دفعہ 35A،تاریخِ فلسطین اور کشمیر!

اگرشاہین زمین پر آکر مرغے کی چال اختیار کرے ، بال و پر کٹوائے تو یقین کریں کہ شاہین صفت نام کی حد تک تو شاہین ہی رہے گا مگر اپنے ہم جنس اور شاہین صفت پرندوں میں اس کی قدر و قیمت نہیں رہے گی۔ اسی طرح شیر اپنی خو اور فطرت سے منہ موڑ کر اور گدھے کی فطرت اپنانے کے لئے اُس کی کھال پہن لے سمجھ لیجئے وہ جنگل کے دوسرے جانوروں کے لئے تر نوالہ ضرور بنے گا اوراس کے ارد گرد دُم ہلانے والے دیگر جانور بھی اسے پچھاڑنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے لگیں گے ۔

یہ چند ایک مثالیں ہیں جس سے میرا یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ جو قومیں اپنے حقوق کے تحفظ اور دفاع میں تساہل سے کام لیتی ہیں ،وہ اگرصفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جائیں تو اسے انہونی نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ مکافات عمل ہے اورابتدائے آفرینش سے قانون قدرت اس سلسلے میں کوئی رعایت دینے سے قاصر رہی ہے ۔

ہم اپنی ناکامیوں کا جائزہ لینے لگیں تو شروعات فلسطین سے کی جا سکتی ہے۔ یہ وہ ارض موعودہ ہے کہ ادھر فلسطین کا نام زبان پر آیا ،اُدھر آنکھوں کی پلکوں پر ستارے جھلملانے لگتے ہیں ۔

دنیا کے نقشہ پر نظر دوڑایئں تو ہمیں مسلمان نما انسانوں کے جسم و جاں زخموں سے چور دکھائی دے گی۔ ہمارے جسم کا انگ انگ زخموں سے چور چور ہے ۔ ان زخموں سے ٹیس اٹھ رہی ہے ،خون رِس رہا ہے اور کُرہ ارض پر موجود پوری مسلم ملت ایک مغلوب ، مجبور و مقہورامت کی حثییت سے پہچانی جاتی ہے۔ہم اس درد کا درمان ڈھونڈنے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنی بیکسی و بے بسی کا رونا رو رو کر خود کو ہلکاں کرر ہے ہیں ۔ ہماری اس بد نصیبی اور ستم ظریفی میں اضافے کا موجب نہ صرف غیر ہیں بلکہ اپنوں نے بھی ستم پہ ستم ڈھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی ہے ۔ مجھے یاس و الم کے اس ماحول میں شبہ اس بات پرہے کیا ملت کو اس بھنور سے نکالنے کیلئے صلاح الدین ایوبی اور یوسف بن تاشقین جیسے جری اور درد دل سے معمور سالار دستیاب بھی ہونگے کہ نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی خامیاں اور ناکامیاں تلاش کرنے اور انہیں اچھالنے کے لئے ڈھول تو ضرور پیٹتے ہیں لیکن تعمیرِ ملت کے فریضے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھانے اور اس میں حصہ لینے سے گھبرا جاتے ہیں یا آنا کانی کرکے بری الذمہ ہونے کے لئے نت نئے حیلے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔

ہم اپنی ناکامیوں کا جائزہ لینے لگیں تو شروعات فلسطین سے کی جا سکتی ہے۔ یہ وہ ارض موعودہ ہے کہ ادھر فلسطین کا نام زبان پر آیا ،اُدھر آنکھوں کی پلکوں پر ستارے جھلملانے لگتے ہیں ۔ اس سرزمینِ انبیاءکے لئے اسلامی ماخذ میں تعریف اور فضائل و مناقب کے سلسلے موجود ہیں جنکے ثبوت کے بطور تاریخ کے صفحات پر بے شمار دلائل بکھری پڑی ہیں۔ لیکن اپنی خفتگی اور اقتصادی، سیاسی ،تعلیمی ،دینی و معاشی بے حالی کی وجہ سے یہی فلسطین امتِ مسلمہ کے لئے ایک ایسا قطعہ ارضی ہے کہ جہاں کے مجبور مسلمانوں کی چیخیں ہر گذرتے دن کے ساتھ اور زیادہ بلند ہوکر انکی اور پوری امتِ مسلمہ کی بے بسی کا احساس دلاتی ہے۔ اس سرزمین کی تاریخ امتِ مسلمہ کے لئے ایک سنہری دور رہا ہے۔یہاں سے مسلمانوں کے ایسے بے شمار مشاہیر ،علماء،اسکالرز ہو اٹھے ہیں کہ جنہوں نے اپنے مثالی کردار سے ایک انمٹ چھاپ چھوڑی ہے بلکہ سُنہرے نشان ثبت کئے ہیں۔

