امریکہ میں کئی حکومتیں بدلیں لیکن سالہا سال سے امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے کشمیر کے بارے میں روائیتی طور پر یہی جملہ دہرایا جاتا تھا کہ ” کشمیر کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے،امریکہ اور پاکستان سے کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ باہمی طور پر حل کی جائے،تاہم اگر دونوں ملک رضامند ہوں تو امریکہ اس دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی پر تیار ہے”۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی بدلتی پالیسی میں بھی امریکہ کی نظر میں مسئلہ کشمیر کی انفرادیت قائم رہی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی اپنی انتہا پسندانہ پالیسیاں ظاہر کر دی تھیں ،جن پر عملدرآمد ان کی خواہش کے برعکس سست روی سے ہو رہا ہے۔ وزارت خارجہ کا یہ بیان امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر سامنے آیا ہے۔کشمیر ویلی کے مقامی فریڈم فائٹرز کی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ اور ان کی تنظیم کو ستائیس سال بعد،عالمی دہشت گرد شخصیت،تنظیم نامزد کرنے کے ساتھ ہی امریکہ نے اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے بھارتی زیر انتظام کشمیر ( جسے بھارتی زیر بد انتظام کہنا مناسب ہو گا)میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں،چارٹر کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل سے بھارت کے انکار اور کشمیریوں کے سیاسی مطالبے کو مسلح سرکاری فورسز کے ظالمانہ استعمال سے دبانے کے جواب میں آزادی کی مسلح جدوجہد امریکہ کی نظر میں دہشت گردی قرار دینے کے مترادف ہے،ساتھ ہی امریکہ تنازعہ کشمیر کی حقیقت کا بھی اعتراف کر رہا ہے۔یوں امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کا یہ بیان امریکی پالیسی کے تضادات کو بھی ظاہر کر رہا ہے۔ امریکہ نے اپنے اسی بیان میں تنازعہ کشمیر کی حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کی امریکی حمایت بھی اسی بیان میں واضح ہے۔ یہ بات عمومی طور پر کہی جا رہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے عالمی دہشت گرد قرار دینے کا یہ اعلان بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کورجھانے کے لئے ایک تحفہ ہے تاکہ بھارت امریکہ سے بڑی تعداد میں اسلحہ خریدنے پر رضامند ہو سکے۔ یقینا امریکہ پالیسیاں سوچ سمجھ کر بناتا ہے لیکن اس کے اس طرح کے فیصلوں میں اس طرح کے تضادات نہیں ہوتے جو کشمیر سے متعلق اس امریکی فیصلے کے متن میں ہی نمایاں ہیں۔پابندی کے متن کے الفاظ یہ امکانات بھی ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ تنازعہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے حوالے سے اپنے مفادات کے ایک ” ٹول” کے طور پر استعمال کرنے کی آزمودہ حکمت عملی بھی اختیار کر سکتا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری ایک بیان میں26جون کو کہا گیا کہ” محمد یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین کو ایگزیکٹیو آڈر (ای او)13224کے تحت سیکشن1(b)کی رو سے سپیشل ڈیزگنیٹڈ گلوبل ٹیررسٹ نامزد کیا ہے،جو غیر ملکی باشندوں پر ،جنہوں نے دہشت گردی کی ہو یا ایسا کرنے کا تاثر دیں،دہشت گردی کے افعال جو ،امریکی باشندوں یا امریکہ کی قومی سلامتی ،فارن پالیسی یا امریکی معیشت کے لئے خطرہ ہو۔دہشت گرد نامزد کرنے کے نتائج کے طور پر ،امریکی افراد پر عمومی طور پر پابندی ہے اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی ٹرانزیکشن کرنے کی ، اورصلاح الدین کے امریکہ میں موجود تمام مفادات اور جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔محمد یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین عسکری گروپ حزب المجاہدین (ایچ ایم) کا سینئر لیڈر ہے۔ستمبر 2016ئ میں صلاح الدین نے کشمیر تنازعہ کے پرامن کو روکنے کی بات کی ،مزید کشمیری خود کش بمبار تیار کرنے کی دھمکی دی اور کشمیر ویلی کو بھارتی فورسز کا قبرستان بنانے کی بات کی۔