یروشلم کا یہود کے ہاتھوں میں جانے کے بعدمیرا” عالم اسلام“ کا کمزور تصورآج کے دھچکے کے بعد پتہ نہیں کیوں بکھر گیا؟اور نہ معلوم کیوں لکھنے میں وہ چاشنی اور مٹھاس ہی ختم ہو چکی ہے جو کل تک ناقص ہی صحیح پر کہیں تو تھی۔شاید میں مایوس ہوا ہوں !ہاں ….میں مایوس ہوں ،آپ کہہ سکتے ہیں کہ مایوسی بزدلوں اور کمزور انسانوں کی صفت ہے ،آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قنوطیت پسندی بلندعزائم رکھنے والی قوموں کے لئے بہت ہی مہلک ہے۔آپ اسے سو گنا زیادہ بھی کچھ کہنا چاہے تو کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ میں نے اب توبہ کی ہے اس بات سے کہ میں یہ مان کر چلوں کہ کہیں کوئی ”عالم اسلام “ہے۔عالم اسلام سے مراد اگر ڈیڑھ ارب مسلمان ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اگر اسے طارق بن زیاد ،محمد بن قاسم? اور صلاح الدین ایوبی کی امت مرادہے تووہ بہت پہلے مر چکی ہے۔اب ہم میں شاہ سلمان،بشار الاسد،عبدالفتاح سیسی،اشرف غنی،شیخ حسینہ ،نواز شریف اورزرداری ہیں کل کے چہروں کو بھی دیکھ لیجیے اور آج کے ’نامی گرامی‘ بھکاریوں کو بھی دیکھ لیجیے یقیناََ آپ بھی میرے ساتھ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے کارِ خیر میں شامل ہو جائیں گے۔اللہ کرے کہ میری یہ تحریر عالم اسلام کے کسی فتویٰ بازشیدائی کے ہاتھ میں نہ لگ جائے جو یہ کہنا شروع کردے کہ” مایوسی کفر ہے“اور میں نے تحریراََمایوسی کے اقرار کے بعد ”العیاذ باللہ کفر کا ارتکاب “کیا ہے اور وہ مجھ سے تجدید ایمان کا مطالبہ کرنے لگ جائے۔برصغیر میں پروپیگنڈا مشنری سے کچھ بھی بعید نہیں لہذا احتیاطاََ عرض ہے کہ اللہ سے مایوس ہو ناممنوع ہے انسانوں سے نہیں (زمرآیت نمبر:53)۔
مجھے خدشہ ہے کہ ماضی کے ہزاروں احتجاجوں کی طرح ”یروشلم “پرآج کے احتجاج کے بعدعالم اسلام کے لئے یہ سانحہ قصہ پارینہ بنتے ہی بھارت کا ہندو انتہا پسند بابری مسجد پر مندر بنانے کابھی آغاز کر دے گا۔
ملل و امم کے لئے بعض علامات ”موت و حیات“کی حیثیت رکھتی ہیں۔شعائر اللہ ان علامات کو کہتے ہیں جن سے اللہ یاد آتا ہے اور ان کی بے حرمتی گناہِ کبیرہ ہے۔ہماری مذہبی علامات کی جانب سفر کو بھی اللہ تعالیٰ نے عبادت کے دائرے میں داخل کر کے ہمارے اوپر احسان فرمایا ہے۔القدس یایروشلم زمین کے ٹکڑے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے ایمان و اعتقاد کا مرکز ہے۔یہ قبلہ اول ہے۔یہاں قب الصخرہ ہے۔یہی معراج النبی کی پہلی منزل تھی۔یہ انبیاءِ سابقین کا مرکز و مرقد رہا ہے۔ اس سرزمین میں ہزاروں پیغمبر اور اصحاب محمدﷺ کے علاوہ لاکھوں شہدا کا خون جذب ہو چکا ہے جنہوں نے القدس کے احیاءکی قسم کھائی اور انھوں نے قرآن کی زبان میں اپنا وعدہ سچ کر دکھایا (الاحزاب آیت نمبر:23)۔کعب اللہ ، مدینہ نبوی ﷺ اور مسجدِ اقصیٰ ہی ہمارا کل سرمایہ ہے جہاں اول سے آخر تک ہمارے دین و شریعت کی تاریخ وابستہ ہے۔چودہ سو سال میں دورِ نبویﷺ اور ایامِ خلافت کے بعد سے اب تک ہماری حالت ہر نئے روز پہلے سے پتلی بلکہ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہیں۔ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے سے ہی ہمیں فرصت نہیں مل رہی ہے کہ کچھ مثبت سوچتے۔ہمارے سوچنے پر بھی بعض حلقوں نے پہرے بٹھا رکھے ہیں۔ان کے ہاں درست سوچ صرف وہی ہے جو ان کے اپنے میعار کے مطابق درست ہے اور وہ سب گمراہی ہے جو اس سے باہر ہے۔ مسلکی اور تنظیمی تعصب نے ا±مت کا ”میعارِ بلند“تباہ کر کے رکھدیا۔ملوثین اس پر شرمندہ ہونے یا اظہارِ تاسف کرنےکی بجائے اس کے حق میں ”بوسیدہ قسم کے دلائل“ پیش کرتے ہیں۔
