چوٹیوں پرنہیں عصمتوں پر حملہ ہے!

آسیہ محمد ،بڈگام

یوں تو ریاستِ جموں کشمیر،با الخصوص وادی،اور مصائب و آلام کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن خواتین کی جبری زُلف تراشی کا جو تازہ سلسلہ جاری ہے وہ خوفناک بھی ہے اور حیران کُن بھی۔ا قریب ڈیڑھ مہینہ گذرا ہے کہ جب سے یہ پُراسرار سلسلہ ایک معمہ بنے ہوئے ہے۔چناچہ ابھی تک اس جُرم کا کوئی واضح مقصد بیان ہوا ہے اور نہ ہی مجرموں کا سُراغ مل سکا ہے جسکی وجہ سے ظاہر ہے کہ خوف و حراس میں ہر آن اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔

جنوبی کشمیر کے کوکرناگ علاقہ سے شروع ہونے والا بال کاٹے جانے کا خوفناک سلسلہ رُکنے کی بجائے بڑھتا اور پھیلتا ہی چلا جارہا ہے اور ابھی تک ایک سو سے زیادہ خواتین کا شکار بنایا جاچکا ہے۔حالانکہ اس پورے معاملے پر ابہام کے بادل چھائے ہوئے ہیں لیکن جو کچھ ابھی تک معلوم ہوسکا ہے اسکے مطابق نا معلوم نقاب پوش افراد گھروں میں گھس کر خواتین پر کوئی سپرے کرکے اُنہیں بے ہوش کردیتے ہیں اور پھر اُنکے بال کاٹ کر چلے جاتے ہیں۔حال یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ ساتھ اب مرد بھی خوفزدہ محسوس کررہے ہیں جبکہ خواتین نے دھیرے دھیرے خود کو گھروں میں بند کرنا شروع کردیا ہے۔اب جب رات کے اندھیرے میں ہی نہیں بلکہ دن کے اُجالے میں بھی یہ چوہے بلی کا کھیل جاری ہوتو صنفِ نازک کا خوفزدہ ہوکے گھر سے باہر آنے میں ڈرنا کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر خواتین باالخصوص لڑکیوں نے گھروں سے باہر آنا تقریباََ بند کردیا ہے اور کئی لڑکیاں، اس ڈر سے کہ کہیں اُنہیں بھی نا معلوم اور پُراسرار مجرموں کا شکار نہ بننا پڑے،کالج جانے سے بھی کترانے لگی ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ لوگوں نے ایکدوسرے کے یہاں آنا بند کردیا ہے،بھکاریوں تک کو گھومنے میں ڈر لگتا ہے اور افواہ بازی کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک کئی لوگوں کو مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی محض شک کی بنیاد پر عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ،جو خود بھی ایک خاتون ہیں ،نے پہلے ایک عرصہ لب کُشائی تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور پھر لب کھولے بھی تو سوالات سے بچنے اور ذمہ داری سے پلو جھاڑنے کیلئے یہ غیر ذمہ دارانہ بیان دیا کہ مئے تراشی کا شکار ہونے کی شکایت کرنے والی خواتین ذہنی مسائل سے دوچار ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر یوں اچانک ہی پوری وادی کی خواتین پر کونسا جادو ہوا ہے کہ جو وہ اجتماعی طور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر جھوٹ بولنے لگیں اور ایک ہی کہانی دہرانے لگیں۔

حالانکہ کسی بھی سماج میں کسی جُرم کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ آج کی دُنیا میں کسی سماج کو کتنا بھی مہذب کیوں نہ کہا جاتا ہو وہاں جرائم تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور پھر جہاں تک خواتین کا سوال ہے وہ آج کے دورِ ظُلمات میں سب سے زیادہ شکار بنتی آرہی ہیں۔ البتہ جو چیز عجیب ہے وہ یہ کہ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گذرجانے کے باوجود بھی پولس اور دیگر سرکاری ادارے یہ پتہ کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ مئے تراشی کے اس قصے کا منصوبہ ساز کون ہے،اُنکا مقصد کیا ہے اور وہ جرائم کا ارتکاب کرکے کس طرح اور کہاں تحلیل ہوجاتے ہیں۔

سکاری اداروں کے حوالے سے حد یہ ہے کہ مجرموں کو دبوچ کر اس سارے کھیل کو بند کرانے میں دلچسپی لینا تو دور بلکہ اُنہوں نے اُلٹا خوفزدہ خواتین پر ہی یہ کہکر الزام لگانے کی کوشش کی ہے کہ بیشتر متاثرہ خواتین نفسیاتی امراض کی شکار ہیںجو کہ بدقسمتی کی بات ہے۔

