گزشتہ دنوں دبئی میں ہونے والی کشمیر کانفرنس ایک اہم موضوع بن چکی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے اخبارات میں بھی کانفرنس کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کو بیان کیاگیا ہے۔میں نے اپنے دو کالموں میں دبئی کانفرنس اور اس کی غرض و غائیت کے بارے میں لکھا ۔دبئی کانفرنس کے بارے میں جاری بحث میں اس وقت شدت اور حدت آ گئی جب سینئر آزادی پسند رہنما، حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے ایک خصوصی انٹرویو میں اس سوال کہ ” دبئی میں ہونے والی کشمیر کانفرنس میں عسکریت کے خاتمے کی تجاویز آئی ہیں،کانفرنس میں تحریک سے منسلک لوگ بھی شامل تھے۔ اس پر کیا کہیں گے؟” کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ” دبئی میں ہونے والی کانفرنس میں جو لوگ تھے وہ پے رول پر کام کر رہے ہیں اور ایسی کانفرنسیں فضول مشق اور پیسے بٹورنے کی مشق کے سوا کچھ نہیں ہے۔مجھے ان لوگوں پر شدید افسوس ہے کہ جو تحریکی حلقوں میں رہے ہیں لیکن پوری مجلس میں مذمت کے دو بول بھی نہ بول سکے۔ ہم تنگ نظر ہیں نہ ہی بندوق کا شوق ہے لیکن کشمیر کی آزادی کیلئے آخری حد تک جا سکتے ہیں۔ جب یہ کانفرنس ہو رہی تھی کشمیر میں قیامت ٹوٹ رہی تھی ۔وادی میں کئی جنازے بیک وقت اٹھ رہے تھے اور اسی دوران یہ لوگ تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے تھے۔ ہم مذاکرات کے خلاف نہیں اور نہ ہی تحریک کو طول دینے کا سوچ سکتے ہیں لیکن جب ہماری نوجوان نسل کو تہ تیغ کیا جا رہا ہو تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں میرا دل افسردہ ہے اور انتہائی افسوس ہے کہ دبئی میں ہونے والی کانفرنس میں شریک لوگوں کے ہونٹ کس نے سی رکھے تھے۔ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ انکو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ تحریک کے خلاف قرار دادیں یا اعلامیے جاری کریں۔ایک طرف بھارتی حکومت کشمیری قیادت کو ختم کرنے کے در پے ہے ۔ سید علی گیلانی ایک عرصہ سے نظر بند، مسرت عالم پابند سلاسل ، آسیہ اندرابی دمہ کی مریض ہوتے ہوئے قید، شبیر شاہ گندے نالے کے کنارے عقوبت خانے میں بند رکھا ہے یہ صورتحال تشویش ناک ہے دوسری طرف ایسی کانفرنسیں تحریک کے خلاف سازش ہیں ”۔
پھر کہتا ہوں کہ اگر کانفرنس کے حوالے سے ایک جملے کی بجائے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کے مطالبہ کے چند الفاظ ہی شامل کرا لئے جاتے تو اس تاثر کا ”کائونٹر ” ہو سکتا تھا جو بھارت کی طرف سے کشمیریوں اور ان کی جدوجہد کو ناکام بنانے کے طور پر کار فرما ہے۔
اس سے پہلے کانفرنس میں شریک نئی دہلی میں کام کرنے والے کشمیری صحافی افتخار گیلانی نے اپنے ایک کالم میں اس کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ ” متذکرہ کانفر نس میں حکمران پی ڈی پی کے علاوہ جموں و کشمیر کے لائن آف کنٹرول کے اطراف دونوں خطوں کی سبھی سیاسی پارٹیوں نیز حریت کی نمائندگی بھی مو جو د تھی ۔ علاوہ ازیں انتہائی نامساعد حالات میں انسا نی حقو ق کے لئے کا م اور ڈاکومنٹ کرنے والے اہم نام بھی موجود تھے”۔افتخار گیلانی مزید لکھتے ہیں کہ ”جب میں نے چند برس قبل کنسلیشن ریسورسز کے کام کا جائزہ لیا، تو معلوم ہو ا، کہ یہ واحد ایسا ٹریک ٹو ہے، جس کی کمان دہلی اور اسلام آباد کے کسی روشن خیال دانشور کی بجائے کشمیری افراد پر مشتمل کشمیر انیشیٹو گروپ کے سپرد ہے۔ تو ظاہرہے، جب کشمیری اپنی حالت زار خود بتانا شروع کرے تو اس میں مبالغہ اور ایجنڈہ کی گنجائش کم ہی رہتی ہے”۔