القدس سے محرومی سے بہت پہلے جب خلافت ،اسلامی تہذیب و ثقافت ہمارے ہاتھوں سے نکلی تو مفاد پرست طبقے نے نوکِ قلم کو شمشیر جیسی تیزی دیکر اس کے حق میں دلائل پیش کرتے ہو ئے اس کے خلاف لکھنے اور بولنے کو گناہِ عظیم تک قرار دیدیا اور آج اسی جنس کا ایک طبقہ خلافت کے خاتمے پر ہاہا کار مچارہا ہے۔یہ ہمارا ناقابل تصور المیہ ہے کہ ہم نے جو کام آج کرنا ہوتا ہے وہ ہم سو سال بعد شروع کرتے ہیں۔چودہ سو برس میں ہم اجتماعی احتساب کے تصور سے خالی ایک امت کے برعکس ”ماضی کے کارناموں میں گمشدہ “ایک پراگندہ اور رخ سے محروم جماعت بن چکی ہے۔القدس اور مسجدِ اقصیٰ سے محرومی جہاں ایک طرف ہماری بدعملی کی سزا ہے وہی دوسری جانب یہ ہماری اجتماعی غیرت کے لئے چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ہم جس عالم اسلام کو لیکر جینے کے عادی بنا دئے گئے ہیں وہ عالم اسلام ایک زندہ لاش ہے۔باون ممالک کی بھیڑ میں نہ غیرت ہے نہ جرات ! ان ممالک کے پاس بے انتہا وسائل اور قوت ہے۔ان کا عالمی سطح پر اچھا خاصا اثرِ رسوخ بھی ہے۔اگر یہ منتشر اور بے جان ممالک اجتماعی طور اس قوت کو استعمال میں لائیں تو یقیناََ تبدیلی آسکتی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان ممالک پر قابض حکمران ٹولہ انتہائی بد ضمیر ، بے غیرت اور بے حیا ہے۔ بڑے سے بڑا حادثہ بھی انہیں ظلمت سے نکالنے کا سبب نہیں بنتا ہے۔
کچھ نام نہاد اور تنگ نظر دانشور عالم اسلام کا ہر دور میں روشن چہرہ دکھانے کے لئے الفاظ کا سہارا لیکر نوجوان طبقے کو پھر سو برس تک سونے پر مجبور کرتے ہیں اور وہ نئے خوابوں کو آنکھوں میں سجا کر لمبی تان کر سوتے ہیں بعد میں معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل پہلے بھی قلمی ساحروں نے اس کو سچائی تک پہنچنے نہیں دیا تھا۔ نہیں تو ہم پوچھ سکتے ہیں کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے جو ہمارا حشر کیا اس کی کیا تاویل کی جا سکتی ہے اور عالم اسلام کا وہ خود ساختہ ”جن“کیا کبھی حرکت میں آیا ؟ پرانی کہانی دوہرانے کی ضرورت نہیں مگر حال میں برما کے قتلِ عام پر ہمارا عالم اسلام کیا کر سکا ؟حتیٰ کہ روہینگیائی مسلمانوں کا عملاَََ برما سے ہی صفایا ہو گیا۔اگر باون(52)ممالک مل کربھی ہمارے روہینگیائی مسلمانوں کو ”بے اثر برما“ سے نہیں بچا سکتے ہیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر یہ عالم اسلام اور ان کے ادارے کس مرض کی دوا ہیں ؟چلئے برما ،کشمیر اورافغانستان کی بات کو فی الوقت ملتوی کر دیتے ہیں تازہ ترین ”یروشلم“کے حوالے سے ہی ہمارا عالم اسلام کیا کچھ کر سکا ؟عوام نے احتجاج کرنا ہی تھا بے شرم حکمران بھی احتجاج میں شامل ہو کر عوام کی سطح تک آگئے بہ مشکل رجب طیب ایردوغان نے او،آئی ،سی کا اجلاس انقرہ میں بلا کرامریکہ اور اسرائیل کو جاندار پیغام دیدیا جو اتنے بڑے مسئلے کے لئے کافی نہیں ہو سکتا ہے اس لئے کہ اس سے پہلے بھی عالم اسلام کے بعض لیڈروں نے سخت بیانات دیکر بظاہر عوام کے دل تو جیت لئے مگر اس کا اسرائیل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑاہے۔
