بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کا ایک دیرینہ خواب پورا ہوا ہے کہ پارٹی ،شراکت میں ہی سہی،مسلم اکثریت والی ریاستِ جموں کشمیر میں حکومت سنبھالے ہوئے ہے۔عیاں وجوہات کے لئے یہ پارٹی کے لئے ایک ”اعزاز“سے کم نہیں ہے لیکن ”بھاجپا کے کشمیر“کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سکیورٹی ادارے واضح طور مرکزی سرکار کو جموں کشمیر میں گورنر راج نافذ کرنے کے لئے بتائے جارہے ہیں۔
ایک طرف وادی کشمیر میں جنگجوئیت کا زور انتہائی حد تک بڑھتا ہی جارہا ہے کہ یہاں کی صورتحال کی نوے کی دہائی کے حالات کے ساتھ مشابہت کی جارہی ہے تو دوسری جانب طلباءکی احتجاجی تحریک تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ جاری ہے بلکہ روز نئے علاقوں اور نئے اسکولوں اور کالجوں تک اپنا دامن پھیلائے اور ان نئے علاقوں کو اپنے سائے میں لیتی جا رہی ہے۔مضمون لکھنے سے قبل اگر مختصراََ یہ کہا جائے کہ آج کے کشمیر کی صورتحال انتہائی تشویشناک بھی ہے اور فوری توجہ کی متقاضی بھی ،تو مبالغہ نہیں ہوگا یعنی لفافہ دیکھ کر خط کا یہ مضمون بھانپ لیا جانا چاہیئے کہ آج کا کشمیر امن عمل سے دور ہی نہیں ہے بلکہ ایک اور ہلاکت خیز اور تباہ کن” سیزن“کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ حریت کانفرنس بھی حالات پر قابو کھوتی جارہی ہے اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے تک خود کو ”اپنی تقدیر کا مالک“سمجھتے ہوئے کسی سے پوچھے بغیر کچھ بھی کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔حالانکہ ابھی تک فقط حریت کانفرنس کے ہی کہنے پر وادی میں ہڑتالیں ہوتے دیکھی جاتی تھیں لیکن حالیہ دنوں میں کئی علاقوں میں دیکھا گیا ہے کہ سرکاری فورسز کی کسی بات یا حرکت سے مشتعل ہوکر مختلف علاقوں میں نوجوانوں نے خود ہی ہڑتال بھی کروائی ہے اور احتجاجی کے پروگرام دئے بھی اور عملائے بھی ہیں۔یعنی ایک وقت تھا کہ جب سرکاریں چاہتیں تو چند ایک ”لیڈروں“کو قائل کرکے معاملات کو سنبھال سکتی تھیں لیکن آج کے کشمیر میں چیزیں تیزی سے بدل رہی ہیں اور وہ سب ”لیڈر“خود بے بس محسوس ہورہے ہیں۔
جنوبی کشمیر اور پھر وسطی کشمیر کے بڈگام و شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ علاقوں میں جنگجوئیانہ سرگرمیوں اور جنگجووں کے تئیں لوگوں کی وابستگی کا اظہار کوئی نئی بات نہیں رہی ہے لیکن وادی کے اُن علاقوں میں بھی ”نئے حالات“بنتے جارہے ہیں کہ جن کے بارے میں سرکاری اداروں کو کبھی فکر رہی ہوگی اور نہ شک۔یعنی جو علاقے ”فوج کے اپنے“اور ہر طرح کے ہنگاموں سے دور رہے ہیں اب وہاں کے معاملات بھی بگڑتے جارہے ہیں۔چناچہ27اپریل کو سرحدی قصبہ کپوار کے پنزگام کے ایک بڑے فوجی کیمپ،جو اس علاقے میں تعینات کئی فوجی یونٹوں کا ہیڈکوارٹر ہے،پر صبح سویرے جنگجوو¿ں نے ایک خود کُش حملہ کیا جس میں جونیئر کمشنڈ افسر، آیوش یادو ،سمیت تین فوجی ہلاک ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں دو حملہ آور بھی مار گرائے گئے۔کیمپ پر ہوئے حملے کے ختم ہوتے ہی مقامی دیہات کے ہزاروں لوگ جمع ہوکر احتجاج کرنے لگے اور مارے گئے حملہ آوروں کے تئیں ”عقیدت کا اظہار“کرتے ہوئے تدفین کے لئے انکی لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگے۔
