یوں تو ساری عرب دنیا اب ایک زمانے سے مطلق العنان ڈکٹیٹروں کی پنجہ استبداد میں بری طرح جھکڑی ہوئی ہے کہ جہاں بادشاہِ وقت کے خلاف بولنا یا لکھنا ممنو ٹھہرا ہے تاہم اب اس طرح کی جرا¿ت غداری بلکہ دہشت گردی کے زمرے میں شامل کی گئی ہے ۔حالانکہ پوری عرب دنیا کو اپنی لونڈی بناچکے ان چند خاندانوں کے خلاف ویسے بھی کوئی بولنے کی جرات نہیں کرتا ہے لیکن اب حد یہ ہے کہ انہیں لوگوں کے اور جگہوں کے مسلمانوں کیلئے بولنے پر بھی احتراض ہے اور وہ اسے بھی دہشت گردی گرادننے پر آمادہ ہیں۔جیسا کہ قطر کے ساتھ ہوا ہے کہ جسے مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے کی سزا کے بطور دہشت گردی کا لیبل لگا کر عملاََ محصور کردیا گیا۔
عرب جو مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز ہے،آج ایک عجیب مطلق العنانیت کا شکار ہے۔یہاں سیاسی یا مذہبی تنظیم بنانے کی اجازت بالکل نہیں ہے نا ہی یہاں شاہی خاندانوں کے علاوہ کسی کو حکومت میں شامل ہونے کی کوئی صورت موجود ہے ۔اپنی خاندانی حکومتوں کے تحفظ کے لئے یہ کبھی تاریخ کا سہارا لیتے ہیں اور کبھی مذہب کا ۔یہ خلافت اسلامیہ کے بدترین دشمن ہو نے کے باوجود اپنی ڈکٹیٹرشپ کو اسلامی حکومت قرار دیتے ہیں ان خلفاءکی دینداری کا عالم یہ ہے کہ یہ ٹھیک سے سورہ فاتحہ تک نہیں پڑھ پاتے ہیں مگر کس کی مجال کہ انہیں یہ کہہ سکے کہ آپ کم سے کم اپنے ناموں کے ساتھ خلیفہ تو نا لکھو ۔کمال یہ کہ عرب علماء،دانشور اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں سڑائے جا رہے ہیں مگر عجمی لوگ ان بادشاہوں کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر نہ صرف تاریخ کو توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں بلکہ قرآن و حدیث کی بھی تحریف کر نے سے ذرا برابر نہیں جھجکتے ہیں ۔
اصل مسئلہ نہ شیعہ سنی ہے نہ عرب ایران اور نا ہی قطر یا اخوان بلکہ اصل مسئلہ امریکہ بہادرکی وہ شرمناک انسانیت کش پالیسی ہے جس کے نتیجے میں وہ پہلے خود مسلم ممالک کو برباد کرتا تھا اور اب اس نے یہ ٹاسک مسلم ممالک میں بیٹھے اقتدار پر قابض اپنے پٹھووں کو دیدیا ہے ۔اور وہ شاہ سے زیادہ وفاداری کے لئے کسی بھی حد پر جانے کو تیار ہےں ۔امریکہ نے صدام کو اکسا کر پہلے ایران پھر کویت پر حملہ کراکے دونوں صدام اور عراق کو فنا کر دیا ۔افغانستان کو ایک فرضی کہانی کی بنیاد پر روس سے بھی زیادہ نقصان پہنچادیا ۔
بہارِ عرب کے بعد جب تیونس اور مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت عوامی تائید سے وجود میں آئی تو عرب بادشاہ گھبراہٹ میں مبتلا ہو گئے کہ کہیں اس طرح کے حالات سارے عرب ممالک میں پیدا نا ہو جائے اس لئے کہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ عوام الناس کو انھوں نے مصر ی عوام ہی کی طرح خوف و دہشت سے دبائے رکھا ہے ۔اور انہیں یہ بھی معلوم ہے جس دن عوام الناس کو ”ردوقبولیت“کا اختیار مل جائے گا اسی روز ان کی حالت کسی حسنِ مبارک یا زین العابدین سے مختلف نہیں کردی جائے گی ۔