حد اور المیہ یہ کہ اس اجلاس میں بھی سعودی عرب نے شرکت نا کر کے غلط پیغام دیدیا اوراپنے اسٹینڈسے ان تمام ترقیاس آرائیوں کی تائید کرائی کہ سعودی عربیہ کے نا صرف اسرائیل کے ساتھ اچھے خفیہ مراسم ہیں بلکہ وہ اب آہستہ آہستہ اس قربت میں گرم جوشی کی طرف گامزن ہے۔جس ملک میں حرمین ہے اس ملک کے حکمران اگر ملک کو امریکہ کے مطالبے پر مکمل تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور ان کے نزدیک درست اور ضروری تبدیلی یہی ہے کہ ملک کو ”مغربیت “کی غلاظت میں پھینک کر دشمنوں کے دل جیت لئے جائیں تو انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج سے نوے برس پہلے مصطفیٰ کمال اتا تر ک نے یہی حال ترکی کا کر کے سوائے ذلت کے اپنے کھاتے میں کچھ بھی جمع نہیں کیا تھا؟اور نا ہی سعودی عربیہ ترکی ہے جو اتنی بد بختی کو سہنے کے لئے تیار ہو گااس لئے کہ یہ اخوان المسلمون اور حماس کو دہشت گرد قرار دینے کے برعکس ”حساس امت“کو شرمناک راستوں پر ڈالنے کی حماقت ہو گی۔ جوسرزمین حرمین کی وجہ سے ”مذہبی مرکز“کادرجہ رکھتی ہے اگر وہاں اس قدر ذلتناک تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا ہے تو دوسرے ممالک کا درون خانہ کیا حال ہوگا۔افسوس اس بات کا ہے کہ تمام تر عالم اسلام کو مغربیت کے رنگ میں رنگنے کے سنگین نتائج سے پریشان دنیا آخر سعودی عربیہ کو بھی اسی راستے پر ڈال کر ناکام فارمولے کو دوبارہ آزمانے کے چکر میں کیوں ہے ؟ اور سعودی عربیہ نے یروشلم پر منعقدہ اجلاس میں شرکت نہ کر کے اتنا خوفناک پیغام کیوں دیدیا؟ چاہیے تو یہ تھا کہ خود سعودی عربیہ ہی اس اہم تاریخی نازک موڈ پر اس اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل کرتا۔
عالم اسلام میں جہاں درجنوں بے اثر ممالک شامل ہیں وہی اس میں پاکستان ،ترکی ،ایران اور سعودی عربیہ جیسے اہم ممالک بھی شامل ہیں۔پاکستان کے پاس ایٹم بم ،بہترین بری،بحری اور ائیر فورس ہے۔ایران کے پاس پاکستان جیسی عسکری قوت نہ صحیح مگر قابل فوجی قیادت اور اپنے مقاصد کے لئے قربانی دینے کی بے شمار مثالیں ہیں۔ترکی کے پاس فوجی قوت زیادہ بہترنہ صحیح مگر سفارتی قوت اور اچھی معیشت ضرورہے۔سعودی عربیہ کا مذہبی پس منظر اور مضبوط معیشت کے علاوہ عالمی اثر رسوخ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔عالم اسلام انہی چار ممالک کے زیرِاثر ہے گر چہ بعض استثنا ت بھی ہیں۔بدقسمتی یہی ہے کہ یہ چار ممالک چار متضاد اطراف کی طرف ر±خ کرکے عالم اسلام کو اپنی مرضی کے تابع رکھنے کی بیماری میں مبتلاہیں اور آج کے دور میں ملک تو ملک ایک فرد بھی کسی کی مرضی کے تابع جینے کا قائل نہیں ہے۔ان چاروں کے نزدیک فلسطین اور القدس بلا شبہ اہمیت کا حامل تو ہے مگر ان میں ہر ملک اپنے ایک خاص مذہبی پس منظر اور خاص زاو¿یہ نگاہ سے اس مسئلے کو ہینڈل کرتا ہے جس سے بہت کچھ مراد تو لیا جا سکتا ہے مگر یہ ہرگز نہیں کہ ایران کے شام ،عراق اور یمن ،سعودی عربیہ کے یمن ،ترکی کے کردستان اور پاکستان کی کشمیر پالیسی پر القدس کو اولیت یافوقیت حاصل ہے۔