برسہا برس گذرے کے بعد بھی امتِ مسلمہ قبلہ اول کے چھِن جانے کے غم میں سرد آہیں بھرتے ہوئے فقط یاس و حسرت کا اظہار ہی کررہی ہیں۔ مجبور فلسطینیوں کو یہاں نماز پڑھنے سے روکا جارہا ہے اور اگر کبھی کبھار اجازت بھی دی بھی جائے مگر تشدد بھڑکا کر انکی نمازوں کو بے سکون اور انکے ابدان کو لہو لہان کردیا جاتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس بات کا ادراک کرنے کی کوشش بھی کی کہ بیت المقدس ہم سے کیوں اور کس طرح ایک بڑی سازش کے تحت چھین لیا گیا ؟۔

مجبور فلسطینیوں کو یہاں نماز پڑھنے سے روکا جارہا ہے اور اگر کبھی کبھار اجازت بھی دی بھی جائے مگر تشدد بھڑکا کر انکی نمازوں کو بے سکون اور انکے ابدان کو لہو لہان کردیا جاتا ہے۔

تاریخ کے جھروکوں میں جھانکا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ۱۸۹۷ء میں سوئٹرزلینڈ کے شہر پال میں یہودیوں نے ایک کانفرنس منعقد کی جس کے انعقاد میں تھیوڈ ورہرتزل کا بڑا کردار تھا۔ اس کانفرنس میں یہودیوں نے فلسطین کو ”اپنا وطن“ بنانے کی قرارداد منظور کرلی۔ ہرتزل نے ”یہودی مملکت“ کے موضوع پر ایک کتاب میں اس مملکت کی حدود کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیل کی حدود میں سارا فلسطین، پورا اردن، تمام تر شام و لبنان، عراق و کویت کے بیشتر علاقے اور سعودی عرب کا بھی بڑا حصہ شامل ہو گا اور پھر یہ حدود مدینہ منورہ تک وسیع کر دی جائیں گی۔ مصر سے صحرائے سینا، قاہرہ اور سکندریہ اسرائیل کی حدود میں کئے جائیں گے۔ یہی علاقہ ہے جسے یہودی اپنی اولاد کو یاد کراتے رہتے ہیں اور یہ عبارت کہ ”اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے فرات سے دریائے نیل تک ہیں“ ،اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر بھی کنندہ ہے۔ یہی یہودی نعرہ ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ ہردم کوشاں رہتے ہیں۔

صہیونیوں نے ایک تحریک شروع کی ،جس کے تحت دنیا کے مختلف خطوں سے یہودی ہجرت کر کے فلسطین میں آ بسے اوریہاں زمینیں خریدنا شروع کیں۔ چنانچہ ۱۸۸۰ء سے اس مہاجرت کا سلسلہ شروع ہوا اور زیادہ تر مشرقی یورپ سے یہودی خاندان فلسطین منتقل ہونے لگے۔ تھیوڈور ہرتزل کی صہیونی تحریک میں اس بات کو مقصود قرار دیا گیا تھا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا جائے اور ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔ یہودی سرمایہ داروں نے اس غرض کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی کہ فلسطین منتقل ہونے والے یہودی خاندان وہاں زمینیں خریدیں اور منظم طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں۔ 1910ءمیں ہرتزل نے ترکی کے سلطان عبد الحمید خان کو باقاعدہ یہ پیغام بھجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں۔آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں۔ مگر سلطان عبد الحمید خان نے اس پیغام کو مسترد کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ ”جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک سلطنتِ ترکی موجود ہے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کئے جائے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ میں تمہاری ساری دولت پر بھی تھوکتا ہوں“۔

