امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ معیشت کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ ان کی زندگی میں کیا جانے والا مشکل ترین فیصلہ ہوگا۔
اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں فیصلہ کرنے جا رہا ہوں اور خدا سے امید ہے کہ یہ درست فیصلہ ہوگا۔ لیکن میں بلا جھجھک کہوں گا کہ یہ سب سے بڑا فیصلہ ہوگا جو میں نے اپنی زندگی میں کیا۔‘
امریکی صدر نے کہا کہ یہ فیصلہ دونوں سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ منگل کو اس حوالے سے نئی ٹاسک فورس کے ارکان کا اعلان کریں گے۔ ان کے مطابق اس گروپ میں ’بڑے ڈاکٹر اور کاروباری افراد شامل ہوں گے‘ جبکہ ریاستوں کے گورنرز بھی اس کا ممکنہ حصہ ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ امریکہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں دو ہزار 108 افراد ہلاک ہوئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا میں کورونا کے مصدقہ متاثرین کی تعداد 17 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹر کے مطابق امریکہ میں متاثرین کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاور کر گئی ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا کے بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن ہے۔ معروف اور تاریخی شہروں سے لے کر مصروف ترین سڑکوں اور چوراہوں میں ویرانی چھائی ہوئی ہے۔
امریکی یونیورسٹی جان ہاپکنز کےاعداد و شمار کے مطابق اب تک تین لاکھ 74 ہزار سے زائد صحت یا ب ہوچکے۔
چین میں سب سے زیادہ 77 ہزار سے زائد افراد صحت یا ب ہوئے ہیں۔ سپین میں 55 ہزار، جرمنی میں 53 ہزار، اٹلی میں 30 ہزار جبکہ امریکہ میں صحت یا ب ہونے والوں کی تعداد 27 ہزار سے زائد ہے۔
امریکہ کے بعد سپین میں کورونا کےسب سے زیادہ کیسز دیکھنے میں آئے ہیں، جہاں ایک لاکھ 57 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہیں۔
کورونا سے اب تک سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں۔ اس کے بعد امریکہ کا نمبر ہے جبکہ سپین تیسرے اور فرانس چوتھے نمبر پر ہے۔
صرف نیویارک سٹی میں مرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار آٹھ سوسے بڑھ چکی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی یونیورسٹی جان ہاپکنز کے ڈیٹا سینٹر کے مطابق فرانس میں کورونا متاثرین کی تعداد 125,930، جرمنی میں 119,624، اٹلی میں147,577، برطانیہ میں 74,605، چین میں 82,941 اورایران میں68,192 ہے۔
دریں اثناعالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے خبر دار کیا ہے کہ ’کورونا کا مقابلہ کرنے والے ملکوں کی طرف سے لوگوں کی نقل وحرکت پر وقت سے پہلے پابندی ہٹانا مہلک اقدام ہو سکتا ہے‘۔
جنیوا میں ورچوئل پریس کانفرنس سے خطاب میں ڈبلیو ایچ او کےسربراہ کا کہنا تھا کہ ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جہاں لاک ڈاون بتدریج ختم کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں جلد بازی خطرناک ہوگی۔