تعلیم کے تیزاب میں…!

اسلام کے ابتدائی دور میں عرب معاشرے میں بے حیائی ،فحاشیت و عریانیت ،قتل و غارت گری ،بدکاری،بچیوں کو زندہ دفن کرنا اور شراب خوری جیسی لعنتیں اِس قدر رچ بس گئی تھیں کہ اِن کو انجام دینے والوں کو معاشرہ میں عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ عرب کا معاشرہ بُرائی و بدکاری کے دلدل میں بُری طرح پھنس گیا تھا اوراس معاشرے کے حساس طبقہ کی سوچنے اور کچھ کرنے کی صلاحیتیں منجمند ہو گئی تھی ۔انتہائی سیاہ اورظلم و ستم کے اسی دور میں سرزمین عرب میں ایک ایسا آفتاب نمودار ہوا کہ جس نے امن و سکون اور عزت و فلاح کے نئے ادوار شروع کیے اور اِن کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔یہ آفتاب محمد ﷺ کی ذاتِ اقدس تھی جس نے جہالت اور بد اخلاقی کے اِس ستم رسیدہ معاشرے میں علم و ہدایت کی شمع روشن کی اور رفتہ رفتہ پورا عرب معاشرہ روشنی سے جگمگانے لگا۔کلام اللہ کی سورة علق کی ابتدائی پانچ آیتوں سے آپ ﷺ نے اُس ناخواندہ اور جاہل قوم کو علم و حکمت سے آشنا کیا۔ چنانچہ قرآن میں حکم ہوا:”پڑھو اے نبیﷺ اپنے رب کے نام کے ساتھ ،جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ،پڑھو تمہارا رب بڑا کریم ہے،جس نے علم کے ذرےعے سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔(سورہ علق آیت1تا5)

ہمارے یہاں تعلیم کوفقط نظام اور نصاب کے ہی مسائل درپیش نہیں ہیں بلکہ انتظامی سطح پر بھی تعلیم اور طلباءکو اس حد تک سطحی طور دیکھا جاتا ہے کہ جیسے مستقبل سازی اور فکر سازی کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ خانہ پُری کا معاملہ ہو۔

اسلام کے ابتدائی دور میں عرب معاشرے میں بے حیائی ،فحاشیت و عریانیت ،قتل و غارت گری ،بدکاری،بچیوں کو زندہ دفن کرنا اور شراب خوری جیسی لعنتیں اِس قدر رچ بس گئی تھیں کہ اِن کو انجام دینے والوں کو معاشرہ میں عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ عرب کا معاشرہ بُرائی و بدکاری کے دلدل میں بُری طرح پھنس گیا تھا اوراس معاشرے کے حساس طبقہ کی سوچنے اور کچھ کرنے کی صلاحیتیں منجمند ہو گئی تھی ۔انتہائی سیاہ اورظلم و ستم کے اسی دور میں سرزمین عرب میں ایک ایسا آفتاب نمودار ہوا کہ جس نے امن و سکون اور عزت و فلاح کے نئے ادوار شروع کیے اور اِن کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔یہ آفتاب محمد ﷺ کی ذاتِ اقدس تھی جس نے جہالت اور بد اخلاقی کے اِس ستم رسیدہ معاشرے میں علم و ہدایت کی شمع روشن کی اور رفتہ رفتہ پورا عرب معاشرہ روشنی سے جگمگانے لگا۔کلام اللہ کی سورة علق کی ابتدائی پانچ آیتوں سے آپ ﷺ نے اُس ناخواندہ اور جاہل قوم کو علم و حکمت سے آشنا کیا۔ چنانچہ قرآن میں حکم ہوا:”پڑھو اے نبیﷺ اپنے رب کے نام کے ساتھ ،جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ،پڑھو تمہارا رب بڑا کریم ہے،جس نے علم کے ذرےعے سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔(سورہ علق آیت1تا5)

چونکہ اس وقت عرب کے معاشرے میں بے حیائی ،فحاشیت و عریانیت ،قتل و غارت گری ،بدکاری،بچیوں کو زندہ دفن کرنا ،شراب میں لت پت رہنا رو ز کا معمول تھا۔ اس لئے ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شراب کی حرمت،ناحق قتل کے خلاف ،بدکاری کے خلاف ،بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کے خلاف یا دیگر بدترین گناہ جو اس وقت ہو رہے تھے کے قلع قمع کے حوالے سے آیات نازل کیوں نہیں کیں؟یہ ایک اہم نقطہ ہے جس کو سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔

