بھارت کے ساتھ صلح پر اتفاق ہے

سرینگر// جموں کشمیر کی موجودہ صورتحال کو تشویشناک بناتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ یہ صورتحال مذاکراتی عمل کی ضرورت اجاگر کرتی ہے تاہم پاکستان بات چیت کے لئے بھیک نہیں مانگتا ہے۔کشمیر مسئلہ کے بھارت اور پاکستان کے مابین بنیادی تنازعہ ہونے کے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے نئی دلی میں پاکستانی سفیر عبدالباسط نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کئے بغیر پورے جنوب ایشیائی خطے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

سرینگر سے شائع ہونے والے رائزنگ کشمیر کے ساتھ ایک انٹرویو میں عبدالباسط نے کہا ہے کہ ہندوپاک اپنے مسائل کو بات چیت کئے بغیر حل نہیں کرسکتے ہیں اور اس وجہ سے اُنہیں ایک نہ ایک دن میز پر آنا ہی ہوگا۔یہ پوچھے جانے پر کہ دونوں ممالک کے مابین بند ہوچکی بات چیت کا جمود کیسے توڑا جاسکتا ہے اُنہوں نے کہا”یہ جمود تو دیر سویر ٹوٹنا ہی ہے کیونکہ ہمارے درمیان مسائل کا تب تک کوئی حل ممکن نہیں ہو سکتا ہے کہ جب تک ہم بات نہ کریں“۔اُنہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین جامع مذاکرات کے لئے پہلے سے ایک ڈھانچہ موجود ہے جس پر بھارتی وزیرِ خارجہ سُشما سوران نے 2015کے اپنے دورہ پاکستان کے دوران دستخط بھی کئے ہوئے ہیں۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلام آباد بات چیت برائے بات چیت میں وقت ضائع کرنے پر تیار نہیں ہے عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان خصوصیت کے ساتھ کشمیر پر بات کرنا چاہتا ہے۔اُنہوں نے کہا ہے”ہم کشمیر کو بھارت کے ساتھ بنیادی اور اصل مسئلہ سمجھتے ہیں اور اسے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیئے“۔پاکستانی سفیر کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر نہ ہندوپاک کے بیچ امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی خطہ جنوبی ایشیاءمیں ہی قیام امن کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

”خارجہ پالیسی بنیادی طور داخلی پالیسی کی ہی توسیع ہوتی ہے اور آپ ان دونوں کو علیٰحدہ نہیں کرسکتے ہیں۔تاہم میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں بھارت کے ساتھ تعلقات سدھارنے کے حوالے سے قومی سطح پر اتفاق ہے ۔میں آپ کو کہ سکتا ہوں کہ پاکستانی قوم کافی بالغ ہوچکی ہے اور وہاں کوئی بھارت کے ساتھ خراب تعلقات نہیں چاہتا ہے“۔

ایک اور سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا ہے دونوں ممالک نے جنگوں اور تلخیوں میں 70سال کا عرصہ کھپایا ہے اور اب لگتا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہم امن کی تلاش کریں۔اُنکا کہنا ہے”ہمیں (ہندوپاک کو)یہ فیصلہ کرنا ہوگاکہ ہمیں موجودہ حالت قائم رکھنی ہے یا پھر ہمیں اپنے تعلقات میں ایک نئی شروعات کرنی ہے“۔اُنہوں نے کہا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہے جو ،اس بات کو واضح کرتے ہوئے کہ طاقت سے مسئلے کا حل نہیں نکالا جاسکتا ہے، تقاضاکرتی ہے کہ مذاکرات شروع کئے جانے چاہیئں ۔عبدالباسط سے جب یہ کہا گیا کہ بھارت یہ کہتا آرہا ہے کہ اسلام آباد بات چیت کی بحالی کے لئے ”صرحد پار کی دہشت گردی“کو بند نہیں کرتا ہے تو عبدالباسط نے کہا”مذاکرات کے لئے کوئی شرط نہیں ہونی چاہیئے۔ہمارا موقف واضح ہے کہ بات چیت پر پیشگی شرائط نہیں لگائی جاسکتی ہیں بلکہ بات چیت کسی شرط کے بغیر اور کھلے ذہن کے ساتھ سنجیدہ اور خوشگوار ماحول میں ہونی چاہیئے“۔تاہم اُنہوں نے کہا کہ 2004-8کے دوران بات چیت کے کئی ادوار ہوئے اور اُنسے اچھے نتائج بھی بر آمد ہوئے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کہیئں پاکستان کی داخلی مجبوریاں بھارت کے ساتھ تعلقات درست کرنے کی راہ میں حائل تو نہیں ہیں،پاکستانی سفیر نے کہا”خارجہ پالیسی بنیادی طور داخلی پالیسی کی ہی توسیع ہوتی ہے اور آپ ان دونوں کو علیٰحدہ نہیں کرسکتے ہیں۔تاہم میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں بھارت کے ساتھ تعلقات سدھارنے کے حوالے سے قومی سطح پر اتفاق ہے ۔میں آپ کو کہ سکتا ہوں کہ پاکستانی قوم کافی بالغ ہوچکی ہے اور وہاں کوئی بھارت کے ساتھ خراب تعلقات نہیں چاہتا ہے“۔اُنہوں نے کہا ”ہم بھارت کے ساتھ مستقل دشمنی نہیں چاہتے ہیں لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم بات چیت کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں،پاکستان مثبت اور تعمیری ہے لیکن تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے“۔

Exit mobile version