صلاح الدین کے’ ایچ ایم ‘کے سنیئر لیڈر ہوتے ہوئے ‘ایچ ایم’ نے بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں اپریل 2014ئ میںدھماکوں کے حملوں،جس میں 17افراد ہلاک ہوئے، سمیت کئی حملوںکی ذمہ داری قبول کی۔آج کی کارروائی امریکی عوام اور بین الاقوامی برادری کو بتاتی ہے کہ محمد یوسف شاہ،المعروف سید صلاح الدین نے دہشت گردی کی کارروائیوں کا ارتکاب کرنے کا ایک اہم خطرہ انجام دیا ہے،دہشت گردی کے افراد اور گروہوں کے عہدوں کو تنظیموں اور افراد کو بے نقاب اور الگ الگ کرنا، اور امریکی مالیاتی نظام تک رسائی سے انکار کرنے کا نتیجہ ہے،اس کے علاوہ، نمائش دیگر ممالک کے قانون نافذ کرنے والے عملوں کی مدد یا مکمل کر سکتے ہیں”۔
سیدمحمد یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین ،جنہیں ان کے چاہنے والے پیر صاحب بھی کہتے ہیں،1987میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں آزادی پسندجماعتوں کے مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ اس وقت الیکشن مہم میں یاسین ملک اور بعد میں کمانڈر ،رہنما بننے والے کئی نوجوان سیدمحمد یوسف شاہ کے باڈی گارڈ تھے۔یاسین ملک بارہ بور بندوق کے ساتھ سیدمحمد یوسف شاہ کے محافظین میں شامل رہے۔ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے سیدمحمد یوسف شاہ ایک روحانی شخصیت بھی ہیں۔مسلم متحدہ محاذ اس عزم کے ساتھ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے رہا تھا کہ اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے بھارت سے الحاق کو مسترد کرنے کی قرار داد منظور کی جائے گی۔حسب روایت بھارتی حکومت کے کنٹرولڈ انتخابی ڈرامے میں مسلم متحدہ محاذ کے امیدوارں کو شکست یافتہ ظاہر کیا گیا،حالانکہ اس وقت بھی آج کی طرح مقبوضہ کشمیر کے عوام عزم آزادی کے پلیٹ فارم پر متحد تھے۔بھارتی ہٹ دھرمی پر کشمیریوں کے احتجاجی مظاہروں میںشدت آتی گئی اور پھر کشمیری نوجوانوں نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں،چارٹر کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے مطالبے کے ساتھ بھارت کی فوجی طاقت کے خلاف آزادی کی مسلح جدوجہد شروع کر دی۔1988 سے اب تک کشمیریوں کی مسلح اور سیاسی جدوجہد کے کئی مرحلے گزرے،مسلح جدوجہد سے کئی افراد سیاسی جدوجہد کے شعبے میں آئے لیکن سید محمد یوسف شاہ ، سید صلاح الدین وہ واحد نمایاں سیاسی رہنما ہیں جو سیاسی شعبے سے آزادی کی مسلح جدوجہد کے شعبے میں آئے۔
امریکہ کی طرف سے بھارت کو ناجائز طور پر خوش کرنے کے اس اقدام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ کی طرف سے کشمیریوں کی سب سے بڑی مقامی فریڈم فائٹرز مسلح تنظیم اور اس کے سربراہ کو دہشت گرد نامزد کرنے سے مسئلہ کشمیر کی سنگینی،مقبوضہ کشمیر میں ابتر جنگی صورتحال،کشمیریوں کے خلاف وسیع اور ہمہ گیر پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور اس مسئلے کے حل کی ضرورت بھی دنیا کے سامنے آئی ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے واشنگٹن کے حالیہ دورے کے دوران صدر ٹرمپ سے ملاقات،جاری مشترکہ بیان،امریکہ اور بھارت کی قریبی شراکت داری بھارت اور پیسفک کے لئے اہم ہونے کے اعلان ،افغانستان میں بھارتی کردار کے امریکی خیر مقدم،دہشت گردی سے متعلق پاکستان پر دباﺅ ، امریکہ کی طرف سے پاکستان کے زیر اہتمام عسکریت پسند رہنما صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قراردینے کے سوال کے جواب میں محتاط روئیے اور الفاظ کا استعمال کیا،تاہم پاکستان کے حوالے سے چینی ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بہت کچھ کیا ہے اور وہ اس میں پیش پیش ہے،بین لاقوامی برادی دہشت گردی کے خلاف تعان کو فروغ دے اوراس سلسلے مین پاکستان کی کوششوں کو بھی مکمل طور پر تسلیم کیا جائے۔انہی دنوں چین اور بھارت کے درمیان سکم علاقے میں فوجی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور چین کی وزارت خارجہ نے اس متعلق کئی سخت بیان بھی جاری کئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر ،آزاد کشمیر اور پاکستان میں،وسیع پیمانے پر امریکہ کے اس فیصلے کو غیر منصفانہ، مظلوم کشمیریوں سے زیادتی اور بھارت کو خوش کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہاہے۔