دبئی کانفرنس کو کشمیر کاز کے منافی قرار دینے اور کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کی ساکھ سے متعلق سید صلاح الدین کے سخت بیان کے بعد دوبئی کشمیر کانفرنس کے آزاد کشمیر سے شامل شرکاء نے ایک مشترکہ بیان میں میڈیا میں شائع ان خبروں کی تردید کی جن میں شرکاء کی طرف سے بھارتی موقف قبول کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اسلام آباد سے جاری مشترکہ بیان میں شاہ غلام قاد،چودھری لطیف اکبر، سردار صغیر چغتائی عبدالرشید ترابی اورآزاد کشمیر میں(میر واعظ گروپ) کے کنونیئر فیض احمد نقشبندی ، سردار امجد یوسف ایگزیکٹو ڈائریکٹر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اورارشاد محمود کنونیئر کشمیر انیشیٹیو گروپ نے کہا کہ دوبئی کانفرنس کے مندوبین نے مسئلہ کشمیر کو ایک سیاسی اور حل طلب تنازعہ قراردیا ہے ۔ شرکاءِ کانفرنس کی رائے تھی کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔شرکاءِ کانفرنس نے متفقہ طور پر کنٹرول لائن پرجنگ بندی کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا تاکہ کشمیریوں کے مصائب کو کم کیا جاسکے۔بیان میں دبئی کانفرنس پر تنقید کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ کشمیر پر ہونے والی کانفرنسوں اور مکالمے کے پُرزور حامی ہیں اوروہ کشمیریوں کے مابین ہونے والے ہر سطح کے مکالمے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح کی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے انہیں کسی کے اجازت نامہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ کسی سے حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ کے طلب گار ہیں۔خاص طور پر جو عناصر یہاں اور بیرون ملک بیٹھ کر کشمیر کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ کشمیریوں میں نفاق کے بیج بورہے ہیں جن کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔
آزاد کشمیر سے اس مشترکہ بیان کے ایک دن بعد سید علی شاہ گیلانی کی سربراہی میں قائم حریت کانفرنس نے دبئی کانفرنس کے بارے میں تحقیقات کرنے کا اعلان کیا۔سید علی شاہ گیلانی کی سربراہی میں منعقدہ حریت کانفرنس کی ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس میں اس معاملے پر خاص طور پر بات ہوئی۔حریت کانفرنس (گیلانی) کے سیکرٹری جنرل غلام بنی سمجی نے بتایا کہ ” ہم نے کشمیر کے دونوں طرف اپنے لوگوں سے پوچھا ہے کہ دبئی کانفرنس میں شرکت کی اجازت کس نے دی ہے”۔انہوں نے کہا کہ ” ہم نے کسی کو دبئی کانفرنس میں نہیں بھیجا ”۔ غلام بنی سمجی نے کہا کہ عبدالرشید ترابی ہمارے ممبر نہیں ہیں،وہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔وہ حریت کانفرنس کی ڈومین میں نہیں آتے،لیکن ہم نے پوچھا ہے کہ یہ سب کس طرح ہوا ہے۔سرینگر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ” کشمیر ریڈر” نے اپنی خبر میں حریت کانفرنس (گیلانی) کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اس معاملے پر حریت کانفرنس کی ایگزیکٹیو باڈی کے اجلاس میں بات کی گئی ہے جو سید علی شاہ گیلانی کی صدارت میں بدھ کو منعقد ہوا۔ایک سنیئر حریت رہنما نے اجلاس میں کانفرنس کے بارے میں سوال اٹھایا۔” کشمیر ریڈر” نے حریت کانفرنس کے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ” کانفرنس میں نیشنل کانفرنس،کانگریس اور انڈیا سے لوگوں نے شرکت کی ہے،ہم حقائق کے بارے میں چیکنگ کر رہے ہیں کہ کانفرنس کا اہتمام کیسے کیا گیا اور کس نے( حریت کانفرنس کے فردکو) کانفرنس میں شرکت کی منظوری دی”۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے کانفرنس کو فضول مشق قرار دیا اور شرکاء کو ”پے رول پہ کام کرنے والا” قرار دیا ہے۔ روزنامہ” کشمیر ریڈر” نے دبئی کانفرنس کے خلاف ایک سخت ایڈیٹوریل لکھا۔