جنوبی کشمیر اور پھر وسطی کشمیر کے بڈگام و شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ علاقوں میں جنگجوئیانہ سرگرمیوں اور جنگجووں کے تئیں لوگوں کی وابستگی کا اظہار کوئی نئی بات نہیں رہی ہے لیکن وادی کے اُن علاقوں میں بھی ”نئے حالات“بنتے جارہے ہیں کہ جن کے بارے میں سرکاری اداروں کو کبھی فکر رہی ہوگی اور نہ شک۔یعنی جو علاقے ”فوج کے اپنے“اور ہر طرح کے ہنگاموں سے دور رہے ہیں اب وہاں کے معاملات بھی بگڑتے جارہے ہیں۔
لشکر طیبہ کے معروف کمانڈر ابو قاسم کے 2015میں ہوئے جنازہ میں قریب ایک لاکھ لوگوں کے شامل ہونے کے بعد سے سکیورٹی اداروں کی اپنائی ہوئی پالیسی کے تحت انتظامیہ نے پنزگام میں مارے گئے غیر ملکی جنگجووں کی لاشیں مقامی لوگوں کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور یوں ماحول کشیدہ ہوگیا۔لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں لوگوں نے مشتعل ہوکر فوجی کیمپ کی جانب جلوس بڑھنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی فوجیوں پر،جو خود کُش حملے میں بال بال بچ نکلے تھے،سنگ برسانا شروع کیا۔فوج نے گولی چلائی اور 62سال کے ایک بزرگ مارے گئے۔یہ واقعہ سرینگر سمیت وادی کے کسی اور علاقے میں پیش آیا ہوتا تو شائد قابلِ ذکر بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان علاقوں میں اب یہ برسوں سے معمول مانا جاتا ہے تاہم کپوارہ کے جس علاقہ میں غیر ملکی جنگجووں کی تدفین میں شمولیت کے شوق میں ایک بزرگ کی جان گئی اور نوجوان اپنی جان کی پرواہ کئے بنا گولیوں کے مقابلے میں فوج پر سنگ برساتے دیکھے گئے وہ روزگار کے لئے بڑی حد تک خود فوج پر منحصر ہے۔چناچہ یہاں کے اکثر لوگ فوج کی مزدوری کرتے ہیں اور اس طرح کی دیگر سرگرمیوں سے اپنا روزگار چلاتے آرہے ہیں۔اس وجہ سے یہاں فوج پر حملہ آور ہوئے فدائین،جو کسی کمین گاہ میں گھیر لئے جانے کی بجائے خود فوج پر حملہ آور ہوکر اسے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لئے سرگرداں رہتے ہیں،کے لئے مرنے مارنے پر لوگوں کا آمادہ ہونا سیاسی پنڈتوں اور مبصرین کے کان کھڑا کرگیا۔چناچہ اس واقعہ سے کشمیریوں میں بڑھ رہے احساسِ بے گانگی اور غصے پر سے مزید پردہ اٹھ گیا اور یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ کشمیر میں نئی دلی کے تئیں جس احساسِ بے گانگی کی بات ہورہی ہے وہ کسی خاص علاقے تک محدود نہیں ہے۔فوجی جماو والے اس سرحدی علاقے میں پیش آمدہ اس واقعہ سے یہ بات بھی سمجھی جاسکی کہکشمیر کی سڑکوں پر ہورے احتجاجی مظاہرے اور سنگبازی کے واقعات پیسے دیکر نہیںکرائے جاتے ہیں جیسا کہ بعض ٹی وی اینکروں اور انکے پروگراموں میں شامل ہوکر خود کو شاہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنے والے ”تجزیہ نگاروں“کا کہنا ہے۔ چناچہ یہ علاقہ نہ صرف علیٰحدگی پسند قیادت کی پہنچ سے بہت حد تک باہر ہے بلکہ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی قریبی نگاہوں میں بھی ہے۔یہاں یوں فوج کے دشمن جنگجووں کے لئے لوگوں کا مرنے مارنے کے لئے تیار ہونا اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے اور اگر ،فرض کریں،ایسا مفادِ خصوصی رکھنے والی کسی طاقت نے کرایا ہے تو بھی یہ بات تشویشناک ہے کہ اس حد تک فوجی جماو اور دیگر ایجنسیوں کی سرگرمی کے باوجود بھی کسی کے لئے یہاں اس طرح کا ہنگامہ کرانا ممکن ہوسکا ہے۔