ان پاکستانی اور کشمیری حلقوں کو امریکہ کے اس فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے جو مسئلہ کشمیر کے پرامن،منصفانہ حل کے لئے امریکہ کی پس پردہ اور ظاہری کوششوں سے امیدیں وابستہ کئے چلے آ رہے ہیں۔متنازعہ ریاست کشمیر کے عوام،مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کے مطالبہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں،کشمیر کے انسانی حقوق کے نمائندوں،اہل قلم،صحافیوں،تاجروں ،کشمیر کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے سید محمد یوسف شاہ،سید صلاح الدین،لمعروف پیر صاحب کو کشمیری فریڈم فائٹر قرار دیا ہے۔امریکہ کی طرف سے بھارت کو ناجائز طور پر خوش کرنے کے اس اقدام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ کی طرف سے کشمیریوں کی سب سے بڑی مقامی فریڈم فائٹرز مسلح تنظیم اور اس کے سربراہ کو دہشت گرد نامزد کرنے سے مسئلہ کشمیر کی سنگینی،مقبوضہ کشمیر میں ابتر جنگی صورتحال،کشمیریوں کے خلاف وسیع اور ہمہ گیر پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور اس مسئلے کے حل کی ضرورت بھی دنیا کے سامنے آئی ہے۔یعنی مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر نمایاں ہوا ہے۔اب تک بھارت کو شاید اس بات کا احساس نہیں کہ امریکہ کے اس فیصلے سے مسئلہ کشمیر کے حل میں عالمی سرگرمیوں اور بین الاقوامی برادری کی توجہ میں اضافہ ہوگا۔یوں بھارتی حکومت کی یہ دیرینہ کوشش ناکامی سے ہمکنار ہورہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل بھارت اور پاکستان کے مزاکرات پر اور مزاکرات شروع ہونا بھارت پر چھوڑ دیا جائے۔کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ٹالتے رہنا تو ممکن کر دکھایا گیا ہے لیکن تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اقوا م متحدہ کے چارٹر سے رو گردانی امریکہ کے لئے بھی منافع بخش نہیں ہو سکتا۔
پرویز مشرف کے دور اقتدار میں مسئلہ کشمیر پر بھارت کو جس طرح رعائتیں دی گئیں،بھارت کو مقبوضہ کشمیر پر اپنا فوجی قبضہ مضبوط بنانے کا موقع فراہم کیا گیا اور جس طرح تحریک آزادی کشمیر کی مدد و حمایت کو کمترین سطح پر لاتے ہوئے کشمیر کاز پر پسپائی اختیار کی گئی،آج پسپائی کی وہی آخری حدیں پاکستان کے لئے فرنٹ لائین کے چیلنج کے طور پر درپیش ہیں۔امریکہ کی طرف سے بھارت کو خطے میں چین کے مقابلے پر تیار کرنے کے اقدامات سے جنوبی ایشیا پر جنگ و جدل کے خطرات حاوی ہونے میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان نے اس بات پرتشویش کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی اور مہلک ہتھیار و ں کی فراہمی سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ رہا ہے۔پاکستان کو ” ڈو مور” کی دھمکیوں سے کھائی کے کنارے لا کھڑا کرنے کی کوشش کافرما نظر آ رہی ہے،پاکستان وکشمیر دشمن قوتوں کی تمنا ہے کہ پاکستان کو” ڈو مور،ڈومور” کے مطالبے سے پیچھے سے پیچھے دھکیلتے ہوئے گہری کھائی میں گرا دیا جائے اور پھر ایک بار کہا جائے کہ ” ڈو مور”۔اب آخری وقت ہے کہ پاکستان درپیش خطرات کو دیکھتے ہوئے ہر سطح پر اپنی تیاریاں مکمل کرنے پر توجہ دے،کشمیر کا ز اور دوسرے اہم قومی مفادات پر چین کی طرح سختی سے سٹینڈ لیا جائے، اس کے لئے پاکستان کو اپنی پالیسیوں کو تبدیل اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر پاکستان کو کشمیر کاز کی حمایت سے متعلق امور کی صورتحال بہتر بنانے پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرور ت کے طور پر درپیش ہے۔جنوبی ایشیائی خطے میں اقتصادیات اور جنگی طاقت کے غلبے کی کشمکش تیز ہو رہی ہے،اس نئے تناظر میں پاکستان کو اپنی سلامتی اور بقاء سے مربوط امور پر کمپرومائیز کرنے سے گریز کو یقینی بنانا ہو گا۔وسیع تر قومی مفادات کی حفاظت کے لئے ہمارے” ہوم ورک” میں کرنے کو بہت سے،بلکہ اکثر کام ابھی باقی ہیں۔
اطہر مسعود پاکستانی زیرَ انتظام کشمیر میں مقیم نامور صحافی اور کالم نویس ہیں۔ تفصیلات کا انکے خیالات کے ساتھ کلی یا جزوی طور متفق ہونا لازمی نہیں ہے۔