قطر دوسرے خلیجی ممالک سے بادشاہت میں مختلف تونہیں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچانک اس کے ساتھ تمام تر تعلقات منقطع کر کے محاصرہ جیسی صورتحال کیوں پیدا کر دی گئی ؟اس کی وجہ خود سعودی عرب کے وزیر خارجہ جبیرنے لندن میں ایک پریس کانفرنس میں بیان کی ۔اس کے اپنے الفاظ ہیں ”“Qatar must end its support for the Palestinian group Hamas and the Muslim Brotherhood (Aljazeera- 7 june 2017)کہ قطر فلسطینی جماعت حماس اور اخوان المسلمون کو تعاون ختم کر دے ۔ اخوان المسلمون کے خون کے پیاسے عرب بادشاہوں اور شہزادوں کا پیٹ 14اگست2013ءکے قتلِ عام کے بعد بھی نہیں بھرا ہے۔ اخوانی آج بھی ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔جن میں سابق صدر مملکت ڈاکٹر محمد مرسی سمیت آج بھی سینکڑوں اخوانی سزائے موت کے منتظر ہیں یا عمر قید کی زندگی گزار رہے ہیں ۔جن کی ماو¿ں اور بہنوں کی مصر ی فوج اور پولیس نے تھانوں ،کیمپوں اور جیلوں میں عصمتیں تک لوٹی ہیں ۔اور یہ سب کچھ ”بے غیرت عرب بادشاہوں کی ناک کے نیچے “ہوتا رہا مگر کبھی بھی انھوں نے ان جرائم کی مزمت کرنا تک گوارا نہیں کیا اس لئے کہ یہ اخوانیوں کی مائیں اور بہنیں تھیں حالانکہ پوری دنیانے عرب بادشاہوںسمیت عراق میں ”داعش“کے ہاتھوں لونڈی بنائی جانی والی ”یزیدی خواتین“پر شور ضرور مچایا مگر اخوانیوں پر حملوںکا خاموش رہ کر سپورٹ کیا گیا ۔ذہنی اعتبار سے ان مسائل میں یہ لوگ داعش والوں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہیں ۔
جہاں تک فلسطین کے جہادی گروپ ”حماس “کی حمایت ختم کرنے کے مطالبے کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں سعودی وزیر خارجہ کے بیان نے ساری مبہم صورتحال بالکل واضح کر دی ہے کہ سعودی عربیہ کے شاہی خاندان اسرائیل کے ساتھ برسرِ پیکار مزاحمتی جماعت حماس سے کیوں خار کھائے بیٹھی ہے ۔اس خواہش میں اسرائیل ،امریکہ اور مصر کے بعد اب سعودی عربیہ کا اضافہ ہوا ہے گرچہ اہل نظر اس تانے بانے سے پہلے ہی واقف تھے مگر سعودی عوام اس کو مملکت کے خلاف پروپیگنڈے سے تعبیر کرتی تھی اور اب شاید بہ دیر ہی صحیح ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا ہے ۔حماس مظلوم فلسطینیوں کی واحد منظم اور مقامی آواز ہے ۔ غزہ کے عوام کا صرف قصور یہ ہے کہ انھوں نے” حماس“کی حمایت کی ہے اور 2006ءکے الیکشنوں میں حماس نے فلسطین میں 132نشستوں میںسے 74پر جیت حاصل کی۔قصور اس لئے کہ دنیا کے بڑے بدمعاشوں کے نزدیک جمہوریت کا مطلب By the people and for the peopleکے بالکل برعکس Buy the people and far the people ہے ۔پوری مسلم اور غیر مسلم دنیا کو چند بڑے سرمایہ داروں نے اپنے پنجوں میں جھکڑ لیا ہے وہی اقتدار پر قابض ہیں اور انہی کے ہاتھوں میں ملکوں کا سرمایہ گھومتا پھرتا ہے ۔کارپوریٹ دنیا کی سوچ میں ”مسلم اور غیر مسلم “ کا فرق بہت کم ہوتا ہے الا ماشاءاللہ ۔ دولت پر قابض اس حریص طبقے کو عوام کے دکھ درد سے کوئی سروکار نہیں ہوتاہے یہ عوام کو جانوروں کے ریوڑ خیال کرتے ہیں ۔ ان میں انسانی احساسات اور جذبات ناپید ہوتے ہیں ۔ان کی زندگی کا مقصد واحد دولت ہوتا ہے ۔اس مشن میں کسی بھی رکاوٹ کو یہ برداشت نہیں کرتے ہیں ۔اپنی اس منحوس دنیا کا تحفظ یہ لوگ کسی اصول کی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں ۔جہاں اس کا تحفظ سیاست اور جمہوریت سے ہو جاتا ہے یہ اسی کو اصول بناتے اور منواتے ہیں اور جہاں اس کا تحفظ مذہب یا بادشاہت سے ہوتا ہے یہ اسی کے گیت گاتے ہیں اور بہت سے ” للو پنجو“ ان کے حق میں قیصدے لکھتے ہیں ۔اسرائیل دنیا کی دولت پر قابض ہے وہ اپنے ایجنٹوں کے تحفظ کا پورے عالم میں ٹھیکہ دار بھی ہے چہ جائیکہ عالم عربی جو اس کی گودمیں جوان ہوئے سلاطین ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ امریکہ بہادر کے حرامی بچے کا دل دکھا نے کے بجائے حماس کو خود کاٹ پھینکنے پر بضد ہیں وہ اس لئے بھی کہ خود اسرائیل اس کو فنا کرنے کی خواہش میں ناکام و نامراد ہوا ہے اب اس نے اپنے شفیق باپ امریکہ کے ذریعے خلیجی سلاطین کی طنابیں کس لی ہیں ۔
حماس کا قصور یہی ہے کہ اس نے عالم اسلام کی طرف سے بالعموم اور عالم عربی کی جانب سے بالخصوص مسجدِ اقصیٰ کے حصولیابی کا فرض کفایہ ادا کرنے کا حوصلہ کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخروئی کا سامان پیدا کیا ۔بعض لوگ اخوان اور حماس کو عرب ممالک میں دہشت گردی پھیلانے کا الزام لگا کر پرانی کہانی دہرانے کے لئے نامراد کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں ۔پہلی بات یہ کہ دہشت گردی ان حضرات کے نزدیک کیا ہے ؟اپنی زمینوں کا تحفظ کرنا!یا خلافت کے قیام کی بات کرنا !۔
اخوان المسلمین اور حماس دورِ حاضر کے باحمیت مگر انتہائی مظلوم لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نوے سالہ سفر میں کبھی نرمی اور آزادی نہیں دیکھی ہے ۔اس کے رہنماو¿ں کو نہ صرف وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے بلکہ سید قطب شہیدجیسے مفکر اور محمد مرسی جیسے مدبر سیاستدان کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی گئی ۔آج کے جمہوری دور میں جب اخوان نے تشدد کے بجائے پر امن طریقہ جدوجہد کو اپنایا تو بھی اس کے منتخب شدہ صدرِ مملکت کو جیل بھیج کر ظالم ججوں کے ذریعہ تختہ دار تک پہنچانے سے گریز نہیں کیا گیا ۔رہی حماس تو اس کے بانی شیخ احمد یٰسین سے لیکر پروفیسر عبدالعزیز رینتیسی اور ہزاروں کارکنوں تک اسرائیل نے انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر ڈالا اور آج بھی ایک بڑی تعداد اسرائیل کے جیلوں میں فلسطین کی آزادی کے خوابوں کی تعبیر کے لئے سزا کاٹ رہی ہے ۔حماس کا قصور یہی ہے کہ اس نے عالم اسلام کی طرف سے بالعموم اور عالم عربی کی جانب سے بالخصوص مسجدِ اقصیٰ کے حصولیابی کا فرض کفایہ ادا کرنے کا حوصلہ کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخروئی کا سامان پیدا کیا ۔