دربار موکے عمل کو ختم کردیا جانا چاہیئے:بی جے پی

فائل فوٹو

سرینگر//

جموں کشمیر میں مخلوط سرکار کی دوسری بڑی پارٹی بی جے پی نے ریاست میں آزادی سے قبل سے چلی آرہی رسم ”دربار مو“کو ختم کرکے ریاست کے دفاتر کی تقسیم کرکے انہیں مستقل طور جموں اور سرینگر میں مقیم رکھنے کی تجویز دی ہے۔دربار مو کے تحت ریاست میں چھ ماہ کے تحت دفاتر سرمائی راجدھنانی جموں کو منتقل ہوجاتے ہیں جبکہ گرمیوں میں حکومت کا دربار واپس سرینگر لوٹ آتا ہے اور دفاتر کی اس منتقلی پر سالانہ ہزاروں کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے۔بھاجپا کا کہنا ہے کہ جن حالات میں یہ رسم شروع ہوئی ہے وہ یکسر بدل چکے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں اس رسم کو ختم کرکے ریاستی خزانے پر پڑھنے والا بھاری بوجھ ہٹایا جا سکتا ہے۔

ریاستی حکومت کے دفاتر نے ابھی کل ہی سرینگر میں کام کرنا شروع کیا ہے اور آض بھاجپا نے یہ تجویز رکھی ہے کہ جس پر ایک بڑا تنازعہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔بھاجپا کے ترجمان وریندر گپتا کا کہنا ہے”دربار مو کا عمل ختم کردیا جانا چاہیئے اور اسکی بجائے دفاتر کی تقسیم کرکے انہیں جموں اور سرینگر میں مستقل طور مقیم رکھا جانا چاہیئے“۔دلچسپ اور اہم ہے کہ گپتا کے بیان کی اسمبلی کے اسپیکرکویندر گپتا،جو خود بھاجپا کے لیڈر ہیں،نے کھل کر حمایت کی اور کہا کہ دربار مو پر ریاستی خزانے کو بہت سرمایہ لٹانا پڑتا ہے۔

وریندر گپتا کا ماننا ہے کہ جن حالات میں دربار مو کا عمل شروع ہوا تھا وہ اب بدل چکے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ تب رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع تقریباََ نہ ہونے کے برابر تھے جبکہ ابھی کی صورتحال مختلف ہے۔انکا مزید کہنا ہے کہ اہم دفاتر،کارپوریشن اور دیگر معاملات ایک ساتھ سرینگر اور جموں سے چلائے جا سکتے ہیں اور اس طرح دربار مو کے عمل کوختم کیا جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ جموں کشمیر کی،سرینگر اور جموں، دو راجدھانیاں ہیں اور 1872سے حکومت ان دونوں شہروں کو چھ چھ ماہ کے لئے منتقل ہوتی آرہی ہے۔ہزاروں ملازمین،سو بھر کے قریب دفاتر،لاکھوں فائلوں اور دیگر سازوسامان کو سال میں دو بار ایک دوسرے سے تین سو کلومیٹر دور ان دو شہروں کو منتقل کرنے میں سرکار کو سالانہ ہزاروں کروڑ روپے کا سرمایہ خرچ کرنے کے علاوہ ملازمین کے لئے اقامتی و دیگر انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ دربار مو کو ختم کر دئے جانے کی خواہش ایک بار سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی ظاہر کی تھی تاہم انہیں بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے دیکھتے ہوئے وہ اس خواہش کو تجویز تک کا لباس پہنانے کی ہمت نہیں کر سکے تھے۔

Exit mobile version