برصغیر کے ایک معروف عالمِ دین اور داعی مولانا طارق جمیل نے اپنے نام کے ساتھ اپنا ایک فیشن برانڈ لانچ کردیا ہے۔تاہم اُنہوں نے کہا ہے کہ کاروبار کی دنیا میں قدم رکھنے کا اُنکا مقصد دولت جمع کرنا نہیں بلکہ مدارس کیلئے ایک ذرئعہ آمدنی پیدا کرنا ہے۔
اللہ نے میرے دل میں ڈالا کہ ہم کوئی کاروبار کریں جس کی کمائی کو مدارس پر لگائیں۔ میری یہی نیت بنی کہ کوئی ایسا کاروبار ہونا چاہیے
طارق جمیل کے نام سے منسوب کمپنی ’’ایم ٹی جے‘‘ کراچی میں رجسٹرڈ ہے۔پاکستان میں اس حوالے سے لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں۔جہاں لوگوں کی اکثریت اُنہیں مبارکباد دیتی ہے وہیں سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اُنہیں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جسکی وجہ سے گذشتہ روز طارق جمیل کو خود اس کی وضاحت کے لیے ایک ویڈیو پیغام جاری کرنا پڑا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مذہبی سرگرمیوں خاص کر مدرسے چلانے کے لیے کاروبار کرنے کا بہت عرصے سے سوچ رہے تھے۔اُنہوں نے کہا کہ کووِڈ19-سے پیدا شدہ صورتحال نے اُنہیں اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا موقعہ دیا ہے۔
ویڈیو میں طارق جمیل کو یوں کہتے دیکھا جاسکتا ہے’’برصغیر میں علما کا کاروبار کرنا یا تجارت کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات پتا نہیں یہاں کہاں سے آ گئی ہے‘‘۔مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ سنہ 2000 کے دوران فیصل آباد میں مدرسہ الحسنین کی بنیاد رکھی تھی۔ بعدازاں اس مدرسے کی 10 شاخیں مختلف شہروں میں قائم کی گئیں ،دوست احباب کے تعاون سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔ گذشتہ سال کورونا وائرس کی لہر چلی اور کاروبار ٹھپ ہو گئے۔مجھے پریشانی شروع ہوئی کہ لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں تو اب میں کس منھ سے ان سے کہوں کہ زکوٰۃ دو جبکہ وہ خود انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔پھر مجھے خیال آیا کہ یہ نظام چلے گا کیسے ،اللہ نے میرے دل میں ڈالا کہ ہم کوئی کاروبار کریں جس کی کمائی کو مدارس پر لگائیں۔ میری یہی نیت بنی کہ کوئی ایسا کاروبار ہونا چاہیے‘‘۔
کمپنی کی لِنکڈ اِن پروفائل پر لکھا گیا ہے کہ ’’یہ ایک فیشن برانڈ ہے جو کوالٹی اور دیانتداری سے چلائی جائے گی‘‘ اور یہ ’’مولانا طارق جمیل کی خدمت خلق سے متاثر ہو کر قائم کی گئی ہے‘‘۔پروفائل کے مطابق کمپنی میں 50 سے 100 لوگ ملازمت کر رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق کمپنی کے ذریعے شلوار قمیض اور کُرتے فروخت کیے جائیں گے۔
ہمارے برصغیر میں علما کا کاروبار کرنا یا تجارت کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات پتا نہیں کہاں سے آ گئی۔ حالانکہ امام ابو حنیفہ، جن کے فتوے ہم (مسلمان) مانتے ہیں، ان کے زمانے میں اُن سے بڑا کپڑے کا تاجر کوئی نہیں تھا۔
مولانا طارق جمیل اپنی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ ’’میں کوئی کاروبار اس لیے نہیں کر رہا کہ پیسے بناؤں۔ میں نے ساری زندگی پیسے نہیں بنائے۔۔۔ ہمارا کوئی کاروباری ذہن نہیں۔ جب سے تبلیغ میں لگا ہوں کاروبار نہیں کیا بس 1984 میں ایک بار کپاس کاشت کروائی تھی۔اس برانڈ سے کاروبار کا ارادہ نہیں ہے، اس کی کمائی فاؤنڈیشن پر لگانا چاہتا ہوں،اس کی کمائی سے اچھا ہسپتال اور سکول بنائیں گے‘‘۔
ناقدین کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’ہمارے برصغیر میں علما کا کاروبار کرنا یا تجارت کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات پتا نہیں کہاں سے آ گئی۔ حالانکہ امام ابو حنیفہ، جن کے فتوے ہم (مسلمان) مانتے ہیں، ان کے زمانے میں اُن سے بڑا کپڑے کا تاجر کوئی نہیں تھا۔مولوی کا تصور ہے کہ وہ بھیک مانگتا ہے اور وہ لوگوں سے مانگتا ہے۔۔۔ ہم نے کسی کاروباری نیت سے یہ کام نہیں کیا، کسی کے مقابلے میں نہیں کیا۔کم از کم میرے مدارس اس سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور میرے دنیا سے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہے‘‘۔
یاد رہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی مذہبی شخصیت نے پاکستان میں کپڑوں کا برانڈ قائم کیا ہو۔ سنہ 2004 میں موسیقی کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد جنید جمشید نے ملبوسات کا کاروبار شروع کیا تھا جو آج پاکستان کے نمایاں ترین فیشن برانڈز میں سے ایک ہے۔