کشمیر….ایک خاموش مفاہمت کیوں نہ ہو؟

جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع میںعسکریت پسندوں کے حملے میں 6پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد بے قابو ہندوستانی میڈیا گمراہ کن پروپگنڈہ کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہے کہ جیسے پورے کشمیر میں ان ہلاکتوں کے بعد جشن منایا جا رہا ہے ۔ٹی وہ اسٹیڈیوز میں بیٹھے خود ساختہ دفاعی تجزیہ نگاہ، سیاسی ماہرین اور کشمیریوں کے تئیں متعصب دیگرلوگ ہر بار نہ صرف کشمیریوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ ایسے ڈرامہ اسٹیج کر لیتے ہیں کہ جیسے کشمیر میں کسی وردی پوش اہلکار کی ہلاکت کے بعد ان تعصب پرستوں کا پورا خاندان سکتے میں آ گیا ہو۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ مردہ ضمیر لوگ ہر بار کشمیریوں سے ہی سوال کرتے ہیں کہ وہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی مذمت کیوں نہیں کرتے ہیں ۔

ان” دانشوروںاور دفاعی ماہرین “کا زورزور سے چِلّانا کبھی کبھار مضبوط دل کے مالک لوگوں کو بھی یہ سوچنے پرمجبور کرتا ہے کہ ہندوستان نہ مودی سے ہے اور نہ سونیاگاندھی سے بلکہ جو یہ مسخروں کا ٹولہ شام کوئی ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر طے کرے گا، صاحب ِاقتدار لوگوں کیلئے ہر حال میں اسکی تعمیل واجب ہے۔

خود کو لقمان ور بیربل سمجھنے والے یہ حضرات نہ صرف ہندوستانی عوام کو بیوقوف بنا کر ان کے جذبات کو کشمیر مخالف رُخ دینے کی کاوشوں میں بے شرمی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ ان لوگوں کی اجارہ داری کا یہ حال ہے کہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے پاس ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بچتا ہی نہیںہے۔ ان ”دانشوروںاور دفاعی ماہرین “کا زورزور سے چِلّاناتو کبھی کبھار مضبوط دل کے مالک لوگوں کو بھی یہ سوچنے پرمجبور کرتا ہے کہ ہندوستان نہ مودی سے ہے اور نہ سونیا گاندھی سے بلکہ جو یہ مسخروں کا ٹولہ شام کوئی ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر طے کرے گا صاحب ِاقتدار لوگوں کیلئے ہر حال میں اسکی تعمیل واجب ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی فوجیوں اور دیگر وردی پوشوں کے غم میں ڈوبنے کا تاثر دینے والے یہ لوگ زندگی میں کبھی کشمیر آئے بھی نہیں ہیںاور ایک طرف فوجیوں اور پولیس والوںکی ہلاکت کے غم میں مگر مچھ کے آنسو تو بہاتے ہیں لیکن دوسری طرف اسٹیڈیوز میں ایسے سج سنور کر آتے ہیں کہ جیسے یہ لاشوں پر مباحثہ کرنے نہیں بلکہ کسی بارات میں آئے ہوتے ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی ملک میں شائد میڈیا سیاسی قیادت اور دیگر اداروں پر اسقدر حاوی نہیں ہوگا جسقدر ہندوستانی میڈیا نے تمام دیگر اداروں اور افراد کو اپنے تابع کر رکھا ہے ۔

جس دن چھ پولیس اہلکاراپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اس دن تین عسکریت پسند اور دو عام شہری بھی تومرے تھے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں پورے ہندوستان میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر واویلا کرکے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ جیسے ان کی ساری رشتہ داریا ں ہندوستان میں تھیں اور یہ کشمیر کے نہیں بلکہ ہندوستان کے شہری تھے وہاں تین عسکریت پسندوں کے مارے جانے پر شرمناک حد تک جشن منایا جا رہا تھا۔

اہل ِکشمیر کا اس بات کو لیکر، کہ نئی دلی اِنکے زخموں پر نمک پاشی کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کر رہی ہے،غصہ جائز ہے ۔ لگتا ہے کہ نئی دلی کی کوئی بے حد طاقتور لابی کشمیریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے یہاں خانہ جنگی کا ماحول کھڑا کرنا چاہتی ہے ۔ عجیب المیہ ہے کہ نئی دلی اور اس کے گماشتے صرف ان ہلاکتوں پر واویلا مچاتے ہیں جہاں ہلاکتوں میں عسکریت پسند شامل ہوں۔ جس دن چھ پولیس اہلکاراپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اس دن تین عسکریت پسند اور دو عام شہری بھی تومرے تھے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں پورے ہندوستان میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر واویلا کرکے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ جیسے ان کی ساری رشتہ داریا ں ہندوستان میں تھیں اور یہ کشمیر کے نہیں بلکہ ہندوستان کے شہری تھے وہاں تین عسکریت پسندوں کے مارے جانے پر شرمناک حد تک جشن منایا جا رہا تھا۔اتنا ہی نہیں بلکہ 14سالہ محمد احسان کے ظالمانہ اور سفاکانہ قتل پر کسی کے منہ سے ایک بھی لفظ نہیں نکل رہا تھا۔حالانکہ کوئی بھی مہذب سماج انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر ہرگز جشن نہیں منا سکتا۔

