محمد عمر
اینکاونٹر کی جگہ سے کوئی ہزارگز دور میں اپنے چچازاد سمیت گھر کے گلیارے میں موجود سبھی گھروالوں کو احساسِ تحفظ دلانے کی ناکام کوشش کررہا تھا حالانکہ میں خود اس ڈر سے مرا جارہا تھا کہ کہیں کوئی ”آوارہ“گولی آکر مجھے یا ہم میں سے کسی کو بھی چیر کر نہ چلی جائے۔موت کے بس ایک خیال نے ہی مجھے تھرادیا تھاکیونکہ میں سُن پارہا تھا کہ دو ،یا اس سے بھی زیادہ،مشین گنوں کے دہانے ایک ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں گولیاں اُگل رہے تھے۔اس سب سے میں اس قدر خوفزدہ ہوچکا تھا کہ میں پسینہ پسینہ ہوگیا تھا جو میرے ماتھے پر سے قطرہ قطرہ ہوکر لڑھکنے لگا تھا جیسے اچانک اور ایک جست میں ہزار میٹر کی دوڑ لگاچکا تھا۔میں بڑا خوفزدہ تھا لیکن اسکے ساتھ ہی میں اُس مجاہد کی حفاظت کیلئے دعائیں مانگنے لگا کہ جنہیں نشانہ بنایا جارہاتھا۔
اس دوران یہاں کے محاصرے اور تلاشی آپریشن کی خبر وادی کے باقی علاقوں ،باالخصوص حالیہ برسوں میں جنگجوئیت کا گڈھ بنکر اُبھر چکے جنوبی کشمیر جس میں ہمارا گاوں بھی شامل ہے،میں پھیل چکی تھی۔دوستوں نے مجھے ٹیکسٹ کرنا،کال کرنا اور فیس بُک پر میرا نام لینا شروع کیا تھا تاکہ میں اُنہیں بتاوں کہ کیا یہ بُری خبر صحیح ہے ۔
یہ شام کے سات بجے کا وقت تھا کہ جب اینکاونٹر شروع ہوچکا تھا۔اُسوقت جب ہمارے گاوں کے لڑکے ایک کھیت کو میدان بناکر اس میں والی بال کھیلنے میں مصروف تھے۔ہم میں سے کئیوں نے پہلی گولی چلنے کی آواز سُن تو لی لیکن کئی کھیل میں ایسے گھم تھے کہ اُنہیں آسانی سے کچھ سُنائی نہیں دے رہا تھا۔پھر کھیل کے دوران کھلاڑیوں اور تماشہ بینوں کا اپنی ٹیم کے اچھا کرنے پر خوشی سے اُچھل اُچھل کر چلانے کی آوازیں تو میدان سے باہر کی آوازوں کی سماعت کو اور بھی مشکل بنائے ہوئے تھیں۔لیکن چند ہی منٹوں میں ہر جانب افراتفری پھیل گئی،ہم میں سے ہر ایک کے فون کی گھنٹی بجنے لگی اور گھر والے ہماری خیریت پوچھنے کے ساتھ ساتھ فوری گھر بلانے لگے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے تاہم کچھ کا کہنا تھا کہ باغیوں نے فوج پر گھات لگاکر حملہ بولدیا ہے اور کچھ گولیاں چلانے کے بعد فرار ہوگئے ہیں۔کچھ نے یوں کہا کہ فوج نے گاوں کے بالائی حصے کو محاصرے میں لیا ہے اور ایک باغی کو پہلے ہی شہید کیا جاچکا ہے۔ہم میں سے بیشتر کی دعا تھی کہ پہلی اطلاع درست ہواگرچہ اُسکے صحیح ہونے کی صورت میں گاوں والوں کو خیمازہ کے بطور تشدد کا شکار ہونا پڑ سکتا تھا۔
افراتفری کے اس عالم میں والی بال کھیلنے والی دونوں ٹیموں نے کھیل روک دینے اور نیٹ اُتارنے پر آمادگی دکھائی اور ہم سب گھروں کو چل دئے تاہم جاتے جاتے ہم نے گولیاں چلنے کی مزید آوازیں سُنیں۔ہم میں سے ایک لڑکے نے کہا”یہ(گولیاں چلانا)فوج کی طرفسے محض ایک اُکسانے والا حربہ ہوسکتا ہے تاکہ یہ دیکھیں کہ جنگجو فرار ہوگئے ہیں یا پھر اُنہوں نے یہیں کہیں گاوں کے کسی گھر میں پناہ لی ہے۔فوج تو ایسا عام طور پر کرتی ہے اور اگر دوسری جانب سے جواب میں گولی چلی تو پھر اینکاونٹر شروع ہوجاتا ہے“….وہ شائد صحیح کہہ رہا تھا۔اگلے آدھے گھنٹے کیلئے خاموشی چھا گئی۔علاقے کے کچھ دوستوں کے فیس بُک اپ ڈیٹس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ محاصرہ ختم ہو گیا ہے اور باغیوں نے فوج کو چکمہ دے دیا ہےٍ۔