بعض لوگ اخوان اور حماس کو عرب ممالک میں دہشت گردی پھیلانے کا الزام لگا کر پرانی کہانی دہرانے کے لئے نامراد کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں ۔پہلی بات یہ کہ دہشت گردی ان حضرات کے نزدیک کیا ہے ؟اپنی زمینوں کا تحفظ کرنا!یا خلافت کے قیام کی بات کرنا !۔کیا اخوان اور حماس نے یہ کر کے کوئی قابل گرفت جرم انجام دیا ہے ؟اگر ایسا ہے تو پھر یہ جرم چودہ سو برس میں اخوان ہی نے انجام نہیں دیا ہے بلکہ ظالم اور خاندانی بادشاہت کی لعنت سے نجات کے لئے قیامت تک امت مکلف ہے اور حدیث رسول کے عین مطابق قیامت تک وہ جدوجہد کرتی رہے گی ۔کچھ ذہنی طور پسماندہ حضرات موجودہ بادشاہت کو ہی خلافت قرار دینے کے لئے قصے کہانیاں ہی نہیں گھڑتے ہیں بلکہ قرآنی آیات اور احادیث سے بھی استدلال پیش کر کے نہ صرف اپنی تنخواہ حلال کرتے ہیں بلکہ ملازمت بشکل ”مبعوثیت“کی بھی حق ادائی کا کام انجام دیکر اپنے ضمیر کوبیہودہ تھپکی دے دیتے ہیں ۔
قطر کو صرف اخوان کی حمایت کی سزادی جا رہی ہے مگر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا پانچ خلیجی مما لک پر یہ راز آج ہی کھلا ہے کہ قطر اخوان اور حماس کی حمایت کر رہاہے ۔کیا خود ان ممالک نے اخوان اور حماس کی حمایت نہیں کی ؟پوری دنیا اس حمایت سے واقف ہے مگر پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ قطر کا محاصرہ کر کے اس کے ساتھ تمام تر تعلقات منقطع کر دئے گئے ہیں اور اس کے ہاں مقیم عالمی شہرت یافتہ علماءاور دانشوروں کو دہشت گرد قرار دیا گیا !جن میں سرِ فہرست سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف اورعالمی شہرت یافتہ عالم دین ڈاکٹر یوسف القرضاوی کا نام ہے جن کی عمر اب نوے برس سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔شاید سعودی عربیہ اور دوسرے عرب ممالک اس سلسلے میں بھر پور پروپیگنڈا مہم چلا کر کامیاب بھی ہو جاتے اگر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہنے کے لئے کچھ بھی باقی چھوڑاہوتا۔ اس نے 7جون 2017ءکو میڈیا سے بات کرتے ہو ئے اقرارکیا کہ اس کے کہنے پرخلیجی ممالک نے قطر پر پابندی عائد کی ہے ۔ مصر میں اخوان کے قتل عام سے قبل بھی سعودی عربیہ اور متحدہ عرب امارات نے مشترکہ کوششوں کے تحت اخوان کو الیکشنوں میں شکست سے دوچار کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور قتلِ عام کے بعد سعودی عربیہ نے 12بلین ڈالر جنرل سیسی کو بطور انعام بشکل امداد فراہم کئے ۔سعودی عربیہ نے یہ ”متبرک اور مقدس جہاد“صرف عرب ممالک تک ہی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ عجمی ممالک کے دانشور بھی اب ان ریالوں کی ریل پیل پر سوالات اٹھا رہے ہیں ۔
