دبئی کانفرنس … بھارتی موقف قبول!

ایک برطانوی این جی او کے زیر اہتمام ہندوستان اور پاکستان کے نمائندوں کے علاوہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیرکے چند سیاستدانوں،سول سوسائٹی کے نام سے کچھ افراد نے کشمیر سے متعلق بھارتی موقف کو قبول کیا ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے شرکاء نے بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کے بھارت نواز نمائندوں کے کشمیر سے متعلق بھارتی موقف کو تسلیم کرتے ہوئے بھارتی شرائط کے مطابق ہی کشمیریوں کے ریلیف پر رضامندی کا عندیہ دیا ہے ۔ان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالیوں، کشمیریوں کی بھارت کے خلاف جدوجہد کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر سے متعلق بھارتی موقف کو تقویت پہنچا ئی گئی ہے ا۔ حقیقت میں” کشمیر صلح ڈائیلاگ ” کے نام پر المناک صورتحال کے شکار کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا گیاہے۔31جولائی سے2اگست تک دبئی میں ”کشمیرصلح ڈائیلاگ ” کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا اہتمام ایک برطانوی این جی او ‘کنسیلیشن ریسورسز” نے پاکستان اور ہندوستان کی چند این جی اوز کے تعاون سے کیا۔کانفرنس میںہندوستان کے سابق ایئر وائس مارشل کپل کاک ،نیشنل کانفرنس مقبوضہ کشمیر کے ناصر اسلم وانی،مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں بی جے پی کے رکن اسمبلی وکرم رندھاوا،پی ڈی پی کے وحید الرحمان،کرگل سے رکن اسمبلی اصغر کربلائی،شجاعت بخاری ودیگرجبکہ پاکستان سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی ، سپیکر آزاد کشمیر اسمبلی شاہ غلام قادر ،پی پی پی آزاد کشمیر کے صدرچودھری لطیف اکبر،آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن عبدالرشید ترابی،مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کے صغیر چغتائی،امجد یوسف،طاہر عزیز اور ارشاد محمود شریک ہوئے۔

کنسیلیشن ریسورسز’ کے مطابق کانفرنس کے مشترکہ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ ” شرکاء نے جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا،جموں و کشمیر میں عوام کی تکلیف کم کرنے کے لئے ریلیف اقدامات دوبارہ شروع کرنے سے متعلق بات چیت پر زور دیا۔انہوں نے سفارش کی کہ ہر طرف سے جنگجوئوں کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکتا ہے،2003میں فائر بندی کے سمجھوتے کا احترام کیا جائے،اعتماد کی تعمیر کے اقدامات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے،سیز فائر لائین سے تجارت اور سفر کے نئے راستے کھولے جائیں،جموں و کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان نوجوانوں کے وفود کے تبادلے کئے جائیں”۔برطانوی این جی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوناتھن کوہن نے بتایاکہ کانفرنس کی سفارشات پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو بھیجی جائیں گی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق شرکا نے جموں و کشمیر میں موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا،جموں و کشمیر میں عوام کی تکلیف کو کم کرنے کے لئے اقدامات دوبارہ شروع اور ریلیف اقدامات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا۔صغیر چغتائی نے اسلام آباد میں ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ” دونوں کشمیر کی قیادت میں مثبت بات چیت ہوئی ہے، دونوں طرفوں کا یہ نقطہ نظر تھا کہ دونوں طر ف کے کشمیریوں کو ملنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے، کشمیر میں اعتماد کی تعمیر کیلئے نئے اقدامات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔بھارتی نمائندوں نے سرحد پاردہشت گردی کا مسئلہ اٹھایا.، ہماری جانب سے یہ بات کی گئی کہ سرحد پار سے دہشت گردی نہیں کی جارہی ہے اور حقیقت میں بھارت پاکستان کے عدم استحکام کی کوشش کر رہا ہے، دونوں طرف سے یہ اتفاق کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کا عمل شروع کرنا چاہئے”۔

