یورپ، بالخصوص برطانیہ، میں دہشتگردانہ حملوں کے بعداب یہ احساس شدت سے بڑھ گیاہے کہ ”وارآن ٹیرر”کے نام پرامریکی جنگ میں شمولیت نے ان کے اپنے ممالک کی سلامتی کیلئے کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں اوریورپی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ ہمارے تحفظ کیلئے نہیں بلکہ امریکاکے اپنے مفادات کی حصول کی جنگ ہے جس کی بھاری قیمت یورپ کوچکانی پڑرہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب یورپی ممالک کے درمیان افغانستان میں امریکی اورنیٹو کے کمانڈروں کی جانب سے افواج میں اضافے کے حوالے سے پھوٹ پڑگئی ہے۔امریکانے یورپ سے نیٹومیں اپنے حصے کے پیسے افغانستان میں خرچ کرنے پرزوردیاہے کہ جبکہ یورپی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امریکاکی جنگ میں اپنے ہزاروں فوجیوں کوگنوا دیا ہے جبکہ اس کے جواب میں شدت پسندی کی جنگ اب ان کے اپنے گھروں میں پہنچ گئی ہے،اس لئے یورپ کواس جنگ سے فائدے کی بجائے الٹا بھاری جانی ومالی نقصان برداشت کرناپڑرہا ہے۔
یورپی یونین،نیٹواورامریکاکے درمیان افغانستان میں فوج کے اضافے اورتعیناتی پراس وقت شدیداختلافات پیداہوگئے ہیں جب امریکاکے فوجی جنرل نکلسن نے امریکااورنیٹو سے مزیدافواج کامطالبہ کیاجبکہ افغانستان میں یورپی کمانڈرنے جنگ کی بجائے ٹریننگ کیلئے فوجی مشیروں کی تعیناتی کی حامی بھری جس پردونوں جانب سے اختلافات سامنے آئے ہیں۔ امریکاچاہتاہے کہ وہ طالبان کے خلاف فوج میں اضافہ کرکے اورسخت شدید کاروائی کرکے طالبان کواپنی شرائط پر مذاکرات پرمجبور کرے جبکہ یورپی حکام کاکہناہے کہ بڑے پیمانے پرافغان فوج کی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود افغانستان میں لڑائی کیلئے تیارہو جائے اوریورپ اورامریکی افواج ملک سے چلی جائیں۔نیٹومیں شامل ترکی کے حکام نے صرف فوجی مشیروں کے علاوہ لڑاکادستے دینے سے صاف انکارکر دیا ہے جبکہ امریکانے نیٹوسے مایوس ہوکرآسٹریلیاسے فوج طلب کی ہے اوراس غیرنیٹو ممبر نے صرف تیس فوجی دینے پررضامندی ظاہرکی ہے۔
اس سے قبل افغان جنگ میں تقریباًسات ہزارآسٹریلین فوجیوں نے خدمات سرانجام دی ہیں جس میں پندرہ سو کے قریب فوجی مارے گئے۔ آسٹریلیا کی جانب سے ان فوجی مشیروں کی تعیناتی کے اعلان نے ایک طرف افغان دفاعی اہلکاروں کو انتہائی مایوس کیاہے تودوسری جانب امریکی فوجی جنرل بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ جون کامہینہ شروع ہوگیاہے لیکن اضافی فوج کی تعیناتی فی الحال شروع نہیں ہوسکی جبکہ دوسری جانب طالبان آئے روزمسلسل حملوں میں اضافہ کررہے ہیں اورکئی اضلاع پرقبضوں کے بعدانہوں نے جنگ کوشمال سے مشرق کی طرف پھیلادیاہے، جنوب اورجنوب مشرقی افغانستان میں کئی نئے محاذکھل گئے ہیں۔یورپی ممالک اپنے گھرکے اندرشدت پسندی سے نہ صرف گھبرائے ہوئے ہیں بلکہ وہ افغانستان میں مزیدفوجیوں کوتعینات کرکے اپنے لئے خطرات بڑھانانہیں چاہتے۔یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ افغانستان کے اندرامریکی اوریورپی کمانڈروں کے درمیان شدیداختلافات نے جنم لے لیاہے۔
