرے وزیر اعظم بننے سے تکلیف ہو رہی ہے۔ جب مشرف نے مارشل لاءلگایا تو وہ اور اُن کے کچھ ساتھی میرے خلاف تھے جبکہ باقی فوج کو تو پتا ہی نہیں تھا کہ ملک میں ایمرجنسی لگ گئی ہے، فوج کا ایک بہت بڑا حصہ مشرف کے فیصلے کے ساتھ نہیں تھا۔ گذشتہ ادوار میں بھی چند افراد نے مارشل لگایا جبکہ پاک فوج کے اکثر افراد اس کے مخالف تھے۔مارشل لاءنے قوم کے ووٹ کا تقدس پامال کرتے ہوئے ووٹ کی پرچی ان کے منہ پر مار دی۔ ملک میں آمروں کے دور نے ترقی کے راستوں کو روکا ہے ۔ہم نے آج اس مرض کی تشخیص کر لی ہے اور اس کا علاج تبھی ممکن ہو گا جب پاکستان کی سمت کو درست جانب لے جایا جائے گا“اُنکا کہنا تھا کہ ووٹ کے تقدس کے لئے وہ پوری جدوجہد کریں گے اور اُن کے پاس ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے تیار ہیں۔