کارل مارکس کونہ پڑھیں تومادہ پرستی کہاں رُکے گی:محمد قاسم

سرینگر// دخترانِ ملت کی صدر سیدہ آسیہ اندرابی کے شوہر اور مُسلم دینی محاذ کے امیر محمد قاسم نے سماج میں پھیل رہی مادہ پرستی اور بے حیائی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسکا ایک دلچسپ علاج بتایا ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ اس سب پر تب تک قابو نہیں پایا جاسکتا ہے کہ جب تک نہ نوجوانوں کو کارل مارکس ،سگمنڈ فرائڈ اور ان جیسے نظریات رکھنے والی شخصیات کے بارے میں پڑھایا جائے۔

تنظیم کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں زائد از چوبیس سال سے نظربند محمد قاسم کے حوالے سے کہا گیا ہے ”جموں کشمیر میں آج جس طرح کی مادہ پرستی اور بے حیائی کا ماحول بنا ہے وہ انتہائی پریشان کُن ہے۔ بداعمالیاں ہمیشہ گمراہ نظریات کی وجہ سے پھیلتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں پھیلی بداعمالیوں کے لئے ذمہ دار نظریات کی تشخیص کرکے ان کی عقلی اور نقلی دلائل کی بنیاد پر موثر طریقے پر تردید کی جائے“۔

”جب تک جموں کشمیر کی ملتِ اسلامیہ ،بالخصوص نوجوان نسل، میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ چارلس ڈارون، کارل مارکس ، سگمنڈ فرائڈ اور ہوئی اوک جیسے لوگوں کے نظریات سے متعلق بیداری پیدا نہیں کی جاتی ہے، موجودہ مادہ پرستی اور بے جیائی، جس نے انسانوں کی اکثریت کو معاشی اور جنسی حیوان بنادیا ہے ،پر قابو نہیں پایا جاسکتا“۔

محمد قاسم نے مزید کہا ہے”جب تک جموں کشمیر کی ملتِ اسلامیہ ،بالخصوص نوجوان نسل، میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ چارلس ڈارون، کارل مارکس ، سگمنڈ فرائڈ اور ہوئی اوک جیسے لوگوں کے نظریات سے متعلق بیداری پیدا نہیں کی جاتی ہے، موجودہ مادہ پرستی اور بے جیائی، جس نے انسانوں کی اکثریت کو معاشی اور جنسی حیوان بنادیا ہے ،پر قابو نہیں پایا جاسکتا“۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر میں چونکہ جنگ جیسی صورت حال ہے اس لئے ملت اور ملت کے ذمہ داروں کی پو ری توجہ” تحریکِ آزادی پر مرکوز ہے“۔بلاشبہ تحریکِ آزادی ملتِ اسلامیہ کشمیر کی پہلی ترجیح ہے،مگر وہ دینی تنظیمیں اور ادارے اور وہ علماءاور اہل ِدانش ،جو براہ راست تحریک ِآزادی میں کوئی فعال رول ادا نہیں کررہے ہیں یانہیں کرنا چاہتے ہیں، کم سے کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ معاشرے میں مادہ پرستی ، بے حیائی اور سماجی بُرائیاں پھیلانے والے گمراہ کُن نظریات کی موثر طریقہ پر تردید کریں۔اُنہوں نے کہا کہ گمراہ کُن نظریات کی تردید سے ہی جموں کشمیر میں 1818ءسے پہلے کی طرح روحانی اور اخلاقی اقدار دوبارہ ظاہر ہوسکتے ہیں۔

Exit mobile version