یورپی حکام نے کابل میں افغان اورامریکی حکام پرواضح کردیاہے کہ نیٹومیں شامل ممالک مزیدفوجیوں کی تعیناتی کیلئے تیارنہیں کیونکہ امریکی فوج کی جانب سے تیارکردہ منصوبے کے تحت مشن مکمل ہونے کاکوئی وقت نہیں دیاگیا ہے جس کی وجہ سے فوجیوں کی تعیناتی پرمختلف ممالک کے وزارتِ دفاع مطمئن نظرنہیں آرہے۔امریکاافغانستان کے حوالے سے اگرمشن مکمل ہونے کا یقینی ٹائم ٹیبل دیتاہے تویورپی ممالک مزیدلڑاکافوجی تعینات کرنے اور آپریشن میں حصہ لینے پرتیارہیں تاہم نامعلوم مدت تک کیلئے آپریشنل مشن کیلئے نیٹو اپنے فوجی دینے کیلئے قطعاًتیارنہیں۔
امریکاکی جانب سے نیٹوافواج کے اخراجات برداشت نہ کرنابھی فوج کی تعیناتی میں ایک اہم رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔پہلے نیٹوافواج کی تعیناتی کے اخراجات امریکابرداشت کرتاتھا اورفوج کی تنخواہ صرف متعلقہ ممالک اداکرتے تھے جو اب بھی وہی اداکرتے ہیں تاہم ان کی خوراک،لاجسٹک ،ان کی بکتربندگاڑیاں، فوجی سازوسامان امریکاہی مہیاکرتاتھالیکن امریکاکی نئی انتظامیہ نے یورپ کو اپنی فوج کوسازوسامان،لاجسٹک سپورٹ،خوراک اورادویات کی فراہمی کابھی کہاہے،چونکہ پاکستان اوریورپی ممالک اورنیٹوکے درمیان کوئی لاجسٹک معاہدہ نہیں ہے اس لئے افغانستان میں نیٹوافواج کی تعیناتی کیلئے ان ممالک کی جانب سے لاجسٹک اوردیگرضروریات پاکستان کے راستے بجھوانے سے بڑی مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت معاہدے موجودہیں اوران معاہدوں کے تحت پاکستان کو سیکورٹی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کی وجہ سے امداد ملتی رہی جس کاایک خاصہ حصہ ابھی تک امریکا نے روک رکھا ہے لیکن یورپی ممالک اورنیٹوکے ساتھ اس طرح کاکوئی معاہدہ بھی نہیںہے اورموجودہ پاکستانی حکومت تو اب ایساکوئی معاہدہ کرنے کی بھی ہرگزپوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ اب پاکستان میں انتخابات کوبھی بہت کم وقت رہ گیاہے اوردوسرا نوازحکومت ان دنوں پاناماکیس میں بھی بری طرح الجھی ہوئی ہے جبکہ پاکستان کے اندرجودہشتگردی نے تباہی مچائی ہوئی تھی ،پاکستانی فوج نے اس کوبے شمارجانی قربانیوں کے بعدقابومیں کیاہے جبکہ امریکااورنیٹونے پاکستان سے کئے گئے وعدے بھی پورے نہیں کئے اور پاکستان کی قربانیوں کی یہ صلہ دیاگیاکہ امریکانے فوری طورپرپاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیرکرپاکستان کے ازلی دشمن کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا لی ہیں،اس لئے ان حالات میں پاکستان کیلئے نیٹواورامریکاکولاجسٹک سپورٹ فراہم کرنانہ صرف مشکل بلکہ ناممکن نظرآتاہے۔