یقینا سید صلاح الدین کے بیان اور سید علی شاہ گیلانی کی طرف سے تحقیقات کے اعلان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت سے آزادی کی جدوجہد ،مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے حامی تمام کشمیری حلقوں کی طرف سے اس کانفرنس کو غیر موزوں اور ضرر رساں قرار دیا جا رہا ہے۔
اس تمام صورتحال کے بعد ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کون سے ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے تحریک آزاد ی کشمیر کے سینئر رہنما،حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے کانفرنس کو فضول مشق اور شرکاء کو پے رول پہ کام کرنے والا قرار دیا اور سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں قائم اتحاد نے حریت کانفرنس میرواعظ گروپ کے آزاد کشمیر /پاکستان میں متعین نمائندے کی شرکت پر سوال اٹھایا ہے کہ اس نے کس کی اجازت سے اس کانفرنس میں شرکت کی ہے۔افتخار گیلانی نے کانفرنس سے متعلق اپنے کالم میں نام لئے بغیر فیض نقشبندی اور خرم پرویز کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شرکت کے حوالے سے کانفرنس کو معتبر قرار دینے اور ”کشمیر انشیٹیو گروپ” کو کشمیری کہتے ہوئے کانفرنس کو قبولیت کا مقام دینے کی کوشش کی ہے ۔کشمیری تو محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بھی ہیں ۔مناسب تو یہ تھا کہ افتخار گیلانی صاحب اس گروپ میں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سے شامل افراد کا تعارف کراتے تا کہ یہ دیکھا جاسکتا کہ کن شخصیات کے کس کردار اور حدود اربع کے حوالے سے اسے شرف قبولیت عطا کئے جانے کی سفارش کی جار ہی ہے۔آزاد کشمیر کے شرکاء کے مشترکہ بیان میں راولا کوٹ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ارشاد محمود کو ” کشمیر انشیٹیو گروپ ” کا کنونیئر بتایا گیا ہے تاہم مقبوضہ کشمیرسے اس میں کون کو ن شامل ہے،اب بھی ایک صیغہ راز ہے۔یوں مخصوص مکتبہ فکرمیں محدود ہونا اس گروپ کی ساکھ پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔تحریک آزادی کشمیر کے تمام حلقوں کی طرف سے اس کانفرنس پر عدم اعتماد کے اظہارکے تناظر میں ” کشمیر انیشیٹیو گروپ” کے آزاد کشمیر کے کنونیئر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کیسے کشمیریوں نے دبئی کانفرنس کو مسترد کیا ہے؟یقینا سید صلاح الدین کے بیان اور سید علی شاہ گیلانی کی طرف سے تحقیقات کے اعلان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت سے آزادی کی جدوجہد ،مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے حامی تمام کشمیری حلقوں کی طرف سے اس کانفرنس کو غیر موزوں اور ضرر رساں قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ کشمیر کے مصدقہ معتبر ذرائع کا کھل کراعتراضات اٹھانا کانفرنس کی ساکھ اور اس مشق کے کشمیر کاز کے حوالے سے غیر موافق ہونے پر مہر ثبت کرتا ہے۔
دبئی کانفرنس اس حوالے سے بھی اپنی نوعیت کی ایک منفرد کانفرنس تھی کہ اس میں بھارتی مقبوضہ کشمیراسمبلی میں شامل چار سیاسی جماعتوں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی،بھارتیہ جنتا پارٹی،نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ارکان اسمبلی اور آزاد کشمیر کی چار نمایاں سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی ،مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی شریک ہوئے۔یوں یہ پہلا موقع ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر اسمبلی اور آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان اسمبلی نے کانفرنس میں شرکت کی۔