اب جبکہ محبوبہ مفتی نے بھاجپا کے ہاتھوں مسمار کردہ پی ڈی پی کی عمارت کے کھنڈر کو ٹٹولنا شروع کرکے اسکے ایک بار پھر کھڑاہونے کے امکانات کا جائزہ لینا شروع کیا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کے ساتھ ساتھ مفتی کا غرور بھی ٹوٹ گیا ہے۔ چند ہی ہفتوں تک،مبینہ طور، کارکنوں کی تو دور پارٹی لیڈروں کے ساتھ سیدھے منھ بات نہ کرنے والی، وہ (مفتی) اب ”طوفان کے آدمی“ کی بجائے زمینی سطح کے آدمیوں کی سُننے لگی ہیں جو پارٹی میں خاندانی راج کے تلے دبا ہوا محسوس کر رہے تھے۔
بدترین قسم کے داخلی انتشار کا شکار پی ڈی پی کی ناو تقریباََ پوری طرح ڈوب چکی ہے اور ڈوبنے کو تیار محبوبہ مفتی ایک کنارے پر کھڑا اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ،انکا ”بیربل“ کہلائے جانے والے، نعیم اختر کی بلی چڑھانے پر بھی آمادہ ہیں کہ جن سے پارٹی کے اکثر کارکن اور لیڈر تنگ ہی نہیں بلکہ متنفر بتائے جارہے ہیں۔
”میرے خیال میں یہ ایک بڑی بات ہے جہاں کل تک پارٹی میں مدنی کی مرضی حرفِ آخر مانی جاتی تھی وہیں انہیں آج استعفیٰ بھی دینا پڑا اور یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑی کہ انکا کسی عہدے پر رہنا پارٹی کے مفاد میں نہیں بلکہ اسکے مفاد کے خلاف ہے“۔
محبوبہ مفتی کے ماموں اور پارٹی کے اقتدار میں رہنے کے دوران ”آل اِن آل“ رہے نائبِ صدر سرتاج مدنی نے گذشتہ روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا اور کہا کہ وہ پارٹی کے وسیع تر مفاد میں ایسا کر رہے ہیں۔ یعنی سرتاج مدنی کی زبانی محبوبہ مفتی نے اپنے ناقدین کے اس الزام کی تصدیق کی کہ پی ڈی پی کوئی پارٹی نہیں بلکہ ایک ”فیملی انٹرپرائز“ تھا جو اتنی ہی تیزی کے ساتھ دیوالیہ ہوتا نظر آرہا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ اس نے ”ترقی کرتے ہوئے ریاست کو اپنی جاگیر بنالیا تھا“۔
پی ڈی پی کا بھاجپا کے اچانک ہی پیدا کردہ زلزلے کا شکار ہونا تھا کہ اس بات کے ثابت ہونے میں بہت تھوڑا وقت لگا کہ دور سے ایک بڑی پارٹی دکھائی دینے والی یہ جماعت دراصل موقعہ پرستوں کا ایک ایسا ٹولا تھا کہ جو موقعہ و محل کو دیکھتے ہوئے گرگٹ کو مات دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ٹولا اپنے کئے کیلئے ”قطبین کے ملاپ“ سے لیکر کسی اور چیز تک کا ”جواز اور دلیل“ دے سکتا ہے۔ جس طرح متوفی مفتی سعید اور پھر انکی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے ،پہلے بھاجپا کی ریاست میں آمد کا ڈر بٹھاکر لوگوں سے ووٹ لیا اور پھر کسی شرم کے بغیر اسی پارٹی کا کھلونا بن کر ،صدیوں تک سزا دلانے کی صلاحیت رکھنے والے لمحے کو وجود بخشا اسی طرح کل تک انکے ”چمچے اور باورچی“ رہے ”لیڈروں“ نے آج فقط اپنی ”باجی“ کو ہی سرِ بازار بے نقاب نہیں کیا ہے بلکہ وہ بھی پوری قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنے نکلے ہیں۔ یقیناََ انہوں نے یہ سب باجی سے ہی سیکھا ہے ۔
