امریکہ آلِ سعود کی یمن مخالف جنگ سے الگ

نو منتخبہ امریکی صدر جو بائیڈن نے پیش رو ٹرمپ سرکار کی پالیسیوں کو اُلٹنے کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے سعودی عرب کی یمن مخالف جنگ کی حمائت ختم کرنے کا اعلان کیا۔اُنہوں نے کہا ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر واپسی کر رہا ہے اور سفارت کاری کو پھر سے اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنانے جا رہا ہے۔

صدر بائیڈن نے جمعرات کو وزارتِ خارجہ میں سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ عالمی سطح پر غیر حاضر رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور سفارت کاری ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز ہے۔

انہوں نے کہا کہ یمن میں جاری جنگ نے انسانی بنیاد پر اور حکمت عملی کے لحاظ سے ایک تباہی کو جنم دیا ہے اور ان کے بقول، اس جنگ کو ختم ہونا چاہیے۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا “ہم یمن جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی سفارت کاری کو بھی تیز کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی مشرقِ وسطیٰ کی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قیادت میں جنگ بند کرانے کی کوششوں میں مدد کرے۔”


یمن جنگ کے لیے امریکی حمایت ختم ہونے سے عرب خطے میں سرگرم القاعدہ کے خلاف امریکی کوششیں متاثر نہیں ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ یمن میں دیرپا امن مذاکرات کو بحال کرنے کی ضرورت ہے اور وہاں یہ یقینی بنایا جائے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد عوام تک پہنچے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے اپنے عزائم واضح کرنے کے لیے ہم جارحانہ کارروائیوں کے لیے تمام امریکی تعاون کو ختم کر رہے ہیں جن میں اسلحے کی فروخت بھی شامل ہے۔

امریکی خارجہ پالیسی میں یمن کے معاملے پر تبدیلی ان اقدامات کی کڑی ہے، جس کا وعدہ صدر بائیڈن نے امریکی خارجہ پالیسی کی سمت، بقول ان کے، درست کرنے کے لیے کیا تھا۔


صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ سعودی عرب کے دفاع میں ہر طرح سے مدد دے گا۔ لیکن اس کی تفصیلات کیا ہوں گی، یہ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں واضح نہیں کیا۔

بائیڈن انتظامیہ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے اربوں ڈالر کے معاہدے التوا میں ڈال رہا ہے۔

تاہم خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا ہے کہ یمن جنگ کے لیے امریکی حمایت ختم ہونے سے عرب خطے میں سرگرم القاعدہ کے خلاف امریکی کوششیں متاثر نہیں ہوں گی۔

صدر جو بائیڈن نے محکمۂ خارجہ سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ امریکی خارجہ پالیسی میں سفارت کاری واپس آ چکی ہے اور ہم ایک بار پھر دنیا کے ساتھ رابطے بحال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات گزرے کل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ آج اور مستقبل کے چیلنجز کے مقابلے کے لیے ہوں گے۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ “امریکی قیادت کو آمریت پسندی کے بڑھتے مسئلے سے نمٹنا ہو گا، جس میں چین کا یہ عزم کہ وہ ہمارے مقابلے میں کھڑا ہو اور روس کی طرف سے ہماری جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور اس میں خلل ڈالنے کی کوششیں شامل ہے۔”


صدر بائیڈن نے مطالبہ کیا کہ زیرِ حراست روسی اپوزیشن رہنما الیکسی نیوالنی کو فوراً رہا کیا جائے

بائیڈن نے میانمار کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میانمار میں جمہوری حکومت کے خلاف فوجی اقدام کے بعد امریکہ اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر بحران کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ میانمار کی فوج فوراً اقتدار چھوڑ دے اور جمہوری رہنماؤں کو رہا کرے۔

روس کی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کے حوالے سے صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے صدر پوٹن پر واضح کر دیا ہے کہ اب واشنگٹن روس سے مؤثر انداز میں نمٹے گا۔ صدر بائیڈن نے مطالبہ کیا کہ زیرِ حراست روسی اپوزیشن رہنما الیکسی نیوالنی کو فوراً رہا کیا جائے۔

اُن کے بقول، “ہمیں عالمی وبا سے ماحولیاتی بحران اور جوہری پھیلاؤ تک، کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ ہم صرف مشترکہ طور پر کام کر کے ان سے نمٹ سکتے ہیں۔”

Exit mobile version