وہ تھے ہی ایسے۔ سمندر کو کوزے میں بند کردینے والے۔ کیسی خوب صورت اور دل کش بات کی تھی انہوں نے۔اور کوئی ایک بات، بس سنتے جائیے۔ اوران میں سے چندایک پرعمل کی توفیق مل جائے تو کیا کہنے واہ۔ میرا رب ان سے راضی تھا۔اسی لئے تو وہ ایسی باتیں کرتے تھے۔ یہ خوش نصیبی ہے،توفیق ہے، عطا ہے۔ بس جسے چاہے نواز دے۔ہاں یہ تعلق ہے۔ ہاں یہ ہے خوشی۔ ہاں یہ ہے رب کا اپنے بندے اور بندے کا اپنے خالق سے رشتہ ۔تصویراور مصور ،مخلوق اور خالق۔ جدھر دیکھتا ہوں میں، ادھر تو ہی تو ہے۔ایک دن کہا کم ظرف انسان دوسروں کو خوش دیکھ کر ہی غم زدہ ہو جاتا ہے۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ لوگ خوش رہیں۔ وہ ان کی خوشیوں کو برباد کرنے پر تل جاتا ہے۔ اس کی خوشی یہ ہے کہ لوگ خوشی سے محروم ہو جائیں۔ وہ اپنے لئے جنت کووقف سمجھتا ہے۔اور دوسروں کودوزخ سے ڈراتا ہے۔
کم ظرف انسان دوسروں کو خوش دیکھ کر ہی غم زدہ ہو جاتا ہے۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ لوگ خوش رہیں۔ وہ ان کی خوشیوں کو برباد کرنے پر تل جاتا ہے۔ اس کی خوشی یہ ہے کہ لوگ خوشی سے محروم ہو جائیں۔ وہ اپنے لئے جنت کووقف سمجھتا ہے۔اور دوسروں کودوزخ سے ڈراتا ہے۔
ایک بخیل انسان خوش رہ سکتا ہے،نہ خوش کرسکتا ہے۔ سخی سدا بہار رہتا ہے۔ سخی ضروری نہیں کہ امیر ہی ہو۔ ایک غریب آدمی بھی سخی ہوسکتا ہے،اگر وہ دوسروں کے مال کی تمنا چھوڑ دے۔جن لوگوں کا ایمان ہے کہ اللہ کا رحم اس کے غضب سے وسیع ہے،وہ کبھی مغموم نہیں ہوتے۔وہ جانتے ہیں کہ غربت کدے میں پلنے والا غم اس کے فضل سے ایک دن چراغ مسرت بن کر دلوں کے اندھیرے دور کرسکتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پیغمبر بھی تکالیف سے گزارے گئے لیکن پیغمبر کا غم امت کی فلاح کے لئے ہے۔غم سزا ہی نہیں غم انعام بھی ہے۔ یوسف کنویں میں گرائے گئے،ان پر الزام لگا انہیں قید خانے سے گزرناپڑالیکن ان کے تقرب اور حسن میں کمی نہیں آئی۔ ان کا بیان احسن القصص ہے۔دراصل قریب کردینے والاغم دور کر دینے والی خوشیوں سے بدرجہا بہتر ہے۔منزل نصیب ہو جائے تو سفر کی صعوبتیں کامیابی کاحصہ کہلائیں گی اور اگر انجام محرومی منزل ہے تو راستے کے جشن ناعاقبت اندیشی کے سواکیا ہوسکتے ہیں۔ زندگی کا انجام اگر موت ہی ہے تو غم کیا اور خوشی کیا؟ کچھ لوگ غصے کو غم سمجھتے ہیں، وہ زندگی بھر ناراض رہتے ہیں۔ کبھی دوسروںپر کبھی اپنے آپ پر انہیں ماضی کا غم ہوتا ہے۔حال کا غم ہوتا ہے اور مستقبل کی تاریکیوں کا غم، ایسے غم آشنا لوگ دراصل کم آشنا ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ گزرے ہوئے زمانے کا غم دل میںرکھنے والا کبھی آنے والی خوشی کا استقبال کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ ان کا غم امربیل کی طرح ان کی زندگی کو ویران کردیتا ہے۔ یہ غم، غم نہیں یہ غصہ ہے۔ یہ نفرت ہے۔