بات دراصل یہ ہے کہ آج تک دنیا میں کسی بھی بُرائی کو طاقت کے بل بوتے پر ختم نہیں کیا جا سکاہے اور نہ ہی آگے کیا جا سکے گا،بلکہ اگر کوئی بُرائی ختم ہوئی ہے تو وہ صرف اور صرف تعلیم کے ذریعے ہی ختم ہوئی ہے ۔اسی لئے اللہ تبارک وتعالی نے سب سے پہلے علم اور تعلیم کے متعلق ہی آیات ِمبارکہ نازل فرمائیں۔ یعنی نبی مہربان ﷺ سے یہ فرمایا گیا کہ اس وقت عرب کے معاشرہ کو بُرایﺅں کے دلدل میں سے کوئی ڈنڈہ یا تلوار باہر نہیں نکال سکتی ہے بلکہ آپﷺ بس ان لوگوں کو تعلیم کے نور سے منور کریں اور رفتہ رفتہ یہ بُرائیاں و رزایل خود بخود معاشرے سے رفع و دفع ہو جائیں گی۔اللہ تعالیٰ کے اِسی حکم کے تحت نبی مہربان ﷺ نے عرب کے معاشرے کو تعلیم دینا شروع کیا اور پھر دنیا نے وہ دن بھی دیکھا کہ اللہ تعالی کے ایک حکم پر شراب گلیوں میں ایسے میں بہائی گئی کہ جیسے شراب کی نہریں بہہ رہی ہوں۔جس معاشرے میں والدین بچیوںکے پیدا ہونے کو خود کے لیے باعث ذِلت قرار دیتے تھے، تعلیم ِمحمدیﷺ کا یہ اثر ہوا کہ بچیوں کے پیدا ہونے پر خوشیاں منائی جانے لگیں۔ غرض محمد ﷺ کی سرپرستی میں عرب کا جاہل معاشرہ رفتہ رفتہ صالح ترین معاشرہ بن گیا اور دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ کسی بھی معاشرے میں بُرائیوں کے قلع قمع اور نیکیوں اور اچھائیوں کے فروغ کیلئے تعلیم کی کس قدراہمیت و ضرورت ہے۔بقول اقبال

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم پھر جدھر چاہے اُدھر پھیر

پیغمبر تو ہمارے پاس تعلیم کی ضرورت کا سبق چھوڑ کے ہی نہیں گئے تھے بلکہ عملی طور اسکے اثرات بھی سمجھا گئے تھے لیکن ہم آج اپنے آس پاس کے ماحول پر نظر دوڑائیں تو معاملہ دِگرگوں معلوم ہوتا ہے۔اُمتِ مسلمہ کے پاس قرآن اور حدیث پاک کی صورت میں ہدایت و فلاح کا ایک وسیع ذخیرہ ہونے کے باوجود اس سے استفادہ کرنے کا جیسے وقت ہی نہیں ہے۔ علم کے دستیاب ذخائر سے استفادہ کرنا تو دور ہم اِن سے آشنائی تک نہیں رکھتے۔ یہ ایک جرم ہے اور اِس جرم کی سزا ہم آج آئے روز بھگتتے رہتے ہیں۔حالات و واقعات کا غائر مطالعہ کرکے عرب کا وہ دورِ جاہلیت یاد آتا ہے ، جس کی منظرنگاری مندرجہ بالا سطروں میں کی گئی۔ آج ہمارے آس پاس بد کاری و فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے ، شراب کے کاروبار کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہے ،غریب دن بہ دن غریب ہوتا جا رہا ہے اور امیر دن بہ دن امیر بنتا جا رہا ،دنیا کی 90فی صدی سے زیادہ دولت چند لوگوں کے ہی پاس ہے۔ چہار سو ظلم و جبر کی نئی نئی داستانیں رقم کی جاتی ہیں ،ظالم و جابر حکمرانوں نے فسطائیت کی تمام حدوں کو پار کیا ہوا ہے، اخلاقیات کا جنازہ اُٹھتا جا رہا ہے اور تو اور جس صنف ِنازک کو عرب کے دورِ جاہلیت میں زندہ درگور کیا جاتا تھا، آج حالت اس قدر خراب ہے کہ اِس بچی کو ماں کے رحم میں ہی قتل کیا جاتا ہے۔

