سرینگر// ملتان کے قریب ایک چھوٹی سی بستی سرور شاہ کولٹلر میں رہنے والی آمنہ، کم عمری میں شادی کے باعث نہ تو تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ پائیں ور نہ ہی کوئی ہنر سیکھا۔شوہر کی کم آمدنی میں جب گھر چلانا مشکل ہوا تو سوچا اپنے پیروں پر کھڑی ہوں۔ آمنہ یاسین نے ایک برطانوی صحافتی ادارے کو بتایا کہ کس طرح ایک مقامی این جی او نے ان کی زندگی بدل دی۔ انہوں نے کہا ”مجھے ہمیشہ سے سلائی کڑھائی کا شوق تھا، ایک دن ہمارے علاقے میں آواز فاو¿نڈیشن والے آئے، انہوں نے میری رہنمائی کی تو میں نے سلائی سکول میں داخلہ لیا۔ تین ماہ کا کورس مکمل کرنے پر مجھے سلائی مشین بھی دی گئی اب میں لوگوں کے کپڑے سیتی ہوں اور بچیوں کو سلائی سکھانے کے لیے سینٹر بھی بنا لیا ہے“۔آمنہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ انھیں ایک این جی او نے سہارا دیا لیکن اب وہ اپنے علاقے کی لڑکیوں کو یہ ہنر سکھا رہی ہیں تاکہ انہیں کسی این جی او کی مدد کا انتظار نہ کرنا پڑے۔
ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان کے صوبے پنجاب میں این جی اوز کے خلاف کارروائی جاری ہے، کچھ این جی اوز کو پابندی کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں جب کہ دیگر کے کام کے دائرے کو محدود کر دیا گیا ہے۔این جی اوز کا موقف ہے کہ حکومت نے انہیںصفائی کا موقع فراہم نہیں کیا۔حکومت پاکستان کے تعاون سے بنائے گئے غیر منافع بخش ادارے، پاکستان سینٹر آف فالینتھروپی کے مطابق، پاکستان میں اس وقت تقریبا ایک سے ڈیڑھ لاکھ غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ان این جی اوز کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں سر گرم ہے۔ سنہ 2017 کے ابتدا سے ہی پنجاب حکومت نے صوبے میں این جی اوز کے خلاف بڑی سطح پر کارروائی کا آغاز کیا۔ وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے مطابق یہ کارروائی وفاق کی ہدایات پر کی جا رہی ہے۔آواز فاو¿نڈیشن گذشتہ کئی برس سے پنجاب کے مختلف شہروں اور اضلاع میں لوگوں بھلائی کے لیے کام کر رہی ہے۔ آواز فاو¿نڈیشن پاکستان کے بانی اور سیکریٹری، ضیا الرحمن نے برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو بتایا کہ ان کی تنظیم لوگوں کی فلاح کے لیے کام کر رہی ہے۔انہوں نے کہا”ہم نے ملتان اور مظفرگڑھ میں 36 بنیادی مراکز صحت اور دیہی ہیلتھ سینٹرز میں ٹریننگ دی اور ان کو ضروریات کا سامان بھی فراہم کیا،ہم نے یہ سرمایہ کاری حکومتی اداروں پر کی ہے لیکن اب حکومت ہمیں اس کا این او سی جاری نہیں کرتی تو ہم کیسے کام کریں“؟
پاکستان کے آئین کے مطابق یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرے لیکن محدود وسائل کے باعث جب یہ ممکن نہیں ہوتا تو این جی اوز ایسے منصوبوں میں مالی مدد فراہم کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت کی نئی پالیسیوں کے باعث اب یہ غیر سرکاری ادارے حکومتی اجازت نامے کے جھنجھٹ میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔
دوسری جانب کچھ ایسی این جی اوز بھی ہیں جنھیں صوبائی حکومت نے پنجاب بیت المال کے ذریعے با قاعدہ نوٹس بھیج کر کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان میں سیپ یعنی ساو¿تھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان اور وائز یعنی وومن ان سٹرگل فار ایمپاورمنٹ شامل ہیں۔ ان اداروں پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔وائز کی ڈایکٹر، بشرا خالق نے بتایا کہ ان کو جاری کیا گیا حکومتی نوٹس، ان کی تنظیم اور ان کی ذات کو کام کرنے سے روکنے کے لیے تھا۔انہوں نے کہا ”مجھ پر الزام عائد کیا گیا کہ میں قوم پرستوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہوں یہ بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر پنجاب، سندھ یا بلوچستان میں حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو اس پر ہم بات بھی نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ اقدامات ان آوازوں کو خاموش کروانے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں، تاکہ یہاں انسانی حقوق کی بات کرنا بند کر دی جائے اور ادارے اپنی من مانی کرتے رہیں“۔
سیپ پاکستان اور وائز کے ارکان نے حکومتی نوٹس کو لاہور ہائی کورٹ میں سٹے آرڈر لے کر چیلنج کیا تو حکومتی وکیل نے عدالت میں پیش ہو کر نوٹس ہی واپس لے لیا۔پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا کا کہنا ہے یہ کارروائی ملک مخالف سرگرمیوں کے خلاف ہے اور وقت آگیا ہے کہ ان این جی اوز کی سوچ کو صحیح سمت دی جائے۔انہوں نے کہا”میں سمجھتا ہوں کہ غیر سرکاری تنظیمیں یا ان سے منسلک افراد خطرناک نہیں البتہ ان کے کام ملک مخالف ہیں۔ جو ممالک ہمارے معاشرے سے متعلق سننا چاہتے ہیں، یہ وہی معاشرتی کمزوریوں زیادہ اجاگر کر کے پیش کرتے ہیں اور اکثر مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ تو پھر یہ ملک مخالف کیٹگری میں آ جاتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ بعض جگہ پر الزام کسی حد تک درست بھی ہیں لیکن ثبوت نہیں ملتے تو ایسی صورت میں کیس یا نوٹس واپس لینا پڑتا ہے“۔