سرینگر// پاکستان میں سپریم کورٹ کی جانب سے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو وزارت و سیاست کیلئے تاحیات نا اہل قرار دئے جانے کو لیکر پاکستان کی ہی طرح جموں کشمیر میں بھی بحث و مباحثے ہوئے ہیں۔ چناچہ نوازشریف کی معزولی کی خبر آںے کے ساتھ ہی کشمیر میں خواندہ اور ناخواندہ سبھی طبقوں نے اس پر ڈھیر ساری باتیں کیں اور اپنے اپنے تاثرات بیان کئے۔ جہاں ناخواندہ لوگ نجی محفلوں اور چوراہوں پر اپنے حلقہ یاران میں پاکستانی سیاست میں آئے بھونچال پر تبصرہ کر رہے ہیں وہیں انٹرنیٹ کو موجودہ دور کی عملی دُنیا سمجھنے والے خواندہ نوجوان سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ دلچسپ تاہم یہ ہے کہ کشمیر میں اس معاملے کو لیکر بھی بھارت اور پاکستان کے بیچ موازنہ کیا کیا جارہا ہے ۔
“یہ تھے پاکستان کے وجے مالیا،لیکن ان کی بد نصیبی کہ یہ پاکستان میں تھے بھارت میں نہیں کہا جہاں انہیں کوئی پکڑتا نہیں بلکہ انہیں برطانیہ بھیجدینے کا سرکاری طور انتظام کیا گیا ہوتا“۔
فیس بُک پر اس بحث کے دوران سو میں سے نوے باتیں بھارت اور پاکستان کے بیچ کا مقابلہ لگیں کہ لوگ نواز شریف کی معزولی کو لیکر بھارت میں پانامہ کے مشکوک رئیسوں اور سیاستدانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کئے جانے کی شکایت کر رہے تھے۔ اس طرح سوچنے والوں کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک بار پھر مہذب ہونے کا ثبوت دیا ہے کہ وزیرِ اعظم پر جُرم ثابت ہوا اور اُنہیں باہر کا دروازہ دکھایا گیا۔
اس معاملے پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں سے وہ لوگ اقلیت میں ہیں کہ جنہوں نے بھارت کا ذکر نہ کیا۔ چناچہ ایک فیس بُک اسٹیٹس یوں تھا “یہ تھے پاکستان کے وجے مالیا،لیکن ان کی بد نصیبی کہ یہ پاکستان میں تھے بھارت میں نہیں کہا جہاں انہیں کوئی پکڑتا نہیں بلکہ انہیں برطانیہ بھیجدینے کا سرکاری طور انتظام کیا گیا ہوتا“۔ نواز شریف کے ساتھ کسی کو بھی ہمدردی نہیں تھی البتہ طنزاََ کئی لوگ یہ ضرور کہہ رہے تھے کہ وہ بھارت میں کیوں پیدا نہ ہوئے کہ جتنا بڑا اسکینڈل کرتے اُتنا ہی بڑا رُتبہ پا گئے ہوتے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے لکھا تھا “یہاں تو قتلِ عام کیلئے وزارتِ عُظمیٰ کا تاج ملتا ہے اور وہاں آپ کو وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے بھی نہیں بخشا گیا“۔
تجزیہ نگار پی جی رسول نے تاہم صحافی ریاض مسرور کے فیس بُک اسٹیٹس کے ردِ عمل میں پاکستانی عدلیہ کے اس فیصلے پر مختصر الفاظ میں ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ عدلیہ نے ملک کو انارکی کی طرف دھکیلنے کا کام کیا ہے۔
انٹرنیٹ پر رائے زنی کرنے والے اس فیصلے کو پاکستان میں عدلیہ اور دیگر آئینی اداروں کی آزادی و خود مختاری کی سند کے بطور بھی دیکھتے ہیں۔ ایسا کہنے والے بھی بھارت کی مثالیں پیش کرتے رہے کہ کس طرح برسوں پر محیط کئی مقدمات کا یہاں کوئی فیصلہ نہیں آنے دیا جاتا ہے اور مبینہ طور سیاسی مداخلت سے عدالتی فیصلوں کو یا تو آنے ہی نہیں دیا جاتا ہے یا پھر انہیں یوں موڈ دیا جاتا ہے کہ مجرم کیلئے پتلی گلی سے نکلنے کا انتظام ہوجائے۔
نامور تجزیہ نگار پی جی رسول نے تاہم صحافی ریاض مسرور کے فیس بُک اسٹیٹس کے ردِ عمل میں پاکستانی عدلیہ کے اس فیصلے پر مختصر الفاظ میں ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ عدلیہ نے ملک کو انارکی کی طرف دھکیلنے کا کام کیا ہے۔ ریاض مسرور نے ایک مخصوص انداز میں لکھا تھا “دی ورڈکٹ : نواز اِز نو لانگر شریف!“ (فیصلہ: نواز اب شریف نہ رہے“۔ پی جی رسول نے ایک اور ردِ عمل میں لکھا “آرمیز ورڈکٹ“(فوجی فیصلہ)۔
سیاستدانوں نے اس معاملے پر کھل کر کوئی رائے زنی تو نہیں کی ہے البتہ نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر نے اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا “اس (فیصلے) کے اصل محرکات کیا ہونگے وہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن کشمیر میں لوگ اسے پاکستانی عدلیہ کے انتہائی با اختیار ہونے کے ایک ثبوت کے بطور دیکھتے ہیں۔ چناچہ (نئی دلی کے) میڈیا نے اکثر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں کسی ادارے کا کوئی اعتبار ہی نہیں ہے لیکن آج ایکبار پھر ثابت ہوگیا کہ وزیرِ اعظم جیسے اعلیٰ ترین عہدیدار کو بیک جنبشِ قلم ہٹادینے کا چمتکار بھی پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے“۔
“وہاں کسی کی بھی حکومت ہو،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے ہم بس ایک مظبوط،مستحکم اور معتبر پاکستان چاہتے ہیں“۔
جموں کشمیر ہائی کورٹ کے ایک وکیل کا بھی ایسا ہی کہنا تھا۔ اُنہوں نے کہا “اس فیصلے سے تو واقعی واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ اس حد تک آزاد ہے کہ موجودہ وزیرِ اعظم تک کے خلاف اس حد تک جا سکتی ہے، حالانکہ ہمارے یہاں ایسی کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی ہے،بھارت میں ہم نے ایسا نہیں ہوتے دیکھا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہاں سیاستدان جتنا بڑا اسکینڈل کرتے ہیں وہ اتنا ہی رُتبہ پاتے ہیں“۔
این آئی اے کی مہم جوئیانہ سرگرمیوں سے پریشان مزاحمتی خیمے سے نواز شریف کی معزولی سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم پوچھنے پر حُریت کانفرنس کے ایک لیڈر نے کہا “وہاں کسی کی بھی حکومت ہو،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے ہم بس ایک مظبوط،مستحکم اور معتبر پاکستان چاہتے ہیں“۔ اُنہوں نے کہا کہ حکمران بدلنے سے مسئلہ کشمیر پر بہت زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ یہ(مسئلہ کشمیر) پاکستان کی قومی پالیسی کا حصہ ہے۔