اس طرح یہ تاثر قوی طور پر سامنے آ یا ہے کہ منقسم کشمیر کے کون سے نمائندوں کو دنیا کے سامنے کشمیر کے دونوں حصوں کے نمائندوں کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ان کی طرف سے اتفاق کردہ سفارشات پاکستان ،بھارت اور دنیا کے اہم ملکوں،اداروں کو ارسال کرنے سے دنیا کو یہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ یہ کشمیر کے دونوں حصوں کے منتخب عوامی نمائندوں کی منظور کردہ سفارشات ہیں۔یعنی حریت پسند کشمیریوں کی نمائندگی کی نفی کرتے ہوئے اسے غیر ضروری قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ساتھ ہی میر واعظ گروپ کے آزاد کشمیر میں متعین نمائندے کو شریک کر کے حریت کانفرنس کے موجود اتحاد کو بھی انتشار میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر سے شریک ایک شخصیت کا کہنا ہے کہ میر واعظ گروپ کے نمائندے کو اس لئے شریک کیا گیا کہ وہ ”ماڈریٹ” ہے جبکہ گیلانی گروپ سخت گیر ہے۔اس کانفرنس میں آزاد کشمیر کے منتخب نمائندوں ،جسے آزاد کشمیر کی بھرپو رنمائندگی کہا جا سکتا ہے ،سے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے نمائندوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کے کردار کو برتر طور پر تسلیم بھی کرایا گیا ہے۔اپنی صفائی پر مبنی آزاد کشمیر کے شرکاء کے مشترکہ بیان میں خاص طور پر کہا گیا کہ”شرکا ء کانفرنس نے متفقہ طور پر کنٹرول لائن پرجنگ بندی کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا تاکہ کشمیریوں کے مصائب کو کم کیا جاسکے”۔یعنی شرکاء کے نزدیک مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی ہلاکتوں اور ان کے خلاف انسانیت سوز مظالم سے زیادہ کشمیر کو جبری طور پر تقسیم کرنے والی لائین آف کنٹرول پر پاکستان اور ہندوستان کی فوجوں کے درمیان فائرنگ بند کرا نا زیادہ اہم معاملہ ہے اور صرف یہی معاملہ کشمیریوں کے مصائب کا موجب ہے۔حقیقت میں کشمیریوں کے خلاف بھارت کی فوج کشی کی صورتحال میں پاکستانی فوج کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرے۔عالمی برادری کشمیریوں کے خلاف بدترین مظالم پر اپنی اتنی تشویش ظاہر نہیں کرتی جتنا لائین آف کنٹرول پر فائرنگ پر عالمی تشویش ظاہر کی جاتی ہے۔یعنی بھارتی فوج کو لائین آف کنٹرول کی فکر سے آزاد کرایا جا ئے تاکہ بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو کچلنے میں سہولت حاصل ہو سکے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاسی نمائندگی کو مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔آزاد کشمیر کے سیاسی رہنمائوں نے کانفرنس میں شرکت کی ہے،کانفرنس اور کانفرنس والوں سے نکاح نہیں پڑھا ہے کہ بغیر طلاق ان کے لئے ان کے ایجنڈے سے ہٹنا ناممکن یا بہت مشکل کام ہو۔مقبوضہ کشمیر کی تمام بھارت نواز سیاسی جماعتوں اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے”سروں کو آپس میں ہم آہنگ ” کرنے کی اس مشق نے حریت پسند کشمیریوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔آزاد کشمیر جماعت اسلامی کے سابق امیر عبدالرشید ترابی صاحب کی طرف سے یہ کہنے کہ ان پر بھروسہ رکھا جائے،سے مجھے یاد آیا کہ آزاد کشمیر حکومت کی سرپرستی میں کشمیر کاز کے لئے قائم آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی ” کل جماعتی رابطہ کونسل” جس میں حریت کانفرنس آزادکشمیر کے نمائندے بھی شریک ہیں،کا ایک اجلاس عرصہ بعد گزشتہ سال اسلام آباد میں منعقد ہوا۔عبدالرشید ترابی صاحب کی سربراہی میں قائم اس رابطہ کونسل کا اجلاس تقریبا ساڑھے پانچ گھنٹے مسلسل جاری رہا اور اس میں کشمیر سے متعلق ہر شخصیت کو مدعو کیا گیا تھا۔