غم تو دعوت مژگاں ساتھ لاتا ہے اور چشم نم آلود ہی چشم بینا بنائی جاتی ہے۔ غم کمزور فطرتوں کا راکب ہے اور طاقتور انسان کا مرکب۔خوشی کا تعاقب کرنے والا خوشی نہیں پاسکتا۔ یہ عطا ہے مالک کی، جواس کی یاد اور اس کی مقرر کی ہوئی تقدیر پر راضی رہنے سے ملتی ہے۔ نہ حاصل نہ محرومی، نہ غم، نہ خوشی نہ آرزو نہ شکست، آرزو یہ بڑی خوش نصیبی ہے۔ اپنے نصیب پر خوش رہناچاہئے۔ اپنی کوششوں پر راضی رہنا چاہئے۔اور کوششوں کے انجام پر بھی راضی رہنا چاہئے۔دوسرے انسانوں کے نصیب سے مقابلہ نہیں کرنا چاہئے۔جو ذرہ جس جگہ وہیں آفتاب ہے۔ہے ناں کوزے میں دریا کو بند کرنا۔اس کے بعد رہ ہی کیا جاتا ہے بات کرنے کو۔مگر ہم انسان ہیں،کلام کئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں اور کرنا بھی چاہئے۔ دیکھئے آپ ماہ رمضان المبارک میں بھوک پیاس برداشت کررہے ہیں ،آپ کی اپنی راتیں رب کا کلام سننے اور پڑھنے میں گزررہی ہیں۔کس لئے؟ اس لئے نا، آپ اور ہم اور ہم سب کا رب ہم سے راضی ہو جائے۔ ہم سب نے اپنی حیثیت کے مطابق خلق خدا کی خبر گیری کی، دادرسی کی۔سب کچھ دیا بھی رب کا ہے اور ہم نے پھر اسے لوٹایا بھی۔ جب سب کچھ اس کا ہے تو پھر ہم نے کیا کمال کیا۔ لیکن میرا رب کتنا بلند و بالاعظمت و شان والا ہے کہ آپ نے مخلوق کی خدمت کی اور وہ آپ کا نگہبان بن گیا۔ اور جس کا وہ نگہبان بن جائے پھراسے کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی۔ قطعاً نہیں رہتی۔
ایک دن ہم نے پوچھا رب سے معافی کیسے مانگیں تو کہا بہت آسان ہے۔ اس کے بندوں کو معاف کرو اور پھر رب سے کہو،میں تو تیرا بندہ ہو کر تیری مخلوق کو معاف کرتا ہوں،تو تو ہم سب کا رب ہے،ہمیں معاف کردے۔سو معاف کردئیے جائو گے جو کسی بندے بشر کو معاف نہ کرے۔ خود کیسے معاف کردیا جائے گا۔
ہم انسان ہیں۔خطاکار ہیں۔ہم لاکھ چاہیں کہ دل آزاری نہ کریں۔کسی کی عزت نفس پامال نہ کریں۔ کسی کو دکھ نہ دیں۔لیکن ہو جاتی ہے غلطی۔لیکن انسان وہ ہے جو اپنی غلطی مانے اور جس کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے معذرت کرے۔ وہ انسان جو تائب ہو جائے وہی منزل پر پہنچتا ہے۔یادرکھیں کہ چپ سے بڑی بددعاکوئی نہیں ہوتی،جب بندہ بولتاہے تو قدرت خاموش رہتی ہے اورجب بندہ خاموش ہوتاہے توقدرت انتقام لیتی ہے اوراس کاانتقام انتہائی شدیداورعبرتناک ہوتاہے۔ماہ صیام کوغنیمت جانتے ہوئے ہم سب کو چاہئے کہ رنجشیں ختم کردیں۔ہوجاتا ہے، انسان ہے،سو معاف کردیں انہیں گلے سے لگائیں۔جو روٹھ گئے ہیں، انہیں منائیں اس دکھ بھری زندگی میں دن ہی کتنے ہیں کہ ہم اسے جہنم بنا دیں۔آج ہی اس نیک کام میں پہل کرنے کیلئے اپنے ماں باپ کے حضورحاضرہوکردست بدستہ ان کے قدموں میں جھک جائیں کہ دنیاوآخرت میں بلندی ،عزت واحترام کافقط واحدراستہ یہی ہے اورجن کے والدین اس جہان میں نہیں توپھران کے قریب ترین احباب سے اسی عمل کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کادل جیت لیں۔
میراایک بہت پاگل سادوست ہے بہت باکمال لیکن بالکل ان پڑھ۔ میرارب اسے سلامت رکھے۔ہروقت ایک ہی بات کرتا ہے”دودناں دی زندگی تے فیر اندھیری رات“،ایک دن ہم نے پوچھا رب سے معافی کیسے مانگیں تو کہا بہت آسان ہے۔ اس کے بندوں کو معاف کرو اور پھر رب سے کہو،میں تو تیرا بندہ ہو کر تیری مخلوق کو معاف کرتا ہوں،تو تو ہم سب کا رب ہے،ہمیں معاف کردے۔سو معاف کردئیے جائو گے جو کسی بندے بشر کو معاف نہ کرے۔ خود کیسے معاف کردیا جائے گا۔
آپ سب بہت خوش رہیں۔ میرا رب آپ کی زندگی سکون وآرام سے بھردے۔ آپ سدا مسکرائیں آپ کی زندگی میں کوئی غم نہ آئے۔ بہار آپ کا مقدر بن جائے۔ ہر شب شب برأت بن جائے۔ مجھے اجازت دیجئے۔
بس نام رہے گا اللہ کا۔
میں شیشہ گر نہیں، آئینہ سازی تو نہیں آتی
جو دل ٹوٹے تو ہمدردی سے اس کو جوڑ دیتا ہوں