سرتاج مدنی کے استعفیٰ نے تاہم وضاحت کے ساتھ یہ بات سمجھائی ہے کہ محبوبہ مفتی کی رسی اس حد تک جل چکی ہے کہ اسکا بل بھی گیا ہے۔ جو سرتاج مدنی پارٹی میں سب کچھ بنے ہوئے تھے انکا استعفیٰ دینا اور یہ کہنا کہ ایسا پارٹی کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے اس بات کی جانب اشارہ ہی نہیں بلکہ اقراری بیان ہے۔ حالانکہ مفتی کے ایک باغی ممبرِ اسمبلی نے مدنی کے استعفیٰ کو محض ایک ڈرامہ قرار دیا ہے تاہم مبصرین کے مطابق یہ پیشرفت ”محض ایک ڈرامہ“ سے بڑھکر ہے۔ جیسا کہ پی ڈی پی کی تاریخ اور اس پارٹی کے طریقہ کار سے واقف ایک مبصر کا کہنا ہے ”میرے خیال میں یہ ایک بڑی بات ہے جہاں کل تک پارٹی میں مدنی کی مرضی حرفِ آخر مانی جاتی تھی وہیں انہیں آج استعفیٰ بھی دینا پڑا اور یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑی کہ انکا کسی عہدے پر رہنا پارٹی کے مفاد میں نہیں بلکہ اسکے مفاد کے خلاف ہے“۔انہوں نے کہا کہ پارٹی میں نچلی سطح سے لیکر اعلیٰ سطح تک لوگ سرتاج مدنی اور مفتی خاندان کے دیگر رشتہ داروں کی ”آمریت“ سے پہلے سے بہت تنگ تھے۔ مذکورہ مبصر کا کہنا ہے ”لیکن کسی کو کچھ کہنے، بلکہ اپنی ناپسندیدگی کا اشارہ تک دینے، کی ہمت نہیں ہو پارہی تھی“۔ یعنی اب جبکہ پی ڈی پی برین ہیمریج کے شکار مریض کی طرح گویا معذور ہوگئی اور اسے آنکھیں دکھانے کے ردعمل کا کوئی امکان باقی نہ رہا تو دل جلوں کو ہمت آگئی ہے۔
ذرائع کا مانیں تو حالیہ دنوں میں محبوبہ مفتی نے جتنی بھی میٹنگیں بلائیں انکا ماحول پہلے سے یکسر مختلف تھا اور شرکاء نہ صرف پہلے کے مقابلے میں باجی کے سامنے اونچا بولنے کی ”جرات“ کررہے تھے بلکہ وہ ”پیروں کی پارٹی“ کیلئے ”بے پیروں“ کی سرپرستی تک کی تجاویز دینے سے بھی نہیں گھبرائے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے ”سرکار تو اب رہی نہیں لہٰذا فوٹوگرافر بھائی اور دیگر رشتہ داروں میں وزارتیں اور اعلیٰ عہدے بانٹنے کا امکان بھی نہیں ہے البتہ بیشتر ساتھیوں نے محبوبہ جی سے صاف صاف کہا ہے کہ اور باتوں کے ساتھ ساتھ انکی کنبہ پروری نے انہیں تباہ کیا ہے اور اب انہیں پارٹی عہدوں کو گھر سے باہر دیکر رفو گری کرکے دیکھنا چاہیئے“۔
یعنی اب جبکہ پی ڈی پی برین ہیمریج کے شکار مریض کی طرح گویا معذور ہوگئی اور اسے آنکھیں دکھانے کے ردعمل کا کوئی امکان باقی نہ رہا تو دل جلوں کو ہمت آگئی ہے۔
پی ڈی پی میں آل اِن آل سرتاج مدنی کے استعفیٰ کے بعد پارٹی کے دیگر عہدیداروں نے بھی استعفیٰ پیش کیا ہے جیسا کہ پارٹی ترجمان رفیع میر نے کہا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ پارٹی تنظیمِ نو کے دور سے گذرنے والی ہے ۔یعنی محبوبہ مفتی ،وقتی طور ہی سہی، اپنے ناقدین کو خاموش کرانے اور پارٹی چھوڑنے پر آمادہ ممبران کو واپس لانے کیلئے پی ڈی پی کو ایک خاندان کے کاروبار کی بجائے ایک پارٹی کی شکل میں پیش کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کس حد تک کھنڈرات کو ایک بار پھر عمارت کی شکل دینے میں کامیاب ہونگی یہ دیکھنے کیلئے وقت کی ضرورت ہے تاہم انکا یہ کام آسان نہیں ہے بلکہ سخت مشقت کے ساتھ ساتھ انہیں کئی قربانیاں دینے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے بلکہ انہیں اپنے بیربل نعیم اختر تک کی ”بلی“ چڑھانا پڑ سکتی ہے۔ ابھی تک جتنے بھی پی ڈی پی ممبران یا لیڈروں نے پارٹی صدر کے خلاف سرِ عام بولا ہے انہوں نے پارٹی میں خاندانی راج ہونے کے ساتھ ساتھ نعیم اختر کی داداگیری ہونے کی بھی شکایت کی ہے۔
