حرُیت پیاسی تو ہے مگر۔۔۔!

ریاستی اسمبلی کے جاری بجٹ اجلاس کے دوران جب وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو حسب روایت گورنر کے خطبے پر بحث کا جواب دینا تھا تو حزب اختلاف کے لیڈر اور سابقہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ صاحب نے یہ کہکر وزیر اعلیٰ کی تقریر کا بائیکاٹ کیا کہ انہوں نے اپوزیشن اراکین کی طرف سے کشمیر پر ہو رہی سِولین ہلاکتوں کے بارے میں اپنے منہ سے کچھ بھی نہیں بولا ۔ عمر صاحب کا فرما نا تھا کہ اگر وزیر اعلیٰ اپوزیشن کی طرف سے ہلاکتوں پر اٹھائے گئے سوالات پر دوباتیں خود بولتیںتو کافی بہتر رہتا ۔ بظاہر عمر صاحب کی بات میں کوئی اعتراض کرنے کی وجہ نظر نہیں آتی لیکن پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر محبوبہ مفتی، بقول عمر صاحب کے ، وہی الفا ظ بولتیں جو ان کی بجائے عبدالرحمان ویری صاحب نے بولے تو کون سا فرق پڑتا کیونکہ زمینی صورتحال اسمبلی میں کئے جانے والے دعوئوں ، وعظ و نصیحت اورسرکار کی جانب سے دی جانے والی یقین دہانیوں سے سو فیصدی مختلف ہے ۔ ایسے حالات میں، جب ریاستی اسمبلی بڑی سرعت کے ساتھ اپنی افادیت کھو رہی ہے اور اسمبلی کے اندر ہو رہی بحث و مباحثوں کاایوان سے باہرنہ کوئی خریدار ہے اور نہ ہی اسکا زمینی صورتحال پرکوئی اثر ہی پڑتا ہے، محبوبہ مفتی کی تقریر کا بائیکاٹ کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی فرق پڑے گا ۔حالانکہ عمر عبداللہ سے لیکر محبوبہ مفتی اور اس سے لیکر کسی بھی ہندوستانی تک جموں کشمیر کی اسمبلی کوسب ہی ’’ہندوستان کی طاقتور ترین‘‘اسمبلی کہتے نہیں تھکتے ہیں لیکن امرِ واقع یہ ہے کہ اس ایوان کا وقار اس حد تک گر چکا ہے کہ یہاں روز مرہ کے مسائل سے متعلق بھی ،اکثر و بیشتر،غلط جوابات اور اطلاعات دی جاتی ہیں۔

محبوبہ جی کومگریہ بات کون سمجھائے کہ اگر کنویں کے اندر پانی کے بدلے تیزاب ہو تو بھلاگھوڑا اسے سونگھ بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے پر اسکا منھ ہی جھلس جائے گا ۔

ایک طرف طاقتور ترین کہلائے جانے والے اس ایوان کے رواں اجلاس میں پی ڈی پی کے جاوید بیگ اور دیگر ارکان نے حریت پسند قیادت کو ہٹ دھرم ، تنگ نظر اور کوتاہ اندیش ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی اور دوسری طرف محبوبہ مفتی نے بذات خود حریت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے اس گھوڑے سے تشبیع دی جو پیاسا توہو مگر پانی پینے پر آمادہ نہیں۔محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ گھوڑے کو کنویں تک تولیا جا سکتا ہے البتہ پانی پینے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ محبوبہ جی کومگریہ بات کون سمجھائے کہ اگر کنویں کے اندر پانی کے بدلے تیزاب ہو تو بھلاگھوڑا اسے سونگھ بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے پر اسکا منھ ہی جھلس جائے گا ۔محبوبہ مفتی گھوڑے کی مثال دینے میں غلط تو نہیں ہیں لیکن یہ بات لازمی ہے کہ گھوڑے کو پانی سے بھرے کنویں کی جانب لیجایا جانا چاہیئے نہ کہ وہاں جہاں پانی کی بجائے تیزاب بھرا ہو۔ حریت کوپیاسا گھوڑا ضرور جانیئے لیکن یہ بھی سمجھ لیجئے کہ پیاس پانی سے بجھتی ہے کسی اور چیز سے نہیں۔