سلطان عبد الحمید خان کا جواب سن کر ہرتزل کی طرف انہیں برے نتائج بگھتنے کی دھمکی دی گئی ۔ چنانچہ اس کے بعد فوراً ہی سلطان عبد الحمید کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں شروع ہوئیں جن میں فری میسن، دونمہ (وہ یہودی جنہوں نے دکھاوے کیلئے اسلام قبول کر رکھا تھا) اور وہ مسلمان نوجوان شریک تھے جو مغربی تعلیم کے زیر اثر آکر ترک قوم پرستی کے علمبردار بن گئے تھے۔ ان لوگوں نے ترک فوج میں اپنے اثرات پھیلائے اور سات سال کے اندر ان کی سازشیں پختہ ہو کر اس منزل پر پہنچ گئیں کہ سلطان عبد الحمید کو معزول کر دیں۔ اس زمانے میں ایک دوسری سازش بھی زور و شور سے چل رہی تھی جس کا مقصد ترک سلطنت کے حصے کرانا مقصود تھا اور اس سازش میں بھی مغربی سیاست کاروں کے ساتھ ساتھ یہودی دماغ ابتدا سے کار فرما رہا۔ ترکوں میں یہ تحریک برپا کی گئی کہ وہ سلطنت کی بنا اسلامی اخوت کی بجائے ترک قوم پرستی پر رکھیں۔ حالانکہ ترک سلطنت میں صرف ترک ہی آباد نہیں تھے بلکہ یہاں عرب، کرد اور دوسری نسلوں کے مسلمان بھی تھے۔ ایسی سلطنت کو صرف ترک قوم کی سلطنت قرار دینے کے صاف معنیٰ یہ تھے کہ تمام غیر ترک مسلمانوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ختم ہو جائیں۔ دوسری طرف عربوں کو عربی قومیت کا سبق پڑھایا گیا اور ان کے دماغ میں یہ بات بٹھائی گئی کہ وہ ترکوں کی غلامی سے آزاد ہونے کی جدو جہد کریں ۔اس دوران یہودی مسلسل اپنے خاکوں میں رنگ بھرتے رہے اور نتیجتاََ ترکی کے حصے کرکے خلافت کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ۔

مسئلہ فلسطین ایک جانا پہچانا مسئلہ ہے اور یہاں اس کی تاریخ بتانا یا اس پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے تاہم اب جبکہ جموں کشمیر کو ہتھیانے کیلئے دفعہ35A کے خلاف سازشیں بامِ عروج کو پہنچ گئی ہیں مسئلہ فلسطین کی بنیادوں کی تذکرہ لازمی ہوجاتا ہے تاکہ ہم جموں کشمیر کے عوام بھروقت ہوش میں نہ رہنے کے بھیانک نتائج کو پیشگی اخذ کرسکیں۔ ہمارا المیہ ہوبہو فلسطینیوں کے جیسا ہے لہٰذا ہم نے اپنے سبھی حواس مجتمع کرکے ضرورت کے مطابق اقدام نہ کئے تو ہمارا حشر بھی فلسطینیوں سے مختلف نہ ہوگا۔

جموں کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کی سازشیں اتنی ہی پرانی ہیں کہ جتنی بھارت کی آزادی پرانی ہے۔ ہمارے معاملے کی بنیادیں چونکہ کافی پختہ ہیں لہٰذا ابھی تک کی سازشیں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائی ہیں یہاں تک کہ آستین کے سانپوں نے بھی غیروں کیلئے وہ سب کچھ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کہ جو یہ غیر کتنے ہی طاقتور ہونے کے باوجود خود نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم ہر طرف سے مایوس ہوکر اب عدالت کو ایک چور دروازے کے بطور استعمال کرکے ریاست کے منفرد تشخص کو ختم کرنے کی ایک ایسی سازش کی گئی ہے کہ جو اب تک کی سبھی سازشوں سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہودی سرمایہ داروں نے اس غرض کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی کہ فلسطین منتقل ہونے والے یہودی خاندان وہاں زمینیں خریدیں اور منظم طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں۔

آئینِ ہند کی جس دفعہ 35A کو ہمارے سروں پر ابھی تلوار کے مانند لٹکتا ہوا چھوڑا گیا ہے، وہ دراصل کیا ہے اور اسکے دفاع کیلئے ہمیں خون بہانے تک پر کیوں آمادہ ہونا ہوگا؟

چناچہ اس دفعہ کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ یہاں کا پشتنی باشندہ ہو اور یہ ریاست اس کی جائے پیدائش ہو ۔کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے نہ ہی حکومت جموں کشمیر کی ملازمت حاصل کرسکتاہے۔

دفعہ 35A جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا ہے۔ اسے ہٹانے کی کوشش کی گئی یا اس میں کسی ترمیم کے لئے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جموں کشمیر کے لئے خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کیا جارہا ہے۔

آر ایس ایس کے ایک تھنک ٹینک ”جموں کشمیر سٹڈی سینٹر“ نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35A کو چیلنج کیا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سے سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے ۔جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ کوئی حتمی الحاق ہوا ہے اور نہ یہ ریاست بھارت میں ضم ہوچکی ہے بلکہ آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے تحت صرف سیکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی بھارت کے حدِ اختیار میں دی گئی ہے جبکہ باقی امورات میں ریاست خود مختار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس معاہدے کے روز اول سے ہی بھارت نے اسے کمزور اور کھوکھلا کرنے کی سازشیں بھیر شروع کی تھیں اور جموں کشمیر کی وہ خود مختاری فقط کہنے کو ہے کہ جو دفعہ370 کے تحت موعودہ تھی۔