ایک جانب یہ، تو دوسری طرف 15اپریل کو جنوبی کشمیر کے پلوامہ قصبہ کے ایک کالج میں پولس والوں کے گھس کر قریب اسی لڑکیوں کو پیلٹ گن سے زخمی کر دئے جانے کے بعد سے وادی بھر میں طلباءکی احتجاجی تحریک جاری ہے۔دراصل 9اپریل کو سرینگر-بڈگام پارلیمانی نشست کے لئے ہوئے ضمنی انتخاب کے دوران سرکاری فورسز کے ہاتھوں نو احتجاجی مظاہرین کے مارے جانے کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں سے پیدا شدہ صورتحال میں پولس نے پلوامہ کے کالج پر دھاوا بولدیا تھا۔پھر کالج میں طالبات کے زخمی ہونے کے خلاف جنگل کی آگ کی طرح وادی بھر میں طلباءکے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ سا پھیل گیا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔سرکاری ایجنسیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی حالات اس حد تک خراب ہیں کہ جنوبی کشمیر میں اننت ناگ کی پارلیمانی نشست کے لئے طے انتخاب کو ریاستی سرکار نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی منتیں کر کرکے معطل کروادیا ہے۔سرینگر-بڈگام نشست کے لئے محض سات فی صد ووٹ پال ہونے کے بعدیہ قریب تیس سال بعد ہے کہ جب ریاستی سرکار کو انتخابی عمل معطل یا منسوخ کروانا پڑا ہو۔
تشدد اور افراتفری کا یہ ماحول ایسے وقت پردیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب وادی میں آمدِ بہار تھی اور ریاست کے بہت حد تک سیاحتی سرگرمیوں پر منحصر ہونے کی وجہ سے لوگ گزشتہ سال کی ہلاکت خیزی کے بعد اب ایک اچھے سیزن کی توقع اور دعائیں کرتے تھے۔اس بات کو یاد کرانے کی شائد حاجت بھی نہیں ہے کہ گزشتہ سال حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے کے بعد وادی کشمیر میں قریب پانچ ماہ کے لئے سب کچھ ٹھپ ہوکے رہ گیا تھا اور یہاں کے لوگوں نے ایک پورا سیاحتی سیزن بھی کھو دیا تھا۔اس طویل ترین ایجی ٹیشن کے دوران سو بھر کے قریب لوگوں کے مارے جانے اور قریب پندرہ ہزار کے زخمی ہونے،جن میں سے کم از کم ایک ہزار کی آنکھیں پیلٹ گن کا شکار ہوکر کُلی یا جزوی طور متاثر ہوگئی ہیں،کے بعد جہاں سرینگر سے دلی تک کی سرکاروں نے سنجیدہ ہوکر روز روز کی اس کھِٹ پِٹ کی وجہ یعنی مسئلہ کشمیر کو ایڈرس کرنے پر آمادہ ہونے کے اشارے دئے تھے وہیں عام کشمیریوں کو بھی توقع تھی کہ شائد اب بس ہوگیا ہے۔لیکن وادی کشمیر کی موجودہ بے سکونی،بڑھتی ہوئی جنگجوئیانہ سرگرمیوں اور احتجاجی مظاہروں کے سلسلہ اور اسکے جاری رہنے کے موڈ سے اگر کچھ سمجھا جاسکتا ہے تو شائد یہ کہ بُرہان وانی کے مارے جانے پر جو آگ لگ گئی تھی وہ ابھی سلگ بھی رہی ہے اور اس سے ایک بار پھر شعلے بھڑکنے کے امکانات بھی معدوم نہیں ہیں۔
تشدد اور افراتفری کا یہ ماحول ایسے وقت پردیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب وادی میں آمدِ بہار تھی اور ریاست کے بہت حد تک سیاحتی سرگرمیوں پر منحصر ہونے کی وجہ سے لوگ گزشتہ سال کی ہلاکت خیزی کے بعد اب ایک اچھے سیزن کی توقع اور دعائیں کرتے تھے۔
اس بات پر فقط افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ جموں کشمیر، با الخصوص وادی،کی صورتحال نہ صرف یہ کہ مستقل طور خراب ہے بلکہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات اور زیادہ تشویشناک ہوتے جارہے ہیں اور لوگوں کا احتجاج نئی شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ایک وقت تھا کہ کشمیر میں جہاں کہیں فورسز اور جنگجوو¿ں کا اینکاونٹر لگتا،لوگ ڈر کے مارے اس علاقے سے کہیں دور بھاگا کرتے تھے اور کئی بار دیکھا گیا ہے کہ لوگ گھروں کی فکر کئے بغیر بس جان بچانے کی فکر میں بھاگ جایا کرتے تھے۔