حریت دودھ سے دھلی نہیں ہے اور اس میں باہمی مشاورت اور فیصلہ لینے کی صلاحیت کا کافی حد تک فقدان پایا جاتا ہے لیکن پھر بھی مذاکراتی عمل کے حوالے سے حریت کے خدشات اور تحفظات کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں نئی دلی خود مذاکرات کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے وہاں حریت ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں ایسے مذاکرات کا حصہ بننے کیلئے شائد تیار نہیں ہو سکتی جن کا حشر پہلے ہی سب کو معلوم ہے ۔ جہاں ماضی میں میر واعظ، یاسین ملک اور عسکری کمانڈر حضرات ان تلخ تجربات کے نتیجے میں اپنی اعتباریت پر سوالیہ نشان لگا چکے ہیں وہاں اب پڑھے لکھے نواجون مین اسٹریم اور علیحدگی پسند دونوں سے دورہوتے جا رہے ہیں ۔ شائد کوئی بھی کھل کر مذاکر ات کیلئے تب تک تیار نہیں ہوگا جب تک نہ نئی دلی کسی حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف محبوبہ جی حریت کو پیاسے گھوڑے کی طرح پیاس بھجانے کی خاطر کنویں تک لے جانے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن اگلی ہی سانس میں حریت کو ہندوستانی آئین کے اندر بات چیت کرنے اور اس کے علاوہ تمام متبادلات کو مسترد بھی کرتی ہیں۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستانی آئین کے اندر ہی مسئلہ کشمیر کا حل مضمر ہے تو پھرمین اسٹریم جماعتیں خود پہل کرکے یہ حل کیوں نہیں نکال رہی ہیں اسکے لئے حریت سے کیوں کہا جا رہا ہے۔

جب مین اسٹریم جماعتیں ریاستی تشدد کو روکنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی یہ جماعتیں نئی دلی کو بامعنیٰ بات چیت کیلئے آمادہ کر سکتی ہیں تو پھر آپ حریت کے گھوڑے کو کونسے کنویں کے پاس لیجانے کی بات کرتے ہیں۔ یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ ہندوستانی آئین کے اندر کشمیر مسئلہ کے حل کی وکالت کرنے والی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ دفعہ 370 کے حوالے سے بھی دلی کے آگے ہاتھ جوڑ کر ایڈیاں رگڑنے میں مصروف ہیں ۔

مفتی صاحب کی برسی کے موقعہ پر جموں کے زوراور اسٹیدم کے آڈیٹوریم میں پی ڈی پی نے جہاں ریاستی گورنر کو بھی مدعو کیا تھا وہاں انہوں نے اس تقریب میں پہلے مفتی محمد سعید یادگاری لیکچر کیلئے دانشور لارڈ میگنارڈ ڈسائی کوبھی مدعو کیا تھا ۔ لارڈ میگنارڈ ڈسائی نے اپنی زبردست تقریر میں پوری دنیا میں سیاسی تنازعات کے حل کے حوالے سے جو دلچسپ اور مدلل باتیں کیں وہ بے حد معنیٰ خیز تھیں ۔ انہوں نے براہ راست اسکارٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئی لینڈجیسے تنازعات کیلئے ریفرنڈم کے ذریعے پُر امن حل کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بات کہہ دی کہ جموں کشمیر کے تنازعے کاحل بھی ریفرنڈم میں ہی مضمر ہے ۔ ان کی تقریر کا مرکزی نقطہ لگ بھگ وہی بات تھی جس کیلئے پی ڈی پی اور این سی کی سرکاریں کبھی گذشتہ 9برسوں سے کبھی راقم کو اسمبلی کے اندر تو کبھی ریاست کی مختلف سڑکوں پر تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور کبھی حریت قائدین کو باپند سلاسل کرتی رہی ہیں ۔ دلچسپ ہے کہ جو باتیں 2جنوری کے دن ہم نے اسمبلی میں گورنر صاحب کے خطبے کے دوران سامنے رکھیں اور جن پر انہوں نے اور دیگر لوگوں نے شدید غصے کا اظہار کیازوراور اسٹیڈیم میں لارڈ میکنارڈ کی زبانی ان ہی باتوں کو سن کر گورنر موصوف اور محبوبہ جی پوری تقریر کے دوران تالیاں بجاتے رہے۔ نہ صرف یہ دو حضرات بلکہ ڈاکٹر نرمل سنگھ بھی دوران تقریب دیگر بیوروکریٹوں ،منسٹروں ، ممبران اسمبلی اور دانشوروں کے ساتھ ریفرنڈم کی باتیں سن کر تالیاں بجاتے رہے۔