عصر ِحاضر کا معاشرہ تباہی و بربادی کی اور بڑی تیزی سے جا رہا ہے ۔ایسی بات نہیں کہ لوگ تعلیمی اداروں سے دور ناخواندگی کی زندگی گزار رہے ہوں، بلکہ شرحِ خواندگی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ہر ایک محلہ اور گاﺅں میں اسکولوں کا جال بچھایا گیا ہے اور کالج اور یونیورسٹیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔مگر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کے اِس قدر پھیلاﺅ کے باوجود بھی ہمارا معاشرہ بے حیا ئی اور گمراہی کی اور کیوں جا رہا ہے ؟علم تو نور ہے اور تعلیم انسانوں کو اندھروں سے نکال کر روشنی کی اور لے آتی ہے ۔لیکن آج ہم اِسی” تعلیم“ کی مہربانیوں سے اندھیروں کی وادیوں میں کیوں چلے جارہے ہیں؟ڈگریوں اور ڈپلومہ اور نہ ہی فر فر انگریزی بولنے والوں کی کمی ہے لیکن ہزاروں تعلیمی اداروں سے لاکھوں کی تعداد میں فارغ التحصیل طلباءآخر آج اس قدر کیوں بد اعمال اور بد اخلاق ہو گئے ہیں؟

ایک طالبِ علم طب کی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اُسے معاشرے میں ” ڈاکٹر“ کے لقب سے نوازا جاتا ہے ۔ جبکہ یہی ڈاکٹر صاحب(استثناءکے ساتھ)آج اپنے پرائیویٹ کلینک( پیسے بٹورنے کی فیکٹری)میں غریب عوام کو غلط علاج اور جعلی دوائیاں بیچ کر لوٹتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر صاحب اپنے ضمیر کو اِس قدر گرادیتے ہیں کہ انسانی گردوںکی چوری کے جیسا جرمِ عظیم بھی اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اِن جرائم کے ارتکاب سے حاصل شدہ پیسوں سے ہی یہ ڈاکٹر صاحبان حج اور عمرے بھی کرتے ہیں۔

ایک طالبِ علم طب کی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اُسے معاشرے میں ” ڈاکٹر“ کے لقب سے نوازا جاتا ہے ۔ جبکہ یہی ڈاکٹر صاحب(استثناءکے ساتھ)آج اپنے پرائیویٹ کلینک( پیسے بٹورنے کی فیکٹری)میں غریب عوام کو غلط علاج اور جعلی دوائیاں بیچ کر لوٹتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر صاحب اپنے ضمیر کو اِس قدر گرادیتے ہیں کہ انسانی گردوں کی چوری کے جیسا جرمِ عظیم بھی اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اِن جرائم کے ارتکاب سے حاصل شدہ پیسوں سے ہی یہ ڈاکٹر صاحبان حج اور عمرے بھی کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے کا انجینئر بھی نت نئے برگ و بار اُگا رہا ہے اور ” ڈاکڑ“ صاحب کے شانہ بشانہ بلکہ مقابلہ میں آگے جانے کی دوڑ دوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔اول تو سرکاری اور غیر سرکاری ٹھیکوں کو وہ رشوت دے کر حاصل کرتے ہیں اور پھر سڑکوں، پلوں اور دیگر تعمیر سازی کے کاموں میں انتہائی گھٹیا قسم اور کم داموں کا مواد استعمال کر کے وہ اِن ٹھیکوں سے کروڑوں کی رقم بٹورلیتے ہیں۔یہ انجینئرصاحبان چائے کے نام پر رشوت لے کرکے اپنا شکم سیر کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔اسی طرح سے ہمارے موجودہ حکمران اتنے ظالم ہیں کی ان کے ظلم و جبر سے وحشی درندوں کو بھی ڈر لگتا ہو گا،ہمارے جج اور وکلاءحضرات قاتلوں کو پچانے کے لئے اپنی حتی المقدور کوششیں کرتے ہیں۔بینکوں میںسود ی کاروبار دن بدن فروغ پا رہا ہے اور قرضوںکے جال میں پھنسا کر غریب عوام کو دو دو ہاتھوں لوٹا جا رہا ہے۔ یہ آج کے ہمارے معاشرے کی اجتماعی صورتحال ہے کہ اس پرنگاہ ڈالنے سے کسی بھی ذِی حس اور با ضمیر انسان کا دل خون کے آنسو ں روتا ہے۔