مقامی گماشتوں کی حمایت سے نئی دلی نے وقت وقت پر جموں کشمیر کی خود مختاری میں سیندھ لگاکر اسے تقریباََ ختم تو کر ہی دیا ہے لیکن اب دفعہ 370 اور 35A کو سرے سے ہی حذف کرنے کیلئے عدالت کا راستہ اپنایا گیا ہے۔عدالت نے بھارت سرکار کے حق میں فیصلہ سنایا تو اس متنازعہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو آباد کرکے یہاں کے آبادیاتی تناسب کو بگاڑ بلکہ بدلنے میں کامیاب ہونا چاہتی ہے۔ ایسا ممکن ہونے کی صورت میں بھارت ایک وقت پر ”رائے شماری“ کے وعدہ پر ”آمادہ“ ہوکر کشمیری عوام کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی گواہی میں کیا گیا وعدہ نبھانے کے باوجود ریاست کو ہتھیالینا چاہتا ہے۔

خدانخواستہ اگر بھارت جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے ضامن اس دفعہ کو ختم کرانے یا اس میں اپنی من پسند ترمیم و تحریف کرانے میں کامیاب ہوا تو غیر ریاستی طبقہ واردِ ریاست ہوگا اور دولت کی ریل پیل کے بل بوتے پر بالکل وہی صورت حال پیدا کرے گا کہ جس کاسامنا فلسطینیوں کو کرنا پڑرہاہے ۔

کشمیر میں اگرچہ بہت سی برائیوں کو فروغ دیا جارہا ہے جس کی رومیں نوجوان نسل بہہ رہی ہے لیکن یہ بات پھر بھی عیاں ہے کہ اس خرمن امن میں کسی نہ کسی صورت اسلامی تشخص اب بھی باقی ہے لیکن جب یہ دفعہ مذکورہ ختم ہوگا تو صرف غیر ریاستی لوگ ہی واردِ وادی نہیں ہوں گے بلکہ ان کے ساتھ ایک نئی تہذیب و ثقافت بھی ہمارا منہ چڑھانے آئے گی ۔یہاں جس بھائی چارے کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے وہ ایک خواب بن کر رہ جائے گا ۔ اگر اس قانون میں کوئی تغیر و تبدل کیا گیا تو وہ امن و امان خواب بن کر رہ جائے گا جبکہ کسی کے مال و جان کا تحفظ ایک فسانہ بن جائے گا عفت مآب بہنیں اپنی پاک دامنی کو ترسیں گی ۔اتنا ہی نہیں بلکہ مختصراََ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں یا تو ختم کیا جاسکتا ہے یا پھر ہم لوگ جلد ہی خود اپنی زمین پر ایک مجبور اقلیت کی صورت میں ایک بدترین اور بے بسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہونگے۔

حالانکہ دفعہ 35A ختم ہوا تو اس کی مار ریاست کے غیر مسلم طبقوں پر بھی پڑھے گی،پھر چاہے وہ دلی کی گود میں کھیل کر اپنا من بہلانے والے لداخ کے بودھ ہوں یا آر ایس ایس کے اشاروں پر ناچنے والے جموں کے ہندو جو ابھی اصل حالات کا اندازہ کئے بغیر محض کشمیر دشمنی میں زعفرانی رنگوں کے گرودوغبار میں اپنا بھلا برا دیکھنے سے قاصر ہیں۔ لیکن پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان لوگوں کے نقصانات اقتصادی حد تک ہونگے جبکہ ہم مسلمانوں کا دین و ایمان سب کچھ داو پر لگ سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی کوششیں الگ لیکن ابھی سب سے اہم ضرورت مجتمع اور متحد ہوکر اپنے تشخص اور ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کی حفاظت کرنا ہے نہیں تو وہ دن دور نہیں ہے کہ جب کشمیر میں غزہ کے وہ مناظر دہراتے دکھائی دینگے کہ جنہیں دیکھ کر ہم اپنا دکھ درد بھول کر فلسطینوں کیلئے روتے رہتے ہیں۔
نوٹ: صاحبِ مضمون کی آراء سے ادارہ تفصیلات کا کلی یا جزوی طور متفق ہونا لازمی نہیں ہے۔

 

Exit mobile version