پھر لوگوں نے جنگجووں سے فاصلہ بنانا شروع کیا اور کئی سال تک ایسا لگا کہ عام لوگوں نے جنگجوئیت کو عملاََdisaproveکیا ہے۔تاہم اربابِ اقتدار نے اس صورتحال کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی شائد ضرورت ہی محسوس ہی نہیں کی ۔2008سے لیکر2016تک فقط لاٹھی اور بندوق پر بھروسہ کیا گیا،مذاکرات ،صلح جوئی،لوگ کی بات سنے جانے کے جیسی چیزیں جیسے لغت میں بھی کہیں موجود نہ تھیں اور اس صورتحال میں احساسِ بے گانگی کے ساتھ ساتھ احساسِ بے چارگی بھی بڑھتا رہا یہاں تک کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کا مقولہ گردش میں آگیا۔ گزشتہ سال ایک نئی چیز یہ دیکھی گئی کہ لوگوں نے جنگجووں کے جنازوں میں جذباتی طور شرکت کرنا شروع کیا۔سرکاری ایجنسیوں کو برسوں تگنی کا ناچ نچاتے رہے لشکر کمانڈر ابو قاسم،جنہوں نے جموں کشمیر پولس کے اہم ترین افسر الطاف احمد کو ہلاک کردیا تھا کہ جنکے نقصان کو پولس نے دو سو ایس پی رینک کے افسروں کے مارے جانے کے برابر نقصان بتایا تھا،کے جنازے میں قریب ایک لاکھ لوگوں نے شرکت کی اور پھر یہ معمول بن گیا کہ جہاں کہیں کوئی جنگجو مارا جانے لگا ہزاروں لوگوں نے جلوسِ جنازہ میں شرکت کرکے انکے ساتھ وابستگی جتلانا شروع کیا۔اس سال یہ صورتحال ایک قدم اور آگے جاکر یوں خطرناک ہوئی ہے کہ اب جہاں کہیں بھی فوج یا دیگر سرکاری فورسز کسی جنگجو کو گھیرلیتی ہیں مقامی لوگ ہزاروں میں جمع ہوکر آپریشن میں رکاوٹ ڈالنے کو کوشش کرکے جنگجووں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کی کوششوں میں ابھی تک کئی عام لوگ مارے بھی جاچکے ہیں جبکہ کئی جنگجووں کو فرار کا راستہ بھی ملا ہے۔
اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ حریت کانفرنس بھی حالات پر قابو کھوتی جارہی ہے اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے تک خود کو ”اپنی تقدیر کا مالک“سمجھتے ہوئے کسی سے پوچھے بغیر کچھ بھی کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔حالانکہ ابھی تک فقط حریت کانفرنس کے ہی کہنے پر وادی میں ہڑتالیں ہوتے دیکھی جاتی تھیں لیکن حالیہ دنوں میں کئی علاقوں میں دیکھا گیا ہے کہ سرکاری فورسز کی کسی بات یا حرکت سے مشتعل ہوکر مختلف علاقوں میں نوجوانوں نے خود ہی ہڑتال بھی کروائی ہے اور احتجاجی کے پروگرام دئے بھی اور عملائے بھی ہیں۔یعنی ایک وقت تھا کہ جب سرکاریں چاہتیں تو چند ایک ”لیڈروں“کو قائل کرکے معاملات کو سنبھال سکتی تھیں لیکن آج کے کشمیر میں چیزیں تیزی سے بدل رہی ہیں اور وہ سب ”لیڈر“خود بے بس محسوس ہورہے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ جنگجوئیت بھی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔جہاں دو ایک سال قبل وادی بھر میں سرگرم جنگجووں کی تعداد محض چند درجن تک محدود ہوگئی تھی وہیں ابھی خود سرکار کو اعتراف ہے کہ یہ تعداد سینکڑوں میں ہے اور روز ہی نئی بھرتی بھی ہورہی ہے۔
حزب المجاہدین کے کمانڈر ذاکر موسیٰ کی جانب سے حریت کانفرنس کے لیڈروں کو جان سے ماردینے کی دھمکی اور پھر سخت گیر نظریات کے ساتھ انکی حزب المجاہدین سے علیٰحدگی بھی کوئی معمولی یا نظر انداز کردینے والی چیز نہیں ہے۔
