آدھی قیمت کے انڈے !

بچپن کے دنوں کی بات ہے، غالباً میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا، مجھے صبح سویرے اٹھ کر ایک کلومیٹر دور واقع پولٹری فارم سے ایک درجن انڈے خریدنے جانا پڑتا تھا۔ویسے تو ہماری گلی کے موڑ پر بھی پرچون کی دکان موجود تھی لیکن اس پولٹری فارم سے تھوڑی سی دراڑوں والے اور ٹوٹے ہوئے انڈے آدھی قیمت پر مل جاتے تھے ۔۔۔۔۔ چونکہ سودا سستا تھا ، سارے لوگ نزدیکی دکان کی بجائے یہاں سے ہی انڈے لینا پسند کرتے تھے. ظاہر ہے پولٹری فارم پر انڈے جلدی بِک جایا کرتے تھے اور خرایدار کو دیر لگتی تو مایوس لوٹنا پڑتا ۔ چنانچہ مجھے کبھی سورج نکلنے سے پہلے برفیلی ہواؤں میں تو کبھی جھلسا دینے والی دھوپ میں پیدل چل کر وہاں سے انڈے خریدنے جانا پڑتا تھا۔ بچپن ۔۔۔۔۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب کم سے کم مسافت بھی طویل سے طویل سفر معلوم ہوتا ہے!

مجھے ہر روز گہری نیند سے جگایا جاتا، موٹی سی جیکٹ پہننے کو دی جاتی، پاؤں میں جرابیں اور ساتھ قینچی چپل پہن کر پولٹری فارم تک جانا پڑتا تو بے بسی کا احساس ہوتا اور پھر اس بے بسی پر رونا آتا۔ لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی بھی مل جاتی کہ آج پھر آدھی قیمت میں انڈے ملیں گے، آج پھر کچھ بچت ہوگی۔ ہر روز باہر نکلتے وقت دادی کی آواز کانوں میں پڑتی کہ بیٹا تیز تیز چلو گے تو جسم کو حرارت ملے گی اور سردی کا اثر زائل ہوجائے گا۔ میں اپنے دونوں ہاتھوں کو بغل میں دبا کر، سردی سے کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ تیز تیز چلنے کی کوشش کرتا لیکن پاؤں میں پہنی ہوئی سستی اونی جرابوں اور نیچے قینجی چپل کا تال میل نہ ہونے کے باعث کبھی جوتی اتر جاتی تو کبھی میں لڑکھڑا جاتا۔ یخ بستہ پاؤں کو ٹھوکر لگتی تو درد کا احساس کئی گھنٹے تک رہتا۔

انڈے خرید کر واپس آتے ہوئے میں اپنے آپ کو یہ تسلی دیتا کہ ایک نہ ایک دن مجھے اس مشقت سے نجات مل کررہے گی۔ گھر آتا، سکول جانے کی تیاری شروع کردیتا، پھر جب امی گرما گرم پراٹھے کے اوپر آدھی قیمت پر خریدا ہوا انڈا فرائی کرکے رکھ دیتیں تو انڈے خریدنے کی وہ ساری سختیاں یکایک بھول جاتیں۔ پھر کچھ بڑا ہونے پر مجھے یہ آدھی قیمت کے انڈے لینے کے کچھ فوائد بھی سمجھ آنے لگے اور سمجھداری بچپنے پر غالب آتی تو مجھے اچھا لگنے لگتا۔8 سال کی عمر تک مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ ۔۔۔۔ آج پھر کچھ بچت ہوگئی، آج پھر سفید پوشی کا بھرم رہ گیا، آج پھر میرے بہن بھائی اچھا ناشتہ کرکے سکول جائیں گے۔

اب مجھے صبح سویرے اٹھنا نہیں پڑتا – شہر کی بہترین بیکری سے ناشتے کا سامان گاڑی میں رکھ کر شام کو ہی لے آتا ہوں – فریج اور فریزر میں اللہ کی تمام نعمتیں خوراک کی شکل میں موجود ہوتی ہیں – ہیٹرز وغیرہ کی وجہ سے گھر کا درجہ حرارت بھی 25 ڈگری سے نیچے نہیں آتا – اب کبھی ٹھنڈ میں باہر پیدل نکلنا پڑے تو ڈیزائنر جیکٹس اور پاؤں میں بہترین سپورٹ شوز ہوتے ہیں، گلے میں فیشن کے طور پر گلوبند بھی رکھ لیتا ہوں –

