ایل او سی پر موبائل فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں!

شمالی کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب تین گاؤں میں باالآخر موبائل فون کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں اور یہاں کے لوگ پھولے نہیں سما پارہے ہیں۔ترقی یافتہ دنیا میں موبائل فون کی شروعات اب بہت پُرانی بات ہے اور جموں کشمیر میں بھی،جہاں لوگوں کو اب بھی بہت ساری بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں،اب بیس سال ہوئے موبائل فون ایک عام سی بات ہے تاہم ایل او سی کے قریب کئی گاؤں ابھی تک اس سہولت سے محروم ہیں۔
جموں کشمیر میں آنجہانی مفتی سعید کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران سن  2000میں موبائل فون کی سروس شروع ہوکر بہت جلد عام ہوگئی تھی تاہم سابق ریاست کی گرمائی راجدھانی سرینگر سے محض سو ڈیڈھ سو کلومیٹر دور ایل او سی کے کئی قریبی گاؤں،جیسے پوشہ واری،مژھل اور دودی، اس سہولت سے محروم رہے۔چونکہ یہ گاؤں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے بہت دور نہیں ہیں لہٰذا یہاں موبائل فون کی سروس چالو کرنا سکیورٹی کے لحاظ سے خدشات سے پُر تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں فوج کی رضامندی لازمی تھی۔

آنجہانی مفتی سعید کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران سن  2000میں موبائل فون کی سروس شروع ہوکر بہت جلد عام ہوگئی تھی تاہم سابق ریاست کی گرمائی راجدھانی سرینگر سے محض سو ڈیڈھ سو کلومیٹر دور ایل او سی کے کئی قریبی گاؤں،جیسے پوشہ واری،مژھل اور دودی، اس سہولت سے محروم رہے۔

مذکورہ علاقوں کے لوگوں کے بار بار کے مطالبات کے ردِ عمل میں کپوارہ کی ضلع انتظامیہ اور یہاں کے کئی سیاستدانوں نے کئی بار اس حوالے سے کوشش کی تاہم فوج کو اس خیال کا ہمنوا نہیں بنایا جاسکا تاہم اکتوبر میں جب لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) منوج سنہا مژھل کے دورے پر گئے تو اس مطالبے میں نئی جان پڑ گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل جی سنہا یہ جان کر حیران ہوگئے تھے کہ اس علاقہ میں موبائل فون کے جیسی بنیادی سہولت دستیاب نہیں ہے جسکے بعد انہوں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے فوج کو آمادہ کرلیا۔
چند سال پہلے تک مژھل میں ڈیوٹی کرتے رہے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ انکے ایک جانکار نہ چند روز قبل انہیں فون کرکے بتایا کہ وہ اپنے گاؤں میں رہتے ہوئے بات کر رہے ہیں۔مذکورہ ڈاکٹر کا کہنا تھا’’وہ شخص اتنا خوش تھا کہ جیسے آسمانوں میں اُڑ رہا ہو لیکن یہ خوشی بے وجہ بھی نہیں ہے بلکہ مجھے یاد ہے کہ وہاں کے لوگ مواصلاتی سہولیات کی غیر موجودگی میں کس عذاب سے گذر رہے تھے‘‘۔واضح رہے کہ بھاری برفباری کے بعد یہ سارا علاقہ مہینوں تک بقیہ وادی سے کٹا رہتا ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں لوگوں کو فوجی ہیلی کاپٹروں کے حصول کیلئے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔

’’وہ شخص اتنا خوش تھا کہ جیسے آسمانوں میں اُڑ رہا ہو لیکن یہ خوشی بے وجہ بھی نہیں ہے بلکہ مجھے یاد ہے کہ وہاں کے لوگ مواصلاتی سہولیات کی غیر موجودگی میں کس عذاب سے گذر رہے تھے‘‘۔

ایک پولس افسر نے بتایا کہ پہلے پہل موبائل فون کے ’’غلط استعمال‘‘ کے خدشات ہوا کرتے تھے لیکن اب جدید تیکنالوجی نے اس مسئلے کو دور ہی نہیں کیا ہے بلکہ اُلٹا مجرموں اور مطلوبہ عناصر کو پکڑنے میں موبائل فون نے بڑا کردار ادا کیا ہے لہٰذا سرحدی علاقوں میں موبائل فون کی سہولت ملنے سے کوئی خاص پریشانی نہیں ہونی چاہیئے۔(بشکریہ راشٹریہ سہارا)

Exit mobile version