قطر پر الزام یہ بھی ہے کہ ایران کے ساتھ اس کے گہرے روابط ہیں ۔ ان عرب ممالک اس الزام پر شرم آنی چاہیے ۔ان میں کسی ایک کے بھی ایران کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں ہیںسوائے سعودی عربیہ کے،اور انقطاعِ تعلقات کی تاریخ آیة اللہ باقر النمر کی سزائے موت سے ہی شروع ہوتی ہے اسے قبل ان دونوں کے تعلقات اتنے ناخوشگوار نہیں تھے بلکہ سفارتی تعلقات بدستور اچھے اور جاری تھے ۔اب کہا جا رہا ہے کہ ایران عرب ممالک میں دخل اندازی کرتا ہے جو ہمالیہ سے بھی بڑی سچائی ہے اور ایران ڈنکی کی چوٹ پر شام ،عراق اور یمن میں مداخلت کر رہا ہے اور اس نے بہت سے اعلیٰ کمانڈروں کو ان جنگوں میں کھویا ہے ۔مگر کیا کبھی ان عرب ممالک نے ایران کے خلاف زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی مناسب قدم اٹھایا ؟بالکل نہیں پھر یہ شور شرابہ کیوں ؟سچائی یہ ہے کہ ایران نے انقلاب کے بعد بہت سارے محاذوں پر انقلابی اقدامات اٹھا ئے تھے اور اس نے ”عراق کے ساتھ طویل جنگ “میں سبق حاصل کیا تھا۔اس نے اپنی تماتر توجہ تعلیم ،معیشت اور عسکری محاذ پر دی ہے ۔یہ اس کی صلاحیت ہی ہے کہ ”غلط یا صحیح“اس نے اتنے سارے عرب ممالک میں کھلی مداخلت کے باوجود نا ہی ”سنی ممالک “کی طرح انکار کیا اور نا ہی ابھی بھی پیچھے ہٹنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔برعکس اس کے سنی حکمرانوں کی تاریخ یہ ہے کہ جس کو آج اعزاز سے نوازیں گے کل اسی کو ڈاکٹر قدیر خان آف پاکستان کی طرح ذلیل کریں گے ۔آج طالبان کو اپنا کہیں گے کل دشمن ۔آج اخوان کے علماءکو شاہ فیصل ایوارڈوں سے نوازیں گے کل انہیں دہشت گرد قرار دیں گے !ایران کے خلاف دھواں دار تقریریں کرنے والے یہ عرب کیااس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ آج اگر تم لوگ عراق میں سنیوں کے قتل عام پر اس قدر واویلا کرتے ہو تو کیا شیعوں کو خلیج کے علاوہ دوسرے ممالک میں قتل کرنا جائز ہے جہاں پورے زور و شور سے سے یہ مہم جاری ہے ۔اگر یہی اب فرضِ عین قرار پایا ہے تو آپ یہ ”کارِ خیر“عراق اور شام کے برعکس اپنے ممالک سے شروع کیوں نہیں کرتے ؟ اگر آپ کے ملاو¿ں کے فتوو¿ں کے عین مطابق انہیں ”مرتد“قراردیکر مارنا ہی ضروری ہے تو جب صدام جیسا متشدد سنی ان پر قہر برسا رہا تھاتو اس کی حکومت گرانے اور اس کو قتل کرانے تک کون سی ریاستیں پیش پیش تھیں، کوئی اخوانی یا حماسی ؟یا وہی عرب حکمران جو آج ایران کی پالیسی سے بہت بیزار ہیں اور اسے براہ راست ٹکر لینے کے بجائے کبھی کسی تنظیم ،فرد یا ریاست کو نشانہ بناتے ہیں ۔
قطر پر الزام یہ بھی ہے کہ ایران کے ساتھ اس کے گہرے روابط ہیں ۔ ان عرب ممالک اس الزام پر شرم آنی چاہیے ۔ان میں کسی ایک کے بھی ایران کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں ہیںسوائے سعودی عربیہ کے،اور انقطاعِ تعلقات کی تاریخ آیة اللہ باقر النمر کی سزائے موت سے ہی شروع ہوتی ہے اسے قبل ان دونوں کے تعلقات اتنے ناخوشگوار نہیں تھے بلکہ سفارتی تعلقات بدستور اچھے اور جاری تھے ۔
