سرینگر// اب جبکہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی یا این آئی اے نے سرینگر-مظفر آباد تجارت کو نشانے پر لیتے ہوئے اس الزام لے ساتھ کئی تاجروں کے یہاں چھاپے مارے ہیں کہ اُنکے ذرئعہ علیٰحدگی پسندوں کو رقومات پہنچائی جارہی ہیں،خدشہ پیدا ہوا ہے کہ کہیں اس تجارت کو بند نہ کر دیا جائے۔مزاحمتی قائدین کو مبینہ طور حوالہ کے ذرئعہ پاکستان سے ملنے والی رقومات کا سراغ لگانے کے لئے سرگرم این آئی اے گزشتہ دو دنوں سے سرینگر سے لیکر ہریانہ سے ہوتے ہوئے نئی دلی تک چھاپہ ماری جاری رکھے ہوئے ہے۔
کارروائی کے دوسرے دن کل اتوار کو حریت کانفرنس کے کئی لیڈروں کے علاوہ سرینگر-مظفر آباد تجارت سے وابستہ کئی تاجروں کے یہاں بھی چھاپے مارے گئے اور انکے یہاں سے قابلِ اعتراض ضبطی کئے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ این آئی اے نے واضح الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اوڑی اور چکاں دا باغ کے راستے سرینگر اور مظفر آباد کے مابین ہونے والی تجارت کو حوالہ لین دین کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور اس میں کئی تاجر ملوث ہیں۔چناچہ اس حوالے سے نہ صرف سرینگر میں کئی تاجروں کے یہاں چھاپے مارے گئے بلکہ جموں کے ایک معروف ہندو تاجر کمل اگروال کے گاندھی نگر میں واقع گھر اور گودام و دکانوں کی گھنٹوں تک تلاشی لی گئی اور پھر یہاں سے قابلِ اعتراض دستاویزات بر آمد کر لئے جانے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔
این آئی اے نے واضح الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اوڑی اور چکاں دا باغ کے راستے سرینگر اور مظفر آباد کے مابین ہونے والی تجارت کو حوالہ لین دین کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور اس میں کئی تاجر ملوث ہیں۔
7اپریل2005کوسرینگر اور مظفر آباد کے بیچ بس سروس کے تاریخی فیصلے کے بعد”اعتماد سازی کے دوسرے بڑے اقدام“کے بطور جموں کشمیر کے ان منقسم شہروں کے بیچ تجارت کی بحالی کا فیصلہ لیا گیا تھا۔حالانکہ ہندوپاک نے اوڑی اور چکاں دا باغ کے دو راستوں سے تجارت کی بحالی پر 2004میں اصولی طور اتفاق کرلیا تھا تاہم اسے عملی جامہ پہنانا21اکتوبر 2008کو ممکن ہوگیا تھا جب سے منتخب اشیاءکی تجارت ہوتی ہے۔دلچسپ ہے کہ یہ کاروبار نقد نہیں بلکہ بدلے کی تجارت ہے یعنی دونوں جانب کے تاجر ایک دوسرے کے ساتھ اشیاءکا تبادلہ کرتے ہیں۔حالانکہ اس تجارت سے وابستہ تاجروں نے تب سے ہی تجارت کو نقد کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں لیکن ابھی تک نہ اسے نقد کاروبار بنایا جاسکا ہے اور نہ ہی تجارت کے لئے اشیاءکی فہرست پر سے شرائط ہٹاکر کر اسے تاجروں کی مرضی کے تابع بنایا جاسکا ہے۔بلکہ ابھی تک اس تجارت میں کئی بار رکاوٹیں آئیں اور دونوں ممالک کے تلقات میں کشیدگی آنے یا اس طرح کی دیگر وجوہات کے لئے کئی بار اس تجارت کو کئی کئی ہفتوں یا مہینوں تک بند کیا جاتا رہا۔
حریت لیڈر نعیم احمد خان ،فاروق ڈار عرف بٹہ کراٹے اور اپنے آپ کو غازی بابا کہلانے والے حریت کے کسی کارکن کے انڈیا ٹوڈے کے ایک اسٹنگ آپریشن میں بعض سنسنی خیز انکشافات کئے جانے کے بعد سے بھارتی ٹیلی ویژن چینلوں نے ہیجانی ماحول پیدا کیا ہوا ہے اور این آئی اے کی چھاپہ ماری کو دوسرا ”سرجیکل اسٹرائیک“کہا جانے لگا ہے۔ایسے ماحول میں جب این آئی اے نے وضاحتاََ سرینگر-مظفر آباد تجارت کو حوالہ رقومات کی ترسیل کے لئے استعمال کئے جانے کا الزام لگایا ہے تو اس تجارت کے بند کردئے جانے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اس حوالے سے ابھی صاف صاف کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔
”ابھی تک کئی بار اس تجارت پر سوالات اٹھائے گئے،کئی بار گاڑیوں میں قابلِ اعتراض اشیاءموجود ہونے اور ضبط کرلئے جانے کے الزامات بھی لگے لیکن اب جبکہ تاجروں کے گھروں پر چھاپے ڈالے جانے لگے ہیں،ہمیں لگتا ہے کہ اس سے کنارہ کر لیا جانا چاہیئے“۔
سرینگر میں اس تجارت سے وابستہ افراد کا ماننا ہے کہ اسے اس قدر خوفناک بنایا جارہا ہے کہ بیشتر تاجر اس سے کنارہ کرنے کی سوچنے لگے ہیں۔جیسا کہ ایک تاجر نے کہا”ابھی تک کئی بار اس تجارت پر سوالات اٹھائے گئے،کئی بار گاڑیوں میں قابلِ اعتراض اشیاءموجود ہونے اور ضبط کرلئے جانے کے الزامات بھی لگے لیکن اب جبکہ تاجروں کے گھروں پر چھاپے ڈالے جانے لگے ہیں،ہمیں لگتا ہے کہ اس سے کنارہ کر لیا جانا چاہیئے“۔ان تاجروں کا مزید کہنا ہے”آس تجارت کے پیچھے ویسے بھی تجارت سے زیادہ ہندوپاک کے سیاسی مقاصد تھے اور اب اسے اور بھی گندی طرح سیاست زدہ کردیا گیا ہے،کون چاہے گا کہ اُسکے گھر چھاپہ ماری ہو اور اسے اور اسکے بیوی بچوں کو حراساں اور بدنام کیا جائے،لہٰذا بیشتر تاجر اس تجارت کا متبادل دیکھنے پر آمادہ ہیں“۔