ہر صاحب ایمان مسلمان کے نزدیک ”القدس“کو اولیت ہونی چاہیے مگر ستر برس کی عالم اسلام کے حکمرانوں کی منافقت اور حماقت سے یہ مسئلہ اس حد تک پس منظر میں چلا گیا کہ امریکہ نے یروشلم کو باضابط اسرائیل کے دار الخلافہ کی حیثیت سے قبول کرتے ہو ئے دوسرے کمزور ممالک کے لئے ایک مجبوری کھڑا کرکے عالمی رائے عامہ کو منقسم کردیا ہے جس پر اب یہودی ساہو کار آہستہ آہستہ اور غیر محسوس انداز میں کام کرتے ہو ئے آج ہی کے فیصلے کی طرح کبھی اور کسی وقت دنیا کر حیران کر دینے والی وہ المناک خبر بھی سنوا دیں گے کہ دراصل یہاں مسجد اقصیٰ نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی ہے جس پر مسلمانوں نے بالجبر مسجد اقصیٰ بنوادی ہے اس کی سب سے بڑی مثال ”بابری مسجد“کی شہادت قرار دی جا سکتی ہے جس کی شہادت پر عالم اسلام نے آج ہی کی طرح زبانی احتجاج تو ضرور کیا مگر اس زبانی کلامی ردعمل کا کوئی اثر ہندوستانی برہمنوں پر نہیں پڑا ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ ماضی کے ہزاروں احتجاجوں کی طرح ”یروشلم “پرآج کے احتجاج کے بعدعالم اسلام کے لئے یہ سانحہ قصہ پارینہ بنتے ہی بھارت کا ہندو انتہا پسند بابری مسجد پر مندر بنانے کابھی آغاز کر دے گا۔
ان واقعات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ جس عالم اسلام کو ہم عمومی طور پر اپنا پشتیبان سمجھتے ہیں وہ دورِ حاضر کا بہت بڑا جھوٹ ہے۔
خیر یہ تو ہوئی اس یروشلم کی بات جس سے متعلق میرا یہ ایمان تھا کہ اگر امریکہ نے اس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کی حرکت کی تو قیامت برپا ہو گی مگر افسوس ہوا کچھ بھی نہیں ہواسوائے ماضی کے احتجاجوں کی طرح ایک احتجاج کے! کیا مسجدِ اقصیٰ کا ہمارے حکمرانوں سے رشتہ اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ امریکہ کے ظالم اور جارح صدر نے ان کے جیتے جی اس کو ہنستے مسکراتے ہو ئے اسرائیل کے حوالے کردیا۔آج یہ ثابت ہو گیا کہ عالم اسلام کی غیرت و حمیت مرچکی ہے اور اس کا بہت پہلے جنازہ نکل چکا ہے بالخصوص عالم عربی کا جنہیں یروشلم اور فلسطین کے ساتھ ہمارے مقابلے میں سینکڑوں مستحکم رشتے قائم ہیں۔فلسطین عرب ہیں ،ان کی زبان عربی ہے ،ان کی تہذیب و ثقافت عربی اوراسلامی ہے ا ن کے عالم عربی کے ساتھ سینکڑوں برسوں پر محیط تاریخ وابستہ ہے۔جب عالم عربی یروشلم کے لئے بالخصوص اور فلسطین کے لئے بالعموم کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو ایک دور درازعجمی کشمیر ی مسلمان کے لئے وہ کیا کریں گے ؟ سچائی یہی ہے کہ عالم عربی کو ہمارا اور ہماری تحریک کا سرسری تعارف بھی حاصل نہیں ہے چہ جائیکہ وہ بھارت کے مقابلے میں ہمارے موقف کا ادراک کرتے ہو ئے ہماری تائید کریں۔ایسا نا ہوتا تو متحدہ عرب امارات نرنیدر مودی کو خوش کرنے کے لئے سینکڑوں کنال زمین مندر کی تعمیر کے لئے فراہم نہ کرتا نا ہی سعودی عربیہ اس کو ”اعلیٰ ترین سیول ایوارڈ“سے نوازتا ! ان واقعات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ جس عالم اسلام کو ہم عمومی طور پر اپنا پشتیبان سمجھتے ہیں وہ دورِ حاضر کا بہت بڑا جھوٹ ہے۔وہ جب حساس ترین مذہبی مسئلے پر فلسطین کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا ہے تو اسے سینکڑوں گنا کمزور پوزیشن کے مسئلے پر کشمیریوں کے ساتھ کیوں کھڑا ہو جائے گا جبکہ اس کے لئے بھارت کی بڑی وسیع تجارتی منڈی دیکھ کر ہی منہ کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔وہ نریندر مودی کے ماضی کو بھول کر صرف مادی اور تجارتی مفادات کے لئے جب اس حد تک جا سکتا ہے تو پھر کشمیری محدود اور چھوٹی قوم کے لئے وہ کیوں تڑپیں گے اور کیوں ان کی آزادی کے لئے نام نہاد جمہوری ملک کے بے تاج بادشاہ کو ناراض کر دیں گے ؟
