رنگریٹ کے میں زخمی ہونے والے نوجوان کی اسپتال میں موت

اشٹنگو// سرینگر کے مضافات میں رنگریٹ کے مقام پر گزشتہ روز سرکاری فورسز کی گولی کا شکار بننے والے بانڈی پورہ کے ایک نوجوان کی اسپتال میں موت واقع ہوگئی ہے۔ اشٹنگو بانڈی پورہ کے نصیر احمد گزشتہ روز اُسوقت شدید زخمی ہوگئے تھے کہ جب رنگریٹ میں کچھ نوجوانوں نے سرکاری فورسز پر معمولی پتھراو کیا تھا۔

معلوم ہوا ہے کہ نصیر رنگریٹ میں ایک آہنگر کی دکان پر ملازم تھے اور کل جس وقت یہاں احتجاج اور پتھراو ہورہا تھا دیگر دکانداروں کی طرح نصیر بھی دکان بند کرنے لگے تھے کہ اُنہیں گولی مار دی گئی۔ نصیر کے ایک پڑوسی نے تفصٰلات کو بتایا کہ وہ احتجاجی مظاہرے یا پتھراو کا حصہ نہیں تھے بلکہ دکان بند کرتے ہوئے گولی کا شکار ہوگئے۔ نصیر کی چند ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی جبکہ اُنکے سوگواروں میں اُنکے تین بھائی اور والدین شامل ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ نوجوانوں کی ایک ٹولی نے سیما سرکھشا بل یا ایس ایس بی کی ایک پارٹی پر معمولی پتھراو کیا تھا جسکے جواب میں فورسز نے گولیوں کے کئی راونڈ چلائے جن میں سے ایک نصیر احمد شیخ ولد غلام محی الدین کے سینے میں لگی اور وہ شدید زخمی ہوگئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نذیر کو فوری طور جہلم ویلی اسپتال پہنچایا گیا تھا جہاں ابتدائی مرہم پٹی کے بعد اُنہیں فوری طور میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ منتقل کیا گیا تھا تاہم اُنکی دوران شب موت واقع ہوگئی۔ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ نذیر کے دل کے قریب گولی لگی تھی اور وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔اُنہوں نے کہا کہ زخمی نوجوان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی جو مگر کامیاب نہیں ہو سکی۔

معلوم ہوا ہے کہ نصیر رنگریٹ میں ایک آہنگر کی دکان پر ملازم تھے اور کل جس وقت یہاں احتجاج اور پتھراو ہورہا تھا دیگر دکانداروں کی طرح نصیر بھی دکان بند کرنے لگے تھے کہ اُنہیں گولی مار دی گئی۔ نصیر کے ایک پڑوسی نے تفصٰلات کو بتایا کہ وہ احتجاجی مظاہرے یا پتھراو کا حصہ نہیں تھے بلکہ دکان بند کرتے ہوئے گولی کا شکار ہوگئے۔ نصیر کی چند ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی جبکہ اُنکے سوگواروں میں اُنکے تین بھائی اور والدین شامل ہیں۔

نصیر کی لاش کے اُنکے آبائی گاوں پہنچائے جانے پر یہاں کہرام مچ گیا اور لوگوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جبکہ ہزاروں لوگوں نے اُنہیں اشکبار آنکھوں کے ساتھ سپردِ خاک کیا۔ اُنکے پروسیوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں ایک ملنسار اور خوش اخلاق نوجوان کے بطور جانا جاتا تھا اور وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے بندے مانے جاتے تھے۔

Exit mobile version