اصل مسئلہ نہ شیعہ سنی ہے نہ عرب ایران اور نا ہی قطر یا اخوان بلکہ اصل مسئلہ امریکہ بہادرکی وہ شرمناک انسانیت کش پالیسی ہے جس کے نتیجے میں وہ پہلے خود مسلم ممالک کو برباد کرتا تھا اور اب اس نے یہ ٹاسک مسلم ممالک میں بیٹھے اقتدار پر قابض اپنے پٹھووں کو دیدیا ہے ۔اور وہ شاہ سے زیادہ وفاداری کے لئے کسی بھی حد پر جانے کو تیار ہےں ۔امریکہ نے صدام کو اکسا کر پہلے ایران پھر کویت پر حملہ کراکے دونوں صدام اور عراق کو فنا کر دیا ۔افغانستان کو ایک فرضی کہانی کی بنیاد پر روس سے بھی زیادہ نقصان پہنچادیا ۔
بہارِ عرب میں نتائج برعکس دیکھ کر منافقانہ پالیسی اپنا کر آہستہ آہستہ شام اور لیبیا کو کھنڈرات میں تبدیل کرادیا۔یمن کی اقلیت کو اکثریت سے لڑوا کر ملک کو تاراج کردیا۔کئی مسلم افریقی ممالک میں ایسی شورش پیدا کردی کہ وہاں قیامِ امن کے دور دور تک نشانات نظر نہیں آتے ہیں ۔پاکستان میں بلواسط طریقہ پرہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اب قطر ،ایران ،اسلامی تحریکات اور شخصیات اس کے نشانے پر ہیں۔ مکافاتِ عمل کی زد میں آکر آج نہیں تو کل ”صدام اور قذافی “کی طرح دوسروں کا بھی نمبر آنے والا ہے اس لئے کہ امریکہ دوستی کو دشمنی سے بدلنے میں دیر نہیں کرتا ہے ۔یہی قذافی کو ہی لیجیے پہلے اس کو اور اس کے ہمنواو¿ں حتیٰ کہ اولاد کو تباہ و برباد کرادیا اور جب لیبیاکی معیشت تباہ ہو کر بیٹھ گی تو اسلام پسندوں کو روکنے کے لئے قذافی کے فرزند کو واپس لانے کے لئے زمین ہموار کردی ۔عرب حکمرانوں کو آنکھیں کھولنی چاہیے اور تعصب سے بالاتر ہو کر ”دوستوں اور دشمنوں“کو پہچان لینا چاہیے اور یہ بات بھی ہر مسلمان کو گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ قرآن نے صاف طور پر مسلم اور کافر میں جو فرق بتایا ہے وہ چودہ سو سالہ تجربات سے ہی نہیں دورِجدید میں بھی مترشح ہو کر سامنے آئی ہے کہ مسلمانوں (چاہیے وہ ایمان اور عمل کے کمزور درجے میں ہی کیوں نا ہو)کو چھوڑ کرکافروں کو دوست بنانا المیہ ہی نہیں بلکہ گناہِ عظیم بھی ہے ۔افسو س یہ کہ عرب شہزادے اور سلاطین عربی فخر و غرور کے علاوہ ”سیاہ سونے سے حاصل ہونے والے ڈالروں“کے نتیجے میں بے جا تکبر میں مبتلا ہو ئے ہیں انہیں علم و عمل میں اپنے سوا کوئی دوسرا نگاہ میں نہیں جچتا ہے چاہیے کوئی کتنے ہی خلوص سے انہیں مشورہ دیدے نہیں تو سعودی بادشاہ کا واحدمسلم ایٹمی طاقت پاکستان کے وزیر اعظم کو گیدڑبھبکی دینا چہ معنی دارد ؟کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا قطر کے ساتھ !اتناہی نہیں دولت کے نشے میں چور شہزادہ محمد بن سلیمان سے متعلق روز نامہ ڈان کے معروف صحافی تنویر آرائیں کا حالیہ ہنگامہ خیز ٹویٹ ان کے اندرون کو ظاہر کرتا ہے کہ شہزادہ نے ایک خط میں پاکستانیوں کو غلام قوم قرار دیا ہے ،ایسے میں انہیں کوئی عجمی مسلمان مشورہ دے تو فضول ہاںکوئی گوری چمڑے والا یا والی ہو تو اور بات ہے اس کے اشارے پر یہ نہ صرف مسلمان عالم کو دہشت گرد قرار دیں گے بلکہ اس کو گردن اڑانے سے بھی گریز نہیں کریں گے بلکہ باضابط ناچنے میں بھی شرم اور عار محسوس نہیں کریں گے ۔