کانفرنس مین شرکاء کی باتوں کی روشنی میں ہی مشترکہ اعلامیہ تیار کیا جاتا ہے۔ آزادکشمیر کے اہم سیاسی رہنمائوں کی طرف سے منظور کردہ اس اعلامیہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آزاد کشمیر کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے کہا جا رہا ہے کہ بھارت کی شرائط ”بلا چوں و چراں” تسلیم کر لی جائیں تا کہ بھارت کشمیریوں کو کچھ ریلیف دینے پر آمادگی ظاہر کر سکے۔اس کے بعد یہی بات باقی رہ جاتی ہے کہ آزاد کشمیر کے سیاسی رہنمائوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ریلیف کے لئے کشمیریوں سے بھارتی شرائط تسلیم کئے جانے کی اپیل ہی نہیں بلکہ مطالبہ کیا جائے۔اس کانفرنس کے اعلامیہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ہندوستان کے سابق ایئر وائس مارشل کپل کاک نے کشمیر کے موضوع پر سابق ڈی جی” آئی ایس آئی” لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کو مغلوب کر لیا۔اس مشترکہ اعلامیہ سے ہندوستان کو پاکستان اور آزاد کشمیر کی طرف سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ کشمیر سے متعلق جن باتوں پر ہندوستان راضی ہو،پاکستان اور آزاد کشمیر بھی اس پہ راضی ہو جائیں گے۔آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) ،پی پی پی ،جماعت اسلامی کے اہم رہنمائوں سے بالکل بھی یہ توقع نہیں تھی کہ وہ کانفرنس میں ایسے طرز عمل کا مظاہرہ کریں گے کہ جس کا نتیجہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامئیے کی صورت سامنے آیا ہے،یہ بات المناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔شاید رائج الوقت سیاست کی موٹی ،بے حس کھال المناک اور شرمناک صورتحال سے بے پرواہ ہوتی ہے۔ اگر کشمیر کاز کے ہمدرد نسل در نسل جدوجہدکرنے والے کشمیریوںکے حق میں ایک جملے کے بجائے انسانی حقوق اور کشمیری عوام کے مطالبے کے دو الفاظ ہی شامل کرا سکتے تو پھر بھی اس معاملے کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔

بھارتی زیر بد انتظام کشمیر سے متعلق دنیا میں دو مختلف قسم کی صورتحال بیان کی جاتی ہے۔ایک صورتحال تو وہ ہے جو دنیا بھر میں میڈیا کے ذریعے عام لوگوں کے سامنے آ تا ہے اور دوسرا بیان بھارت کی طرف سے مشتہر کیا جاتا ہے جو کشمیر میں بھارت سے آزادی کے لئے شدید عوامی مزاحمت کو دہشت گردی کے طور پر بیان کرتا ہے۔اب یہ بھارت کی فوجی،سیاسی ،سفارتی، اقتصادی طاقت کا شاخسانہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق بھارت کے جھوٹ،فریب پر مبنی پروپیگنڈے کو ایک سچ کے طور پر سامنے لانے کے لئے بھارتی حکومت ،بھارتی اداروںکے علاوہ مختلف لابیوں کو بھی متحرک کیا گیا ہے۔امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک پارٹنر شپ قائم ہونے کے بعد بھارت نے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کے خلاف مزید سخت اور جارحانہ انداز اپناتے ہوئے کشمیریو ں کی مسلح مزاحمت کے ساتھ سیاسی جدوجہد کو بھی دہشت گردی سے تعبیر کرنے کی مہم شروع کی ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران مقبوضہ کشمیر میں عوامی تحریک کے ایک نئے دور میں ہزاروں نوجوان لڑکوں ،لڑکیوں،بچوں کی آنکھیںبھارتی فورسز کی طرف سے پیلٹ گنوں کے استعمال سے ضائع ہو گئیں،بڑی تعداد میں کشمیری بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کئے گئے۔ہلاک کئے جانے والے کشمیریوں میں آزادی کی مسلح جدوجہد کرنے والے مجاہدین کے علاوہ بڑی تعداد میں ایسے کشمیری بھی شامل ہیں جو بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل سے انکار کے خلاف گلیوں ،سڑکوں پر مظاہرے کرتے ہوئے بھارتی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔یوں نئی حکمت عملی کے تحت اب بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والوں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے درمیان فرق ختم کرتے ہوئے،دونوں کو ہی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مختلف نوعیت کی سخت ترین سرکاری سطح کی کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر یا بھارت میںموجود کسی شخص کے لئے اس بات پہ یقین کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ پاکستان یا بیرون ملک کوئی کشمیری بغیر فنانسنگ کے کشمیر کاز کے حوالے سے کام کر سکتا ہے۔مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات کی یہ کوشش سامنے آئی ہے کہ بھارتی حکومت سے التجاء کی جا رہی ہے کہ وہ کشمیریوں کو کچھ ریلیف دے۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کے ہندوستان نواز سیاستدانوں کی کشمیر سے متعلق اپیلوں،التجائوں پر توجہ نہیں دیتی تو کشمیر کی سول سوسائٹی کے افراد کی ایسی التجائوں پر کیسے توجہ دینے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ہندوستان کے لئے ان کی طرف سے ایسی کونسی اعلی خدمات سرانجام دی گئی ہیں جو ایسی توقع رکھی جا رہی ہے؟کشمیر کے حالات و واقعات ،محرکات ،عوامل سے باخبر رہنے میں بات دلچسپی اور رابطوںکی ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر ایسا وسیع منظر نامہ واضح نظر آتا ہے کہ جہاں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ،حریت پسند حلقوں کی سرگرمیاں اور بھارتی حکومت کی پالیسی و اقدامات کا بہتر طور پر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنمائوں کے خلاف بھارتی حکومت نے مسلسل پابندیوں اور سختیوں کو مزید سخت کر دیا ہے۔پاکستان سے پیسے حاصل کر کے مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد اور فورسز پر پتھرائو کے لئے پیسہ فراہم کرنے کے الزامات مین سخت کاروائی شروع کی ہے اور متعدد حریت رہنمائوں کو بھارتی جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔قند مکرر کے طور پراس سے پہلے کے کالم میں بھی اسی جانب تو دلائی گئی تھی کہ حریت میں خرابیوں اور خامیوں میں اصلاح کی اپیلیں دو عشروں سے کی جا رہی تھیں،لیکن تحریک سے متعلق خرابیوں خامیوں کے تدارک پر توجہ نہ دینے سے ان کو پروان چڑہنے دیا گیا۔اب اس کے بدترین نتائج درپیش ہیں کہ جہاں کشمیریوں کی رہنمائی کرنے والے رہنما خود کو ایک بند گلی میں پھنسا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ حریت کی طرف سے اس بصیرت کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں نہیں آ سکا جو کشمیر کاز میں پیش رفت کا تقاضہ رکھتا ہے۔تمام تر پابندیوں اور مظالم کے باوجود تحریک آزادی کشمیر کی ” ڈرائیونگ سیٹ ” پر مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما ہی ہیں،کشمیریوں کی سوالیہ نظریں جواب کے لئے مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنمائوں کے طرف ہی اٹھتی ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ حریت سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے ایسے وسیع پلیٹ فارم کی تشکیل پر توجہ دے جو مقبوضہ کشمیر،پاکستان اور یورپ،امریکہ پر محیط ہو اور اس میں اہلیت و قابلیت کے ساتھ کشمیر کاز سے اخلاص کا احساس و ادراک بھی اہم ہے۔

 

نوٹ: مضمون ہذا کو قارئین کی دلچسپی کیلئے کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر پیش کیا جاتا ہے، لازم نہیں ہے کہ تفصیلات کا مضمون نگار کے ساتھ کُلی یا جُزوی طور اتفاق ہو۔

Exit mobile version