حیرانگی کی بات ہے کہ زوراور اسٹیڈیم سے اسمبلی پہنچتے پہنچتے میڈم محبوبہ جی نے ہر اس بات کی نفی کر دی جس سے لارڈ میگنارڈ ڈسائی کے منہ سے سن کر وہ باغ باغ ہو رہی تھیں ۔ یہ کشمیری سیاستدانوں کا دوغلا پن ہے اور ان کے بے ایمان چہروں پر سے پردہ اٹھاتا ہے ۔ جہاں مین اسٹریم کو بے اعتبار اور رسوا کرنے کیلئے نئی دلی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے وہاں مین اسٹریم نے خود بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے میں بخل سے کام نہیں لیاہے۔چناچہ نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی اس نے کبھی بھی اپنی اصل ذمہ داریوں کا ادراک کرکے ریاستی اسمبلی سے وہ سب حاصل کرنے کی کوشش تک نہیں کی ہے کہ جو یقیناََ اس ایوان سے حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ریاستی اسمبلی کا رواں اجلاس ایک بار پھر پرانی روایات کو ہی آگے لے جانے کی ڈگر پر ہے ۔

ان کی تقریر کا مرکزی نقطہ لگ بھگ وہی بات تھی جس کیلئے پی ڈی پی اور این سی کی سرکاریں کبھی گذشتہ 9برسوں سے کبھی راقم کو اسمبلی کے اندر تو کبھی ریاست کی مختلف سڑکوں پر تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور کبھی حریت قائدین کو باپند سلاسل کرتی رہی ہیں ۔

جب تک نہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی اپنا احتساب کرکے کسی نہ کسی ایسے ایجنڈے پر متفق ہو جائیں جس پر ان کا ایمان قائم ہو جائے تب تک اسمبلی کے اندر کہی جانے والی ہرصحیح بات کو بھی لوگ سرکس کا ڈرامہ ہی کہیں گے اور مین اسٹریم سیاستدانوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتے رہیں گے ۔ محبوبہ مفتی نے اسمبلی کے اندر حریت کو دھمکیاں دیکر، اور یہ کہکر کہ جو کچھ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ہندوستانی آئین کے اندر ہی ممکن ہے، بات چیت کے عمل کو اور بھی پیچیدہ بنا لیاہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ انہوں نے اپنے بیان سے نہ صرف دنیشورو شرما کا کام مشکل کر دیا بلکہ حریت کیلئے بھی بات چیت کے دروازے فی الحال بند کر دئے ہیںتو بے جا نہ ہوگا ۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ میڈم نے یہ حیران کن بیان دلی کے ساتھ مشاروت کے بعد دیا تھا یا ان کی اپنی ذہنی اخترا ع کا نتیجہ تھا ۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ نئی دلی خود ہی مذاکرات نہیں کرنا چاہتی ہے اور اسی لئے ایک طرف دنیشور شرما کو مذاکرات کار مقرر کرکے اس نے خود کو حاتم طائی کا چاچا ثابت کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف محبوبہ مفتی کی طرف سے حریت کو مذاکرات کے حوالے سے بد ظن کرنے اور مایوسی کی طرف دھکیلنے کا کام کرکے اپنی چنکیائی سیاست کو جاری رکھا۔

یہ خود اہل کشمیر اور ان کے لیڈروں کا کام ہے کہ وہ نئی دلی کے اصل عزائم کو سمجھ کرکشمیریوں کی قربانیوں کو ثمر آور ثابت کرنے کیلئے حریت دفاتر اور ممبران اسمبلی پر اس قدر اور اسطرح دبائو ڈالے کہ موجودہ مزاحمتی تحریک باعزت طریقے سے اپنے منتقی انجام تک پہنچ جائے۔

Exit mobile version