نئی دلی کو اس ہمالیائی حقیقت کا اعتراف کرنے میں بڑی تکلیف ہو رہی ہے کہ عسکریت پسندا نہ کوئی پیشہ ورانہ مجرم ہیں اور نہ بیروزگار نوجوان یا انسانی خون کے پیاسے لوگ بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی شدید خواہش رکھنے والے یہ نوجوان حالات کی پیچیدگیوں اور خودبھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ نہ جُنید متو، سبزار یا بُرہان کے والدین ا ور نہ ہی لیفٹننٹ عمر فیاض یا فیروز ڈارکے والدین کبھی یہ خواہش رکھتے ہونگے کہ ان کے گھروں میں ان کے بڑھاپے کے سہاروں کی لاشیں پہنچ جائیں ۔غیرت کا تقاضہ اور قانون قدرت ہر غمزدہ خاندان کواگر چہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حالات سے سمجھوتہ کرنے کا بہانہ فراہم کر سکتا ہے لیکن تعزیت پُرسی ، خراج ِعقیدت اور کسی کو ترنگے یا کسی اور جھنڈے میں لپیٹنے سے نہ تو کسی کی جان واپس آتی ہے اور نہ ہی سوگواروں کے زخم ہی بھر جاتے ہیں ۔

کشمیری قوم نہ صرف لاشیں اُٹھاتے اور تعزیت پُرسی کے علاوہ مذمتی بیانات اور تقاریر کرتے اور سنتے تھک چکی ہے بلکہ اب اس کے لئے تعزیت پُرسی اور مذمت کے الفاظ بے معنٰی ہو چکے ہیں ۔ وہ لوگ جو کشمیریوں پر 6پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر خاموشی کا الزام لگاتے ہیں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کشمیر یوں کی مذمت کیا ساری دنیا کی مذمت تب تک ہرگز کوئی معنٰی نہیں رکھتی جب تک نہ ان ہلاکتوں سے سبق سیکھ کر ہر فریق اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرکے مسائل کے دائمی حل کی خاطر جامع اقدامات اُٹھانے کی پہل نہ کرے ۔ خون خرابہ روکنے کی سب سے زیادہ خواہش کسی شک و شبہ کے بغیر ہر کشمیری کو ہی ہوگی بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کشمیری دائمی امن کیلئے ہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امن قائم کرنے کی چابی آخر کس کے پاس ہے،تاہم اس اہم سوال کا جواب ہر کسی کو معلوم ہے اور یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ کشمیریوں کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ محکوم بھی ہیں اور مظلوم بھی ، وہ چاہنے کے باوجود بھی ماراماری کے خونی کھیل کو روکنے کی پوزیشن میں تب تک نہیں ہےں جب تک نئی دلی حالات کی سنگینیت ، کشمیر مسئلہ کے حل کی اہمیت اور اپنی ذمہ داریوں کی نوعیت کا احساس نہ کرے ۔

خون خرابہ روکنے کی سب سے زیادہ خواہش کسی شک و شبہ کے بغیر ہر کشمیری کو ہی ہوگی بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کشمیری دائمی امن کیلئے ہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔

وردی پوش اہلکاروں کی ہلاکت کونئی دلی جسطرح اپنے کمزور اور غیر حقیقت پسندانہ موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے اور پھر ہندوستانی میڈیا سے لیکر ملک کے وزیر اعظم تک کشمیریوں کو مجرموں اور شرپسندوں کے طور پیش کرکے اشتعال انگیزی کو ہوا دے رہے ہیں اس کا لازمی نتیجہ وہی ہے جواب کشمیر کی گلیوں اور سڑکوں پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مقامی پولیس کے اہلکاروں کو یہ بات اب آہستہ آہستہ سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ لوگ جو انہیں اپنے ہی نہتے ہم وطنوں کے خلاف ظلم و زیادتیاں کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں کسی بھی طرح سے پولیس فورس کے ہمدرد نہیںہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ عام پولیس اہلکاروں کے دلوں کے اندر مسئلہ کشمیر کے د ائمی حل کی خواہش شدت کے ساتھ بڑھ رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ پولیس اہلکاروں کی غالب اکثریت مقامی ہونے کی وجہ سے اپنے دلوں کے اندر وہی جذبات رکھتی ہے جو کسی بھی مخلص اور سچے کشمیری کے ہیں لیکن وردی پوش اہلکاروں کے لئے یہ ہرگز ممکن نہیں کہ وہ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔

