کشمیر کا ہر نوجوان سنگ بدست نہیں ہے:محبوبہ

سرینگر//
جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ریاست کے حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں کہ جتنا ذرائع ابلاغ نے شور مچایا ہوا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ریاست میں پہلی بار حالات خراب نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہاں کے حالات نوے کی دہائی میں اس سے سے بھی زیادہ خراب تھے۔ریاست کی گرمائی راجدھانی سرینگر میں دفاتر کھل جانے کے موقعہ پر محبوبہ مفتی نے گارڈ آف آنر پر سلامی لینے کے بعد کہا”کشمیر نے اس سے بدتر حالات دیکھے ہیں،میں نے نوے(کی دہائی)کے دن بھی دیکھے ہیں“۔جموں کشمیر ریاست کو حاصل کئی امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں کی دو راجدھانیاں ہیں اور یہ1872 سےچلی آرہی رسم ہے کہ سال میں دو بار دربار مو ہوتا ہے جسکے تحت سردیوں میں سرکاری دفاتر جموں اور گرمیوں میں سرینگر منتقل ہوجاتے ہیں۔سال میں دو بار ہونے والی دفاتر کی اس منتقلی پر ریاست کو ہزاروں کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے حالانکہ اس کا بظاہر کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔

سرینگر میں دربار لگنے کے موقعہ پر سکیورٹی کا انتہائی بندوبست کیا گیا تھا اور سرینگر شہر میں خصوصی طور اضافی فورسز کو تعینات کیا گیا تھا۔شمالی کشمیر کے حلقہ انتخاب لنگیٹ کے ممبر اسمبلی انجینئر رشید کو سکریٹریٹ کا گھیراو کرنے کی کوشش میں کئی ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے مختلف تھانوں میں نظربند کردیا گیا اورانکی عوامی اتحاد پارٹی کے ایک احتجاجی پروگرام کو ناکام بنانے کے لئے پولس نے طاقت کا استعمال کیا۔

روایتی گارڈ آف آنر پر سلامی لینے کے بعدنامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے دوران محبوبہ مفتی نے کشمیر کو ہندوستان کا تاج قرار دیا اور کہا کہ وادی میں ہر شخص سنگ اٹھائے نہیں پھر رہا ہے بلکہ یہ چند لوگ ہیں جو سرکاری فورسز پر سنگبازی کرتے آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ”کچھ نوجوان“ مایوس ہیں لیکن سرکار انسے بات کرے گی۔محبوبہ مفتی نے کہا”ہر کوئی سنگ نہیں برساتا ہے،جموں کشمیر کے سبھی نوجوان ایسا نہیں کرتے ہیں اور اگر سبھی بچے نعرہ بازی ہی کر رہے ہوتے تو حالیہ امتحانات میں بہت سارے بچے کامیاب نہیں ہوئے ہوتے“۔محبوبہ مفتی ریاست کی موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بات کر رہی تھیں کہ وادی میں اب ماہ بھر سے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے بچے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور روز ہی کہیں نہ کہیں احتجاجی مظاہروں اور پھر سرکاری فورسز کی کارروائی میں بچوں کے زخمی ہونے کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کے ایک حصے میں کشمیر کو بہت خطرناک طریقے سے پیش کیا جارہا ہے اور اسلئے انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ رپورٹ کیا جانا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن چینلوں کو اس طرح کے مباحثوں سے احتراز کرنا چاہیئے کہ جن سے کشمیر میں نفرت پھیلتی ہو بلکہ انہوں نے کہا،قومی میڈیا کوجلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے اس سمت میں کام کرنا چاہیئے کہ یہاں کس طرح امن قائم کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ وادی¿ کشمیر میں ابھی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور بعض ذرائع کے مطابق سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس اس طرح اطلاعات ہیں کہ دربار مو کے بعد جنگجوئیانہ حملوں میں تیزہ آسکتی ہے جبکہ بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کا خدشہ پہلے ہی بنا ہوا ہے۔مبصرین کے مطابق سرکار کے لئے یہ بات کسی چلینج سے کم نہیں ہے کہ وادی میں رہتے ہوئے وہ ایک اچھی انتظامیہ فراہم کرے اور احتجاجی لہر جاری ہونے سے بچائے۔دلچسپ ہے کہ گزشتہ سال دربار کے سرینگر میں رہتے ہوئے سرکار بہت زیادہ کام نہیں کر پائی تھی کیونکہ حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے کے بعد اٹھنے والی احتجاجی لہر نے مہینوں تک پوری وادی کو گویا مفلوج بنائے رکھا تھا۔

Exit mobile version