سابق بیروکریٹ نعیم اختر عرصہ تک مفتی سعید کے درپردہ مشیر اور کارندے رہنے کے بعد پارٹی میں شامل ہوتو گئے تھے تاہم انہوں نے کوئی الیکشن نہیں لڑا بلکہ مفتیوں کے ساتھ قربت کے صلے میں انہیں پہلے ایم ایل سی بنایا گیا اور پھر کابینہ کی وزارت دی گئی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ سرتاج مدنی ہی کی طرح محبوبہ مفتی کے قریب ترین رہے اور اہم فیصلوں میں انکی رائے حتمی بلکہ بعض معاملات میں انہی کا فیصلہ حتمی ٹھہرا۔حالانکہ مفتی سعید کے انتقال پر خود نعیم اختر نے کہا تھا کہ مفتی کی صورت میں انہوں نے اپنی ”کانسچیونسی کھو دی ہے“تاہم محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ بنیں تو انہوں نے اپنے والد کی جگہ خود کو نعیم اختر کی ”کانسچیونسی“بنادیا۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ نعیم اختر چونکہ زمینی سطح کے سیاسی کارکن نہیں ہیں لہٰذا وہ پارٹی میں رہتے ہوئے بھی ایک نوکر شاہ کی طرح برتاو کرتے رہے۔ جیسا کہ پارٹی کے ایک لیڈر نے کہا” نعیم اختر خود تو سیاسی کارکن نہیں ہیں لیکن وہ پارٹی کے دیرینہ یہاں تک کہ جیت کر آئے ممبرانِ اسمبلی تک کو نچاتے رہے بلکہ انکی تذلیل کرتے رہے۔ انکے سامنے ایک جیتے ہوئے ممبرِ اسمبلی کی حیثیت بھی کسی سرکاری افسر کے سامنے درجہ چہارم کے ملازم کی طرح ہوتی تھی لیکن کوئی کچھ نہیں کہہ پاتا تھا“۔ مذکورہ لیڈر نے کہا کہ پی ڈی پی کا وہ دم خم باقی تو نہیں رہا ہے لیکن اگر محبوبہ مفتی نئی شروعات چاہتی ہی ہیں تو پھر انہیں کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ نعیم اختر کے جیسے لوگوں کی حدیں بھی مقرر کرنا ہونگی۔ انہوں نے کہا” بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ پارٹی میں بیشتر لوگ نعیم اختر کو خارجی دروازہ دکھائے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور محبوبہ جی کو اس بات پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا“۔
” نعیم اختر خود تو سیاسی کارکن نہیں ہیں لیکن وہ پارٹی کے دیرینہ یہاں تک کہ جیت کر آئے ممبرانِ اسمبلی تک کو نچاتے رہے بلکہ انکی تذلیل کرتے رہے۔ انکے سامنے ایک جیتے ہوئے ممبرِ اسمبلی کی حیثیت بھی کسی سرکاری افسر کے سامنے درجہ چہارم کے ملازم کی طرح ہوتی تھی لیکن کوئی کچھ نہیں کہہ پاتا تھا“۔
واضح رہے کہ پارٹی چھوڑنے پر آمادہ،بلکہ چھوڑچکے اور اب دوسروں کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے میں لگے، انصاری حضرات نے واشگاف الفاظ میں نعیم اختر کی مخالفت کی ہے اور انہیں پارٹی کی بربادی کی وجہ بتایا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ چچا بھتیجے کے پی ڈی پی سے ”ناراض“ ہونے کی فقط یہ ہی وجہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کی باتیں اصل کہانی کو ”کیموفلاج“کرنے کے جیسا ہے۔ البتہ حالیہ دنوں میں جہاں پی ڈی پی کی درگت کو لیکر سنجیدہ تنقید سے لیکر طنزومزاح تک سوشل میڈیا پر چھایا رہا وہیں پی ڈی پی کے بعض لوگوں،اگرچہ وہ نامی گرامی نہیں ہیں، نے باضابطہ ”نعیم اختر کو ہٹاو پارٹی کو بچاو“ کے نعرے لگائے ہیں۔ دلچسپ ہے کہ نعیم اختر،جو کابینہ وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ سابق سرکار کے ترجمان بھی تھے، سرکار گر جانے کے بعد گویا جیسے غائب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ ان پر رشوتستانی اور خرد برد کے سنگین الزامات بھی لگے ہیں لیکن اسکے باوجود بھی وہ خاموش ہیں۔ ایک رپورٹر کو انہوں نے بتایا تھا کہ وہ یوگا کرکے اور گالف کورس میں چہل قدمی کرکے وقت گذار رہے ہیں۔
ایک نظر ادھر بھی