اسلام آباد// حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے نواز شریف کی نااہلی کے بعد شہباز شریف کو متبادل وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہباز شریف کے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے تک خاقان عباسی عبوری وزیر اعظم ہوں گے۔
میاں نواز شریف نے پارلیمانی اجلاس سے خطاب کے دوران اپنے بعد شہباز شریف کو بطور وزیرِ اعظم نامزد کرتے ہوئے جماعت سے ان کی حمایت کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ ‘قومی اسمبلی کے انتخابات لڑنے کے بعد شہباز شریف وزیرِ اعظم بنیں گے تب تک کے لیے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد کرتا ہو۔ ‘
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما کیس کے متفقہ فیصلے میں نہ صرف وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا بلکہ نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
اسے محض اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری نثار علی کے اجلاس سے جانے کے بعد اس کے ماحول میں تناؤ میں کمی محسوس کی گئی اور ایک موقع پر تو قہقہے بھی بکھر گئے جب نواز شریف نے جذباتی انداز میں تقریر کرنے والے ایک رہنما کو روکا جو نواز شریف کے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند دکھائی دے رہے تھے۔
مسلم لیگ نواز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا موقف تھا کہ انھیں آئندہ انتخابات تک پارٹی کو لے کر جانا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ایسی متبادل قیادت چاہتے ہیں جو پارٹی کو اکٹھا رکھ سکے۔
اس موقع پر انھوں نے اپنے متبادل وزیراعظم کے طور پر اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا نام پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا لیکن چونکہ شہباز شریف رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں اس لیے پہلے اجلاس میں اس نام پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا کہ شہباز شریف کے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے تک وزیراعظم کسے بنایا جائے گا۔
پارٹی کو اکٹھا رکھا جائے
ذرائع کے مطابق جمعے کی شام مسلم لیگ نواز کے اجلاس میں جس موضوع پر سب سے زیادہ گفتگو ہوئی وہ مسلم لیگ نواز کو جماعت کے طور پر یکجا اور متحرک رکھنا تھا۔
اجلاس میں موجود بعض مسلم لیگی رہنماؤں کے مطابق نواز شریف اس بات پر بہت یکسوئی کے ساتھ گفتگو کرتے اور مشورے سنتے رہے کہ کس طرح پارٹی کو فعال رکھا جائے۔
اس حوالے سے ایک تجویز جسے سب سے زیادہ پذیرائی ملی وہ نواز شریف اور اہل خانہ کی فوری طور پر بذریعہ سڑک لاہور جانے کی تھی۔
اس تجویز کے پیچھے حکمت یہ بتائی گئی کہ اس طرح سے مسلم لیگ اس ‘غیر منصفانہ’ فیصلے کے خلاف عوامی احتجاج بھی کر سکے گی اور عوام کو بھی متحرک کیا جا سکے گا۔
یہ تجویز تو سکیورٹی اور بعض دیگر خدشات کے باعث مسترد کر دی گئی لیکن اس کے بعد بھی بہت سی تجاویز آئیں جن کا مرکز یہی نکتہ رہا کہ پارٹی کو اکٹھا رکھا جائے۔
مسلم لیگ کے معاملات کو قریب سے جاننے والے صحافی عارف نظامی کہتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد نواز شریف کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پارٹی کے معاملات کو کسی صورت ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔
‘نواز شریف اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے پارٹی کو یکجا رکھنا ان کے مسقتبل کے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ اس بات پر خاصے کلئیر ہیں کہ حکومت تو چلی گئی ہے لیکن پارٹی ہاتھ سے نہیں جانی چاہیے۔’
ذرائع کا کہنا ہے کہ جس دوران شہباز شریف کی نامزدگی کے بارے میں بات چل رہی تھی تو چوہدری نثار اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
انھوں نے جانے سے پہلے نواز شریف سے کمردرد کے باعث اجلاس سے جانے کے لیے اجازت تو لی لیکن ان کے درمیان سرد مہری بہت نمایاں طور پر محسوس کی گئی۔
اسے محض اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری نثار علی کے اجلاس سے جانے کے بعد اس کے ماحول میں تناؤ میں کمی محسوس کی گئی اور ایک موقع پر تو قہقہے بھی بکھر گئے جب نواز شریف نے جذباتی انداز میں تقریر کرنے والے ایک رہنما کو روکا جو نواز شریف کے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند دکھائی دے رہے تھے۔
نواز شریف نے ان کی تقریر میں مداخلت کرتے کہا کہ وہ ان کی فکر نہ کریں اور ساتھ ہی پنجابی زبان کی یہ ضرب المثل سنائی کہ ‘کانسٹیبل سے نیچے کوئی رینک نہیں اور شاہ والی سے آگے کوئی تھانہ نہیں۔’
مطلب یہ کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، اس سے زیادہ برا ہو نہیں سکتا۔