ہمیں اِن حالات کے پسِ منظر میں غورکرنے کی ضرورت ہے۔ آخر تعلیم کے اِس قدر پھیلاﺅ کے باجود بھی ہم ایک پُر امن معاشرہ تشکیل دینے میں ناکام کیوں ہیں؟اس سوال کے جواب میں ہم چند باتیں عرض کرنا چاہیں گے۔

ہمارے معاشرے کے اس بگاڑ کی جڑیں بات دراصل بگڑے ہوئے نظامِ تعلیم میں ہیں۔ نظام ِتعلیم ہی وہ آلہ ہے جس کے ذریعے سے کسی بھی قوم کے متعلق اس کے مستقبل کے حوالے سے کوئی راے قائم کی جا سکتی ہے ،اور قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ بھی نظامِ تعلیم ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ جس ملک میں جس طرح کا نظامِ تعلیم مروجہ ہوگا اس ملک و قوم کی سوچ و فکر بھی اُسی طرح کی ہوگی کیونکہ سوچ و فکر بذاتِ خود نظام ِتعلیم کے تابع ہوتی ہے ۔
بدقسمتی کہ ہم ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں کا نظامِ تعلیم الحادی نظریات کے تحت مرتب کیا گیا ہے، جہاں پر ہمیں افلاطون ،ارسطو،کارل مارکس،گاندھی وغیرہ کے دیے ہوئے نظریات اور فلسفے تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن افسوس اسلام ،نبی مہربان ﷺ کی سیرت ،سیرتِ صحابہؓ،تاریخ اسلام وغیرہ جیسے موضوعات نہیں پڑھائے جاتے ہیں۔حالانکہ ہم ایک مسلمان ریاست میں رہتے ہیںجہاں بھلے ہی مذکورہ بالانظام و نظریات بھی پڑھائے جاتے لیکن ترجیحی طوراسلام ہی پڑھایا جانا چاہیئے تھا کہ جو ہمارا دین ہے۔ہمارے یہاں مروجہ نظامِ تعلیم کے تحت ہمیں مغربی مفکرین کا غیر اسلامی و الحادی لٹریچر پڑھا یا جاتا ہے۔چناچہ جس نظامِ تعلیم میں اخلاق باختگی کے دروس و اسباق شامل ہوں اُس سے ایمان دار و مہربان ڈاکٹروں ،انجینیروں،اورافسر حضرات کے پیدا ہونے کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے؟

اِسی نظامِ تعلیم پر مفکر السلام مولانا سید ابواعلیٰ مودودی ؒ اپنی مشہور کتاب” تعلیمات“ میں یوں رقم طراز ہیں ”دراصل میں آپ کی اس مادر تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں بلکہ ایسی تمام مادران تعلیم کو درسگاہ کی بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک آپ فی الواقعہ یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیںاور یہ جو آپ کو ملنے والی ہیں یہ دراصل موت کے صداقت نامے {DEATH CERTIFICATE}ہیں جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دئے جا رہے ہیں جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کا اطمینان کر چکاہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگا رہنے نہیں دیا ہے ۔اب یہ آپ کی اپنی خو ش قسمتی ہے کہ اس منضبط اور منظم قتل گاہ سے بھی جان سلامت لے کر نکل آئیں ۔ میں یہاں اس صداقت نامہ موت کے حصول پر آپ کو مبارک باد دینے نہیں آیا ہوں بلکہ آپ کا ہم قوم ہونے کی وجہ سے جو ہمدردی قدرتی طور پر میں آپ کے ساتھ رکھتا ہوں وہ مجھے کھینچ لائی ہے ۔میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتلِ عام ہو چُکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہوں کہ کہاں کوئی سخت جان بسمل ابھی سانس لے رہا ہے “۔(تعلیمات صفحہ45) ۔

ہمارے معاشرے کے اس بگاڑ کی جڑیں بات دراصل بگڑے ہوئے نظامِ تعلیم میں ہیں۔ نظام ِتعلیم ہی وہ آلہ ہے جس کے ذریعے سے کسی بھی قوم کے متعلق اس کے مستقبل کے حوالے سے کوئی راے قائم کی جا سکتی ہے ،اور قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ بھی نظامِ تعلیم ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔

دُکھ اس بات کا ہے کہ اس الحادی نظام ِتعلیم کو چلانے والے بھی ہمارے مسلمان بھائی ہی ہیں۔ حالانکہ ذرا سا غور کرنے پر بھی ہمیں مروجہ نظامِ تعلیم کو بدل دینے کی ضرورت بلکہ اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن ہمارے لئے اس نظام کو بدلنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ہاں ،بقول ِسید مودودی ؒ ، ”اگر اُستاد چاہے تو وہ گیتا سے بھی قرآن پڑھا سکتا ہے “۔مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہیںہو رہا ہے،شائد وہ درد مند اُستاد بھی دستیاب نہیں ہیں کہ جنکے ہاتھ میں مجبوری نے گیتا تھماتو دی ہو لیکن اُنہیں قران سُنانے کی فکر لاحق ہو۔

ہمارے یہاں تعلیم کوفقط نظام اور نصاب کے ہی مسائل درپیش نہیں ہیں بلکہ انتظامی سطح پر بھی تعلیم اور طلباءکو اس حد تک سطحی طور دیکھا جاتا ہے کہ جیسے مستقبل سازی اور فکر سازی کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ خانہ پُری کا معاملہ ہو۔اس حوالے سے خود اپنے ساتھ پیش آمدہ ایک واقعہ کی مثال پیش کرتا ہوں۔کشمیر یونیورسٹی کے نظامِ فاصلاتی تعلیم کے طلباءنے سال 2015 میں ایم ۔اے ،کورس کے لئے داخلہ لیا تھا اور اس کورس کو دو سال میں مکمل ہونا تھا لیکن آج تیسرا سال چل رہا ہے اور ابھی صرف دو سمسٹرس کے امتحانات ہو پائے ہیں۔ امتحان لینے کے لئے کوئی مخصوص ضابطہ نہیں بلکہ طلبہ کو بھیڑ بکریوں کی طرح امتحان سینٹروں میں ڈال کر ان سے پرچہ حل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ راقم الحروف بھی ان بد نصیب طلبہ میں سے ہے جو اس فاسد نظام کی زد میں آئے ہیں۔ہمارا امتحانی مرکز سوپور کے ایک ایک پرائیویٹ ادارے میں رکھا گیا تھا۔ امتحان کے دوران ہمیں ایک ہال میں بھرا جاتا تھا ،پینے کے پانی، گرمی سے نجات وغیرہ کے لیے کوئی انتظامات نہیں تھے۔ گنجائش سے زیادہ لوگوں کو اس ہال میں ٹھونسے جانے کی وجہ سے کئی دفعہ کئی طالبات پر امتحان کے دوران غشی طاری ہو ئی۔یہ بے حسی ضروری سہولیات کی عدم دستیابی تک ہی محدود نہ تھی بلکہنصف سے زیادہ اُمیدوار نقل کر رہے تھے اور وہاں ڈیوٹی پر تعینات اساتذہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے ۔کشمیر یونیورسٹی سے کوئی ذمہ دار یا کاڈینیٹر امتحانی مراکز پر ایک بار بھی جائزہ لینے نہیں آئے۔گویا ایک طرف پورا نظامِ تعلیم ناقص ہے تو دوسری جانب اربابِ اختیار نے اسے محض پاس اور فیل ہونے کا ایک کھیل سمجھا ہوا ہے۔ایسے میں درکار سوچ کیسے تیار ہوگی اور کردار سازی کس طرح ہوگی،یہ غور کرنے والا معاملہ ہے۔

ہم چونکہ ایک باطل ہی نہیں بلکہ انسان سازی اور کردار سازی کے تئیں بے حس نظام میں پھنسے ہوئے ہیں لہٰذا دستیاب نظام میں کسی فوری بہتری کی توقع تک کرنا ناممکن سا ہے لیکن ہم چاہیں تو حالات کو اپنے لئے کچھ حد تک ضرور بدل سکتے ہیں۔اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری ہم نوجوانوں کی ہے۔ہمیں قران کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کرنا ہوگی اور پھر اس عظیم کتاب کو سمجھ کر پڑھنا ہوگا۔اگر ہم تعلق باللہ قائم کریں ،اپنی اپنی مقامی مساجد میں دروسِ قرآن کا اہتمام کریں ،بزرگانِ دین،صحابہ کرام ،اور سب سے بڑھکر رسو ل اللہ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے وجہ تخلیقِ انسان کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریںتو ہمارے حالات بدل سکتے ہیں۔

رابطہ نمبر 9906664012

Exit mobile version