اور تو اور ریاستی وزیرِ اعلیٰ،جو خود بھی ایک خاتون ہیں ،نے پہلے ایک عرصہ لب کُشائی تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور پھر لب کھولے بھی تو سوالات سے بچنے اور ذمہ داری سے پلو جھاڑنے کیلئے یہ غیر ذمہ دارانہ بیان دیا کہ مئے تراشی کا شکار ہونے کی شکایت کرنے والی خواتین ذہنی مسائل سے دوچار ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر یوں اچانک ہی پوری وادی کی خواتین پر کونسا جادو ہوا ہے کہ جو وہ اجتماعی طور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر جھوٹ بولنے لگیں اور ایک ہی کہانی دہرانے لگیں۔اور پھر اُن خواتین کا کیا کہ جنکی خوبصورت چوٹیاں اُنکے قدموں میں ڈالی جاچکی ہیں اور جنہیں دُنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ چکی ہے۔اس طرح کی کہانیاں گھڑنے والوں کو کچھ تو شرم کرنی چاہیئے تھی اور اُنہیں پہلے ہی سے خوفزدہ اور ٹوٹی ہوئی خواتین کے بارے میں ایسی بے تُکی باتیں کرکے اُنکی تذلیل کرنے سے قبل کئی بار سوچنا چاہیئے تھا….!

یہ متاثرہ خواتین کسی نفسیاتی مرض کا شکار نہیں ہیں لیکن ہاں اگر یہ پُراسرار سلسلہ اور پھر سرکاری اداروں کی تذلیل آمیز اور من گھڑت کہانیاں بند نہ ہوئیں اور مجرموں کو دبوچ کر اُنہیں کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا گیا تو پھر متاثرین ہی نہیں بلکہ مجموعی طور ساری کشمیری خواتین کو ایک نفسیاتی دھچکہ لگ سکتا ہے۔

قدرت نے مرد اور خواتین کو الگ الگ شکل و صورت اور چال ڈھال کے ساتھ بناکر ان میں کئی خاص چیزوں سے زینت ڈال دی ہے۔خواتین کیلئے بالوں کی اسی حوالے سے اہمیت ہے اور یہ اُنکی شان کا سامان ہے جبکہ ہمارے سماج میں خواتین کے بال کاٹنے کا مطلب اُنکی بے عزتی اور تذلیل ہے۔ظاہر ہے کہ خواتین کے جب جبری طور اور انتہائی خوفناک انداز میں بال کاٹے جائیں تو یہ اُنکی تذلیل ہے۔لیکن اس سے بڑے بات یہ ہے کہ یہ مسلمان خواتین کے حیاءکا معاملہ ہے،یعنی نا معلوم مئے تاش صرف ہم خواتین کے بالوں پر ہی حملہ آور نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایسا کر کے وہ دراصل ہماری عزت کو مجروح کررہے ہیں جوکہ کسی بھی غیرت مند کے لئے قطعاََ قابلِ برداشت نہیں ہوسکتا ہے۔

دُنیا میں کسی بھی چیز کو دوام حاصل نہیں ہے اور نہ ہی غم یا خوشی کی کوئی صورتحال زیادہ دیر تک باقی رہتی ہے۔پھر کشمیر میں ہم نے ایک خاص سیاسی ماحول کے دوران میں بہت کچھ ہوتے دیکھا ہے لہٰذا یہ نئی چیز بھی پُرانی ہوکر ٹل ہی جائے گی۔البتہ ضرورت یہ ہے کہ ہماری خواتین ان جیسی چیزوں سے سبق حاصل کریں اور اپنی عزت و عصمت کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اسکی حفاظت کرنا سیکھ جائیں۔مسلمان عورت کی عزت کو اسلام میں نہایت ہی اعلیٰ اور ارفع بتایا گیا ہے اور تاریخِ اسلام میں مسلمان خواتین کی عزت و ناموس کے لئے مسلمانوں کے مر مٹنے کا ثبوت ہے۔ہمیں بے حیائی کے مقابلے میں شرم و حیاءکی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور فقط بال کاٹنے والوں کے ڈر سے ہی نہیں بلکہ اللہ واحدالقہار کے ڈر سے وہ صورت اور وضع قطع اختیار کرنا چاہیئے کہ جس میں ہماری حفاظت اور فلاح ہے….!

 

Exit mobile version