انسانی مسائل کا حل کہاں ہے؟

اکیسویں صدی کے اس” عالمی گاﺅں“ میں آج انسان گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف استعماری قوتوں، سیاسی چال بازوں اور مکاروں نے دنیا کو پنجہ¿ استبداد میں رکھا ہے تو دوسری طرف سرمایہ دار طبقہ اور” ایمز این شینز“ نے دنیا کی اسّی فیصد آبادی پر اپنی چودھراہٹ قائم کر رکھی ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے، اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ دورِ ظلمات ہے۔ ہر طرف قتل وغارت گری لاقانونیت، مطلق العنانیت، خود غرضی اور مفاد پرستی کا بازار گرم ہے۔ معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے، خاندانی نظام بری طرح سے بکھر چکا ہے، اخلاقی اقدار کا جنازہ کب کا نکل چکا ہے، انسان کو اپنی تہذیب وشائستگی اور تشخص اپنانے سے محروم کیا جا رہا ہے اور اسے تہذیبی تصادم کی جنگ میںجھونک دیا جا رہا ہے۔ عریانیت، فحاشی، بدکاری اور ننگے ناچ کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے، حقوقِ انسانی کی دھجیاں اُڑا دی جا رہی ہیں۔ انسان کو نیست ونابود کرنے کے لیے کیماوی ہتھیار وں کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ طاقتور ممالک کمزور ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے انتشار اور فساد کو بڑھاوا دے رہے ہیں، فسطائیت اپنے عروج پر ہے یہاں تک کہ جہاں بھی نظر دوڑائی جائے ”ظہر الفساد فی البر والبحر “کا سماںنظر آتا ہے۔ آخر انسان کو اس بحر ِظلمات سے کون نجات دلا سکتا ہے۔

خدا چونکہ خود فرماچکے ہیں کہ اُنہوں نے نبی آخرالزماں کو عالمین کیلئے رحمت بناکے بھیجا ہوا ہے لہٰذا اُنکی تعلیمات و سیرت کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر دور کیلئے ہیں اور ہر دم اس حد تک تازہ لگتی ہیں کہ انسان کو ہر مسئلے کی رہنمائی مل جاتی ہے۔

دُنیائے انسانیت کو آج ایک بار پھر اس عظیم اور مقدس ذات کی طرف رجوع کرنے کی اشد ضرورت ہے جنہوں نے آج سے1400 سال پہلے سسکتی بلکتی انسانیت کوذلالت وجہالت، کفر وشرک اوربُت پرستی، فحاشی وعریانیت اور اسی قبیل کی بے شمار بُرائیوں سے نجات دلائی تھی۔ جب تک دُنیائے انسانیت یا اُمت ِمسلمہ نبی پاکﷺ کی سیرت اور آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا تھی،اسے عظمت، معیار اور شان وشوکت حاصل تھی لیکن جوں ہی اُمت نے نبی پاکﷺ کی تعلیمات سے منہ موڑایہ ذِلت وپستی کا شکار ہو گئی۔

نبی مکرمﷺ کو دُنیائے انسانیت کے لئے رحمتاََللعالمین کی حیثیت سے مبعوث فرمایا گیاہے۔ ان کی سیرتِ پاک نوع انسانیت کے لیے عالمگیر نمونہ ہے۔ نبی رحمتﷺ نہ صرف پوری انسانیت کے نجات دہندہ ہیں بلکہ دین ودنیا کی کامیابی کے حقیقی ضامن بھی ہیں۔ اُنہوں نے دُنیا کو امن وسلامتی اور احترامِ انسانیت کا درس دیا ہے۔ آپﷺ نے جو صالح فکر اور اخلاقِ عالیہ کے اصول مقرر کئے ہیں وہ دُنیا کے ہر طبقہ اور قوم کے لیے نمونہ ہیں۔ آپ ﷺ نے اعلیٰ اخلاقی قدروںاور انسانی حقوق کا تصور اور نمونہ دیکر دُنیاکو انسانیت نوازی کا عظیم درس دیااور علم و حکمت ، تہذیب و تمدن اور اور انسانی تشخص کو وقار بخشا ۔ آپ ﷺ نے انسانی معاشرے کو اخلاقیات سے مزین کیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت ِطیبہ کا بھر پور مطالعہ کیا جائے تاکہ ہم نہ صرف اپنی انفرادہی زندگی کو سنواریں بلکہ اپنے معاشرے کو بھی سدھار سکیں گے۔ اس تعلق سے ”کرم آرم اسٹرانگ“کی یہ بات کافی اہمیت کی حامل ہے کہ :
” And there can be no better place to start this essential process
than with a more acurate knowledge of the life of the prophet Muhmmad whose special genius and wisdom can illuminated these dark and frithening times ” (Karen Aramstrong ,Muhmmad : Prophet for our Time .p:7)