پولیس اہلکاروں کی غالب اکثریت مقامی ہونے کی وجہ سے اپنے دلوں کے اندر وہی جذبات رکھتی ہے جو کسی بھی مخلص اور سچے کشمیری کے ہیں لیکن وردی پوش اہلکاروں کے لئے یہ ہرگز ممکن نہیں کہ وہ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔

ہندوستانی دانشوروں، اپنے اعلیٰ افسروں اورٹی وی چینلوں کی طرف سے بدنیتی پر مبنی مکارانہ اور جھوٹی ہمدردی کے الفاظ سے مقتول پولیس اہلکاروں کی نہ تو زندگیاں واپس آ سکتی ہیں اور نہ ہی پولیس فورس کے تئیں خطرات اور غصہ کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ ایسے میں عجب نہیں کہ جس پولیس فورس کو دلی کے پالیسی ساز ادارے کشمیریوں کے خلاف ہر سطح پر اُکسانے کا کام کر رہے ہیں وہ مستقبل میں کسی بھی وقت نئی دلی کے خلاف بغاوت پر اُترآئے ۔ پولیس فورس میں ایسے جوانوں کی ہرگز کمی نہیں ہے کہ جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ انتہائی دیندار اور دیاتندار بھی۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کے لائق ہے کہ ایسا کوئی بھی عسکریت پسند ، حریت لیڈر یا عام آدمی ایسا نہیں ہوگا جس کے قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی نہ کوئی پولیس میں نوکری نہ کرتا ہو۔ ایسے تمام عوامل یہ پیش گوئی کرنے کیلئے کافی ہیں کہ وہ لوگ جو کشمیریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے ہندوستان کے لئے جوں کی توں پوزیشن برقرار رکھنے اور کشمیر مسئلہ سے فرار اختیار کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اپنے تمام عزائم اور منصوبوں کے پورا ہونے کا فقط خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔

رہی سہی کسر تو رام مادھو نے یہ کہکر پوری کردی کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ دراصل رام مادھو کا بیان صاف ظاہر کرتا ہے کہ ہر مشتبہ واقعہ کے پیچھے بلواسطہ یا بلاواسط نئی دلی اور اس کی ایجنسیوں کا کسی نہ کسی طرح ہاتھ شامل ہے ۔

آخر کشمیری قوم اتنی سادہ بھی نہیںکہ منوہر پاریکر سے لیکر جنرل راﺅت اور امت شاہ سے لیکر رام مادھوکے بیانات اور دھمکیوں کا صحیح صحیح تجزیہ نہ کر سکے ۔ منوہر پاریکر کا لوہے سے کاٹنے کی بات کرنا اور پھر جنرل راوت کا کشمیریوں کو عسکری جماعتوں کا OGWکہنا یہ سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ نئی دلی کس طرح ماراماری کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ رہی سہی کسر تو رام مادھو نے یہ کہکر پوری کردی کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ دراصل رام مادھو کا بیان صاف ظاہر کرتا ہے کہ ہر مشتبہ واقعہ کے پیچھے بلواسطہ یا بلاواسط نئی دلی اور اس کی ایجنسیوں کا کسی نہ کسی طرح ہاتھ شامل ہے ۔ یہ وقت عسکریت پسندوں ، مقامی پولیس فورس اور عام کشمیریوں کیلئے انفرادی اور اجتماعی محاسبہ کا ہے ۔ ہر ایک کو اپنے مد مقابل کی مجبوریوں ، ضرورتوں اور اہمیت کا صحیح صحیح اندازہ کرنا ہوگا ۔ مقامی پولیس کے جوانوں کو اپنے افسروں کی چودھراہٹ کی بجائے اپنے دل اور ضمیر کی آواز کو سمجھنا ہوگا۔ ایسے ماحول میں جب کشمیریوں کے تئیں نفرت رکھنے والے لوگ اپنے منصوبوں کو عملانے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہوں کشمیری دانشوروں اور عام لوگوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مداخلت کرکے نہ صرف عوامی مزاحمتی تحریک کو پٹری سے اُترنے سے بچائیں بلکہ تمام کشمیریوں کے درمیان ایک خاموش مفاہمت کیلئے ماحول تیار کریں ۔

Exit mobile version