مسئلہ یروشلم پر نئی المناک پیش رفت کو ذہن میں رکھتے ہو ئے ہماری لیڈر شپ کو چاہیے کہ وہ ”جذبات سے اوپر اٹھ کر“اپنی پوزیشن کا ادراک کرتے ہو ئے عالمی سطح پر کمزورسفارتی حمایت کا بھر پور تجزیہ کرے۔اپنے محدود وسائل ،کمزور قوم ،اقوام عالم کے مالی مفادات کی ترجیحات اور خود غرضیوں کو ذہن میں رکھتے ہو ئے حکمت عملی ترتیب دے دیں اور یہ مان کر چلے کہ خود غرض دنیا میں ہمارے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔نا ہی عالمی عربی اس کے سوا کچھ کر پائے گا کہ جب بھی او ،آئی ،سی کا اجلاس ہوگا تووہ پاکستان کی شدید خواہش کے احترام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کرے گا بس۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ وہ کشمیری مسلمانوں کے لئے بھارت کے ساتھ سفارتی یا تجارتی تعلقات منقطع کر دے گا۔نا ہی وہ بھارت کے خلاف عالمی سطح پر ایسا ماحول تیار کریں گے یا تیار کرنے میں معاونت دیں گے جس سے بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔عالم عربی اور اسلامی کا دل لبھانے کے لئے اس کے پاس جہاں دنیا کی بہت بڑی تجارتی منڈی موجود ہے وہی اس کے پاس ”غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور مسلمانانِ ہند کی بیس کروڑ آبادی کاکارڈ “جیب میں موجود ہے جس کوبھارت جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی حالات کے ساتھ ساتھ علاقائی حالات کابھی بروقت درست تجزیہ کرے اس لئے کہ خوابوں میں غلطاں رہنا قیادت کا نہیں عوام کا کام ہوتا ہے۔
قیادت لمحہ بہ لمحہ بدلتے عالمی اور مقامی حالات پر گہری نظر رکھتی ہے تاکہ قوم کی منزل نزدیک ہونے کے برعکس بعید تر نا ہو۔ہم نے جو بھی کرنا ہے وہ مقامی طور پر ہی کرنا ہوگا۔اگر باہر سے کوئی مدد کرتا ہے تو فبھا نہیں تو جب ہمارا ذہن و ضمیر دوسروں پر تکیہ کرنے کے برعکس صرف اپنے اوپر بھروسہ کرنے کا عادی اور خوگر ہوگا تو ہم مسئلہ کشمیر سے جڑے لاکھوں جانوں کی قربانی اور مستقبل میں ان کے ایثار اور پھر اس کی حساسیت سے ہمیشہ تڑپتے رہیں گے اس لئے کہ موجودہ حالات میں ہم جیسی چھوٹی قوم کا وسیع جانی قربانیاں دیتے رہنا ہمارے مستقبل پر بوجھ بنتی جا رہے ہیں۔جہاں خودسپردگی کے برعکس استقامت ،جذباتیت کے برعکس حکمت اورکم سے کم مالی و جانی نقصان ہماری باٹم لائین ہونی چاہیے وہی عالمی حالات پر گہری نگاہ کے ساتھ ساتھ سقوط ڈھاکہ ،بابری مسجد کی شہادت ،برما میں روہینگیائی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی ،اخوان المسلمون جیسی خالص مذہبی اور سیاسی تحریک کو جڑ سے اکھاڑنے کی عالمی عربی کی مسلسل کوششیں اورشام ،عراق اور یمن میں آپسی قابل نفرت کشت و خون ،اسرائیل،امریکہ اور بھارت کے اتحادِ ثلاثہ اور ان کے ساتھ عالم عربی کے مستحکم تعلقات اور رشتے اور سب سے بڑھ کر سقوطِ یروشلم جیسے المیے کے قابل برداشت تصورات ذہن میں ہر وقت استحضار رکھنا قیادت کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں قوم کے سامنے اس ٹمٹماتے چراغ کو روشن رکھ سکیں جو عرصہ دراز سے اس کے معصومین کے خون سے منورہے۔