اس طویل اجلاس میں شرکاء سے تفصیلی طور پر کشمیر کاز کو تقویت پہنچانے کے لئے تجاویز لی گئیں اور وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے اعلان کیا کہ اس اجلاس کی تجاویز کے مطابق رابطہ کونسل کا ایک ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا جو مختلف شعبوں سے متعلق کشمیر کاز کو تقویت پہنچانے کے اقدامات کی سفارشات تیار کرے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔البتہ اس اجلاس کے بعد رابطہ کونسل کے سربراہ نے برطانیہ کا دورہ کیا۔اور شاید اسی سے ”حق ادا ہو گیا” اور ذمہ داری پوری ہو گئی۔
دبئی کانفرنس کی بعض سفارشات کے حوالے سے کشمیری حلقوں کی طرف سے تنقید سے ایک پہلو یہ بھی سامنے آیاہے کہ کشمیر کے نام پر نمائندگی کرنے والوں کے میرٹ اور ان کی سرگرمیوں کو کشمیری مانیٹر کر رہے ہیں اور ان کے مختلف پلیٹ فارمز پہ دیئے جانے والے بیانات اور مختلف پلٹ فارمز پہ ان کے اتفا ق کردہ نکات کا باریک بینی سے جائزہ بھی لیا جا رہا ہے
کشمیری جنونی نہیں ہیں،وہ مرنے مارنے پر یقین نہیں رکھتے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر سر جھکا لیں گے۔اگر آپ بلی کو کمرے میں بند کر کے اسے تنگ کرنا شروع کریں گے تو پہلے چھپنے کی کوشش کرنے والی بلی تنگ کرنے والے کی آنکھیں نوچ لیتی ہے۔کشمیریوں کے”ڈے بائی ڈے” مسائل میں کمی کے نام پر کشمیریوں کو کمزور پوزیشن میں تصور کرتے ہوئے بھارتی شرائط کی بالواسطہ قبولیت کی باتیں وہی کر سکتا ہے جو کشمیریوں،ان کی نسل در نسل جدوجہد اور ان کی تحریک سے لاعلم ہو یا اس کا مخالف ہو۔مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے مطالبہ آزادی اور بھارتی مظالم کی المناک صورتحال کا ذکر غائب کر کے دیگر امور کو نمایاں کرنے کو کس طرح کشمیر کاز کا مفاد قرار دیا جا سکتا ہے؟کشمیری اپنی جدوجہد ،اپنی تحریک سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ کشمیریوں کی جدوجہد اور ان کی تحریک سے لاعلم یا مخالف، مشرف کی طرح کشمیریوں کومرنے سے بچانے کے نام پر انہیں بھارت کی غلامی میں مزید جکڑنے کے انتظامات میں ممود و معاون بننا کون سی کشمیر یوں سے ہمدردی ہے؟2001ء میں بھی اس طرح کے آوازے سننے میں آتے تھے کہ ”اب کشمیری تھک گئے ہیں،ان میں مزید جدوجہد کرنے کی ہمت باقی نہیں رہی”۔
مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنمائوں کے خلاف نام نہاد مالیاتی سکینڈل کے الزام میں بھارتی حکومت کی کاروائیوں کے ساتھ ہی بھارت کی طرف سے عالمی سطح پر کشمیریوں کی تحریکی آواز کو نمائندگی کے حوالے سے غیر متعلق قرار دینے کی سازش پہ عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔کشمیر کاز کے تمام مخلص حلقوں کوخبردار رہنا چاہئے اور ان سازشوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔دبئی کانفرنس کی بعض سفارشات کے حوالے سے کشمیری حلقوں کی طرف سے تنقید سے ایک پہلو یہ بھی سامنے آیاہے کہ کشمیر کے نام پر نمائندگی کرنے والوں کے میرٹ اور ان کی سرگرمیوں کو کشمیری مانیٹر کر رہے ہیں اور ان کے مختلف پلیٹ فارمز پہ دیئے جانے والے بیانات اور مختلف پلٹ فارمز پہ ان کے اتفا ق کردہ نکات کا باریک بینی سے جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔پھر کہتا ہوں کہ اگر کانفرنس کے حوالے سے ایک جملے کی بجائے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کے مطالبہ کے چند الفاظ ہی شامل کرا لئے جاتے تو اس تاثر کا ”کائونٹر ” ہو سکتا تھا جو بھارت کی طرف سے کشمیریوں اور ان کی جدوجہد کو ناکام بنانے کے طور پر کار فرما ہے۔
نوٹ: لازم نہیں ہے کہ تفصیلات مضمون نگار کی آراء سے کُلی یا جُزوی طور متفق بھی ہو۔