اس بنیادی اور اہم کا م کو بہتر طور پر انجام دینے کے لیے پیغمبرِ اسلام کی سیرت کا صحیح مطالعہ کیا جائے تو اس میں حکمت اور صلاحیت موجود ہے جس سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ چناچہ دُنیا اس بات کا مشاہدہ کرچکی ہے کہ نبی کی تعلیمات اور اُنکی سیرتِ پاک کی راشنی نے کس طرح اندھیروں میں روشنی کے آفتاب چمکائے ہیں اور کس طرح اُنہوں نے انسانیت کو نوازا ہے۔

خدا چونکہ خود فرماچکے ہیں کہ اُنہوں نے نبی آخرالزماں کو عالمین کیلئے رحمت بناکے بھیجا ہوا ہے لہٰذا اُنکی تعلیمات و سیرت کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر دور کیلئے ہیں اور ہر دم اس حد تک تازہ لگتی ہیں کہ انسان کو ہر مسئلے کی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی سیرتِ پاک اس حد تک ہر دور میں تازہ اور متعلق ہے کہ اس میں اکیسویں صدی کے سُلگتے ہوئے مسائل کا حل موجود ہے۔آج جب انسانیت ،باالخصوص مسلمان،خود کو چہار سو محاصرے میں پاتے ہیں اور طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہیں،سیرتِ طیبہ کی جانب رجوع کی ضرورت و حاجت ہے۔بلکہ قرانِ پاک کی اس آیت،
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُ¶±مِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِی±مَا شَجَرَ بَی±±نَہُم± ثُمَّ لاَ یَجِدُوا± فِی± ا¿َنفُسِہِم± حَرَجاً مِّمَّا قَضَی±±تَ وَیُسَلِّمُوا± تَس±لِی±ما۔ (النساء: ۵۶ )(ترجمہ)” اے محمد ﷺ، تمہارے رب کی قسم یہ کھبی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر وہ اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں“،کے مطابق تو تب تک مسلمانوں کا ایمان ہی مکمل نہیں ہے کہ جب تک نہ وہ خود کو حضرت کے دئے ہوئے نسخہ کیمیاءکے تابع کریں۔یعنی نبی کریم ﷺکی سیرت اور آپ کی دعوت پر ایمان و عمل فرض ہے اور اسی کے نتیجے میں دُنیوی اوراُخروی کامیابیوں کی راہیں کھلتی ہیں ۔آپﷺ کی سیرت اور اور دعوت کو نظر انداز کرنا یا اس سے تجاہل برتنا آگ کے گھڑھے میں کودنے کے مترادف ہے ۔

ہم مسلمانوں کیلئے لازم ہے کہ اگر ہمیں دُنیا میں بھی اپنا محاصرہ ختم کروانا ہے اور پھر آخرت میں بھی سرخروئی اور آزادی کی زندگی گزارنی ہے تو پھر ہمیں اپنی موجودہ ذِلت کی وجوہات سیرتِ طیبہ کی نافرمانی میں تلاش کرکے اسکی فرمانبرداری میں اپنا علاج تلاش کرنا چاہیئے۔

Exit mobile version