جب تک ہم گھر پہنچے اینکاونٹر کی جگہ دیکھنے جاچکے لڑکوں میں سے کچھ ایک واپس لوٹ رہے تھے،اُنکا ماننا تھا کہ باغی بھاگ گئے ہیں اور فوج پسپا ہورہی ہے اور شائد گاوں کی تلاشی لینے کے ایک عام سے آپریشن کے بارے میں سوچ رہی ہے۔اس دوران یہاں کے محاصرے اور تلاشی آپریشن کی خبر وادی کے باقی علاقوں ،باالخصوص حالیہ برسوں میں جنگجوئیت کا گڈھ بنکر اُبھر چکے جنوبی کشمیر جس میں ہمارا گاوں بھی شامل ہے،میں پھیل چکی تھی۔دوستوں نے مجھے ٹیکسٹ کرنا،کال کرنا اور فیس بُک پر میرا نام لینا شروع کیا تھا تاکہ میں اُنہیں بتاوں کہ کیا یہ بُری خبر صحیح ہے ۔
اب رات کے قریب پونے گیارہ بج رہے تھے،میں بستر میں آگیا تھاکہ اسی دوران اچانک مشین گنوں کے دہانے دوبارہ کھول دئے گئے۔یوں گولیاں برسنے لگیں کہ جیسے موسلادھار بارشیں برس رہی ہوں۔میں کمرے کے ایک کونے میں اوندھے منھ لیٹ گیا۔میں نے جلد ہی احساس کیا کہ یہ محض اُکسانے کیلئے کی جانے والی فائرنگ نہیں ہے۔فائرنگ کئی منٹوں تک جاری رہی،پھر کچھ دیر کیلئے ایک مایوس کُن خاموشی چھاگئی اور پھر
رات کے دس بجتے بجتے ضلع میں انٹرنیٹ کی سروس منقطع کردی گئی تھی اور ہم فون کے بغیر ایکدوسرے کے ساتھ رابطے میں نہ رہ سکے۔میں نے کئی دوستوں کو فون کیا جوپہلے ہی گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نکل چکے تھے۔ایسے میں ہم اچھے کیلئے فقط اُمیدیں اور دعائیں کرتے رہے۔کچھ دیر بعد میرے چچازاد کی خوشی اور حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا کہ جب اُسے پتہ چلا کہ اُسکا انٹرنیٹ چالو ہے،میں نے وائی فائی کے ذرئعہ اُس سے کنکشن لیا اور اپنے دوستوں کیلئے پیغامات لکھنے کی کوشش کرنے لگا ….میں مگر ناکام رہا۔مجھے پتہ چلا کہ اُن میں سے کوئی بھی آن لائن نہیں ہے الا ایک کے کہ جس نے خبر معلوم کرنے کیلئے مجھے مسیج بھیجا ہوا تھا۔میں نے اُسے خوشی سے بتادیا کہ فائرنگ ایک گھنٹہ قبل رُک چکی ہے،جس پر اُس نے بھی بڑی خوشی کا اظہار کیا۔
اب رات کے قریب پونے گیارہ بج رہے تھے،میں بستر میں آگیا تھاکہ اسی دوران اچانک مشین گنوں کے دہانے دوبارہ کھول دئے گئے۔یوں گولیاں برسنے لگیں کہ جیسے موسلادھار بارشیں برس رہی ہوں۔میں کمرے کے ایک کونے میں اوندھے منھ لیٹ گیا۔میں نے جلد ہی احساس کیا کہ یہ محض اُکسانے کیلئے کی جانے والی فائرنگ نہیں ہے۔فائرنگ کئی منٹوں تک جاری رہی،پھر کچھ دیر کیلئے ایک مایوس کُن خاموشی چھاگئی اور پھر دوبارہ گولیاں چلنے لگیں۔میں نے ایک دھماکے کی آواز بھی سُنی لیکن کسی بارودی سرنگ کے پھٹنے کا نہیں۔وہ شائد کوئی گولہ یا گرنیڈ تھا،اسکے بعد کچھ نہیں ہوا۔اگلے آدھے گھنٹے کیلئے ایسا لگا کہ جیسے ہر چیز نے حرکت چھوڑ دی ہو،ہر جانب ایک بے چین کرنے والی خاموشیچھا گئی….اب کُتوں نے بھی بھونکنا بند کردی تھا اور ہم نہ جانے کیا کیا سوچنے لگ گئے۔میں نے آن لائن موجود واحد دوست کو مسیج کیا اور اُس نے کہا کہ وہ بھی مشین گنوں کی آواز سُن رہے ہیں۔وہ دھماکہ بھی سُن چکے تھے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا یہ بارودی سرنگ کا دھماکہ تھا حالانکہ میں خود یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔کچھ دیر بعد انہی دوست نے مجھے اُس خبر کی لنک بھیجدی جس میں فقط دس دن پہلے باغی ہوئے لڑکے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔کسی دوسرے اخبار نے دو باغیوں کے مارے جانے کی خبر دی تھی۔یہ فقط صؓھ ہونے پر ہی واضح ہوسکا کہ فوج نے فقط ایک باغی کو مار گرایا تھا جبکہ دوسے شخص ایک عام شہری تھے۔وہ کب اور کس طرح مارے گئے تھے،ابھی تک بھی واضھ نہیں ہو سکا ہے تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ جب کسی اینکاونٹر کہ جگہ کسی عام شہری کو ماردیا گیا ہو۔
میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ کیا یہ بھی اُس، جانب کہ جو ہم چاہتے ہیں،ایک خالی قدم ہے یا پھر یاور ہمارے ایک اور آئکن ہیں….آزادی کشمیر کے خواب کے راستے کے ایک اور ہیرو۔
یہ رات کسی ڈراونے خواب کی طرح تھی جو مگر سچ ثابت ہوا،میں پوری رات سو نہیں سکا ….شائد کسی آوارہ گولی کا شکار ہوکر مارے جانے کے ڈر سے یا شائد اس خواہش میں کہ محصور باغی کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں۔لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا تھا….یاور اس رات کے سب سے بڑے شکار تھے۔میں اُن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ہاں سماجی رابطے کے میڈیا پر اُنکے دوستوں اور مداحون کی جانب سے اُنکی تصاویر لگانے اور اپنے ایک دوست کے اسلام آباد کے عید گاہ میں کھیلے گئے ایک کرکٹ میچ کے بارے میں یاد دلانے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ میں شائد اس لڑکے کو جانتا ہوں،حالانکہ میں اب بھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔میری یاداشت بہت اچھے سے میرا ساتھ نہیں دے رہی ہے،لیکن ہاں یہی ایک وجہ نہیں ہے کہ جو مجھے اُن کی شہادت کی رات سے بار بار اُنکے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے!!!۔
میرے لئے حیران کن یہ حقیقت ہے کہ جب وہ گولیوں کے نشانے پر تھے اور جوابی کارروائی کرنے کی حالت میں بھی نہیں تھے(ایک گولی شائد پہلے ہی اُنکے کندھے کو چیرتی ہوئی نکل چکی تھی)اور جانتے تھے کہ سرنڈر نہ کیا تو وہ جلد ہی مارے جائیں گے….اُنہوں نے لڑتے رہنے اور ایک شہید کی موت مرنے کا انتخاب کیا۔سرنڈریقیناََ اُنہیں منظور نہیں تھا۔زندگی کے آخری اُن لمحات میں
اُنہوں نے ہمیں بہت کچھ دیا جس پر ہم غور کریں۔اُنہوں نے کسی بڑے یا چھوٹے گھر میں پناہ نہیں لی بلکہ وہ ہر جانب سے مکانوں سے دورایک بیت الخلائمیں مورچہ زن ہوگئے تھے۔اُس چھوٹے سے بند کمرے میں یاور نے اپنے خواب کے بارے میں ضرور سوچا ہوگا….ایک آزاد اسلامی کشمیر کے خواب کے بارے میں۔اُنہوں نے اپنے خواب کو پورا کرنے کیلئے وہ سب کیا جو وہ کرسکتے تھے،یہاں تک کہ اُنہوں نے جنت نشین ہونے سے قبل اسکے لئے اپنا خون بھی بہایا۔میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ کیا یہ بھی اُس، جانب کہ جو ہم چاہتے ہیں،ایک خالی قدم ہے یا پھر یاور ہمارے ایک اور آئکن ہیں….آزادی کشمیر کے خواب کے راستے کے ایک اور ہیرو۔
یاور….پیارے بھائی آپ کو یاد رکھا جائے گا….آپ کی بے غرضی کیلئے ،وفاداری کیلئے اور سب سے بڑھکر آپ کی بہت بڑی قربانی کیلئے۔آپ سبز پرندوں کے دلوں میں ہو….انشاءاللہ!!!
مصنف علی گڈھ مُسلم یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹکل سائنس میں پوسٹ گریجویشن کے طالبِ علم ہیں۔ تحریر ہذاانگریزی میں لکھی ہوئی اُنکی چشم دید کہانی کا ترجمہ ہے جو” اوریکل اوپینینز“ نامی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی۔تفصیلات نے اسے دلچسپ پاکر اپنے قارئین کیلئے اسکا ،محمد عمر اور’ اوریکل اوپینینز“کے شکریہ کے ساتھ اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