امریکانے نیٹوکی مذکورہ مشکلات اوراختلافات کودیکھ کرنان نیٹوممبرملک جس میں آسٹریلیا اوردیگرممالک شامل ہیں ،سے فوجی طلب کئے ہیں لیکن آسٹریلیاکی جانب سے صرف تیس فوجی مشیرتعینات کرنے کوجواعلان ہواہے ،وہ نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ امریکاکوانتہائی مایوسی اوراس کی توقع کے برخلاف ہے جبکہ دیگرممالک نے افغانستان میں ابھی تک فوج کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ جرمنی نے برملااعلان کیاہے کہ ہمیں امریکااور برطانیہ پراعتمادنہیں،افغانستان،عراق اورشام کے حوالے سے اپنی پالیسیاں خودمرتب کرناہوں گی اورماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بھی روس اورچین کے ساتھ کام کرناہوگا۔ اس اعلان سے افغانستان میں فوج میں اضافے کے حوالے سے دو ممالک کی جانب سے تعیناتی عمل میں آسکتی ہے،ایک امریکااور دوسرابرطانیہ۔اس وقت نیٹو کمانڈروں نے پانچ ہزارلڑاکافوجیوں کی تعیناتی کا مطالبہ کیاہے۔ برطانیہ میں انتخابات میں دوبارہ تھریسامے مخلوط حکومت بنانے جارہی ہیں اورتوقع کی جارہی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے مزیدفوجیوں کی تعیناتی کااعلان کرسکتی ہیں۔
دوسری جانب طالبان نے مزیدفوجیوں کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے ردّ ِعمل میں کہاہے کہ امریکاجتنے زیادہ فوجی تعینات کرے گا،اتنے ہی زیادہ نقصانات اٹھائے گا۔افغان طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیاہے کہ نیٹوکے پانچ ہزارفوجی جنوبی افغانستان، جنوب مشرقی افغانستان،شمالی افغانستان اورمشرقی افغانستان کہاں کہاں تعینات ہوں گے کیونکہ ایک لاکھ ۶۵ہزارفوجی اپنے جدید ترین اسلحے اور جنگی جہازوں کی بمباری کے ساتھ ہمیں شکست نہ دے سکے توپانچ ہزارفوجی اس وقت طالبان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے اوراس بارزیادہ سے زیادہ نقصان انہیں ہی اٹھاناپڑے گا کیونکہ طالبان کے پاس نہ صرف اب زیادہ علاقے ہیں بلکہ جدیدوسائل اورجنگجو بھی وافر تعدادمیں موجودہیں۔
ادھرخلیجی ممالک کے درمیان محاذآرائی سے فائڈہ اٹھانے کیلئے شمالی اتحادکے عبداللہ عبداللہ اوروزیرخارجہ صلاح الدین ربانی نے یورپی ممالک اور سعودی عرب سمیت دوسرے اہم چھ عرب ممالک کے سفیروں سے ملاقات میں مطالبہ کیا کہ القاعدہ نے افغان طالبان کے امیرکی بیعت کی ہے اس لئے طالبان کوبھی مطلوبہ دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا جائے تاکہ وہ مذاکرات پرآمادہ ہو سکیں جبکہ قطرمیں کیوباسے آنے والے افغان رہنماؤں کوبھی نکال باہرکیاجائے تاہم سعودی عرب اورامریکانے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ افغان طالبان کاایک ہی دفترہے اوراگر اسے بندکرکے قطر سے نکال دیاگیاتوتوپھرمستقبل میں امریکا،یورپی یونین اورعرب ممالک کوطالبان کے ساتھ مذاکرات میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔دوسری جانب افغان طالبان نے غیراعلانیہ طورپرقطرکی حمائت میں اس کی معاشی ناکہ بندی کوخلافِ شرع قراردیتے ہوئے تمام علماء کے نام اور فتاویٰ کی فہرست میڈیامیں جاری کردی ہے۔طالبان کامزیدکہناہے کہ امریکا اسلامی دنیاکی دولت اوروسائل پرقبضہ کرنے کیلئے مسلم ممالک کوآپس میں لڑاکروہاں بحران پیدا کرکے افغانستان و عراق میں اپنی شکست کابدلہ لیناچاہتا ہے لیکن طالبان امریکاکوافغانستان میں ایسی بدترین شکست سے دوچارکرے گاکہ امریکا دوبارہ اس خطے میں آنے سے قبل سومرتبہ سوچے گا۔