ناشتہ کرکے سکول جاتے جاتے دھوپ نکل چکی ہوتی اور میں سب کچھ بھول بھال کر سکول کی مستیوں میں مگن ہوجاتا۔ سکول سے واپس گھر آ کر اور پھر رات کا کھانا کھانے تک میں سب کچھ بھول چکا ہوتا – پھر عشا کی نماز کے بعد امی کی آواز کان میں پڑتی کہ بیٹا جلدی سو جاؤ، صبح تمہیں سب سے پہلے اٹھنا ہوتا ہے – یہ سنتے ہی مجھے اگلی صبح کی مشقت یاد آجاتی اور ایک مرتبہ پھر پریشانی کا احساس لئے لحاف میں گھس جاتا – اگلی صبح وہی سب کچھ دوبارہ کرنا پڑتا۔

وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا، اللہ تعالی ہر انسان پر اپنا کرم ضرور کرتا ہے، میرا بھی وقت پہلے سا نہیں رہا – اللہ کی مہربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔

اب مجھے صبح سویرے اٹھنا نہیں پڑتا – شہر کی بہترین بیکری سے ناشتے کا سامان گاڑی میں رکھ کر شام کو ہی لے آتا ہوں – فریج اور فریزر میں اللہ کی تمام نعمتیں خوراک کی شکل میں موجود ہوتی ہیں – ہیٹرز وغیرہ کی وجہ سے گھر کا درجہ حرارت بھی 25 ڈگری سے نیچے نہیں آتا – اب کبھی ٹھنڈ میں باہر پیدل نکلنا پڑے تو ڈیزائنر جیکٹس اور پاؤں میں بہترین سپورٹ شوز ہوتے ہیں، گلے میں فیشن کے طور پر گلوبند بھی رکھ لیتا ہوں – اب سردی کے موسم میں کی گئی پیدل والک عذاب نہیں بلکہ لطف دیتی ہے۔

اب اگر ناشتے میں سری پائے نہ ہوں تو ڈبل چیز آملیٹ، بلیک کافی، کروسان، مکھن جام، شامی کباب اور اورنج جوس جیسے لوازمات لازمی ہوتے ہیں۔ اب سب کچھ موجود ہے لیکن پتہ نہیں کیوں، ناشتہ کرتے وقت وہ ایکسائٹمنٹ اور وہ خوشی نہیں ملتی جو ٹوٹے ہوئے سستے انڈے کو پراٹھے پر رکھا دیکھ کر ملتی تھی۔

آج بہترین اور مہنگا ناشتہ کرتے وقت وہ سکون اور اطمینان نہیں ملتا جو بچپن میں یہ سوچ کر ملا کرتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کو میری وجہ سے انڈا پراٹھا کھانے کو مل گیا ورنہ تو چائے کے ساتھ ہی پراٹھا کھا کر سکول جانا پڑتا۔

اللہ تعالی نے خوشی اور سکون جیسے احساسات کو اسی لئے روپے پیسے کے ساتھ منسلک نہیں کیا، ورنہ تو صرف 2 فیصد امیر طبقہ ہی سکون اور اطمینان کی زندگی گزار پاتا۔

اب سردیاں پھر سے آچکی ہیں، دل کرتا ہے کہ مجھے پھر سے کوئی صبح سویرے جگا کر سستے والے انڈے خریدنے کیلئے بازار بھیجے تاکہ کہیں وہ ختم نہ ہوجائیں۔ سستی سی جیکٹ، پاؤں میں پھٹی ہوئی جرابیں اور نیچے قینچی چپل پہنے، دونوں ہاتھ بغلوں میں دبائے میں بھاگا بھاگا جاؤں تاکہ جسم کو کچھ حرارت مل سکے – بھاگنے کے چکر میں پاؤں لڑکھڑائیں، ٹھنڈے پاؤں پر چوٹ لگے اور درد کی شدت سے میں وہیں سڑک پر بیٹھ جاؤں۔

اللہ تعالی نے ہماری زندگیوں کے ساتھ جو دکھ تکلیف منسلک کئے ہیں وہ دراصل ہمارے لئے انعام سے کم نہیں۔ اللہ ہم سے 70 ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے، یہ ہوہی نہیں سکتا کہ وہ ہمیں پریشانی میں دیکھ سکے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں بہت پریشانیاں ہیں تو تھوڑا انتظار کریں – شاید آگے چل کر آپ کو اپنا ماضی یعنی موجودہ وقت بہت مزیدار اور آسودہ لگنے لگے!!!

Exit mobile version