حزب المجاہدین کے کمانڈر ذاکر موسیٰ کی جانب سے حریت کانفرنس کے لیڈروں کو جان سے ماردینے کی دھمکی اور پھر سخت گیر نظریات کے ساتھ انکی حزب المجاہدین سے علیٰحدگی بھی کوئی معمولی یا نظر انداز کردینے والی چیز نہیں ہے۔ ذاکر موسیٰ نے آئی ایس آئی ایس کے جیسے نظریات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہکر حزب المجاہدین سے علیٰحدگی اختیار کی ہے کہ وہ کسی ”سکیولر اسٹیٹ“کے لئے اپنا خون نہیں بہا سکتے ہیں بلکہ وہ شریعتِ اسلامی کے لئے ہی لڑیں گے۔انہوں نے ”سکیولر خیالات“رکھنے کے لئے حریت لیڈروں کو جان سے مار کر انکے سر سرینگر کے لالچوک میں لٹکادئے جانے تک کی دھمکی دی ہے جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جموں کشمیر کی صورتحال پر فوری توجہ دیکر مسئلہ کشمیر نام کے جھنجٹ کو ٹھکانے لگانے میں مزید دیر جموں کشمیر کو ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان اور پھر شائد بر صغیر کو بھی ایک اور شام بناسکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اربابِ اقتدار کو اس صورتحال کا اندازہ نہیں ہے یا نہیں ہوگا لیکن کیا وجہ ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی”تعمیروترقی“کے گھسے پٹے نعروں اور وعدوں کے علاوہ فقط فوجی طاقت پر بھروسہ کیا جارہا ہے،یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔چناچہ حال ہی اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ سکیورٹی سے وابستہ اداروں نے وزارتِ داخلہ کو جموں کشمیر کے لئے گورنر راج تجویز کیا ہوا ہے۔ذرائع کے مطابق ان اداروں کا کہنا ہے کہ وادی میں اور زیادہ سختی کی جانی چاہیئے اور ایسا کرنا کسی جمہوری سرکار کے لئے مشکل جبکہ گورنر کے لئے آسان ہوگا۔ان اداروں کو لگتا ہے کہ کشمیریوں پر اور زیادہ سختی کی جائے تو شائد انکا غصہ ٹھنڈا ہوگا اور وہ گھٹنے ٹیک دینگے لیکن جنگجووں کی صفوں میں اپنا نام لکھوا چکے شوپیاں کے نوجوان زُبیر تُرے کی کہانی کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی غلطی نہیں ہوگی کہ گورنر راج کی تجویز دینے والے یہ ادارے بے وقوفوں کی جنت کی سیر پر ہیں۔زُبیر تُرے نامی اس نوجوان کو سنگبازی کے الزام میں گرفتار کرکے سالہا نظربند رکھا گیا اور پولس نے یقینی بنایا کہ عدالتی احکامات کے باوجود بھی وہ جیل سے باہر نہ آنے پائیں۔ پے درپے آتھ بار پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند کئے جانے اور رہائی پانے کے بعد پھر سے روز پولس تھانوں میں بلائے جانے سے تنگ آکر زُبیر حال ہی ایک پولس تھانہ سے فرار ہوگئے اور پھر فیس بُک پر فوجی وردی میں ملبوس ہوکر ہاتھ میں بندوق تھامے انہوں نے جنگجو بننے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ ریاست نے انکے سامنے کوئی اور راستہ چھوڑا ہی نہیں تھا لہٰذا مجبور ہوکر انہوں نے جنگجو بننے کا فیصلہ کیا ہے۔یعنی سرکار کی سخت پالیسیاں اب دیواروں سے ٹکرا کر اور بھی زیادہ سخت ہوکر واپس آسکتی ہیں اور ایسے میں پھول کھلنے کی امیدوں کی بجائے بم پھٹنے کے خدشات جنم لیتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر دلی دربار جموں کشمیر کی دھماکہ خیز صورتحال کا صحیح ادراک کرنے میں مزید دیر کرتی ہے تو چیزیں نا قابلِ مرمت حد تک بگڑ سکتی ہیں۔
جہاں تک محبوبہ مفتی کی پی ڈٰ ی پی کا تعلق ہے اسکی معتبریت تو بھاجپا کے ساتھ جانے کی وجہ سے ختم ہوہی گئی ہے اب یہ پارٹی لوگوں کو جھوٹ بولکر بہلانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔حالانکہ پی ڈٰ پی کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بھاجپا کے ساتھ ”ایجنڈا آف ایلائنس“نام کا ایک جامع معاہدہ کرچکی ہے جس میںجموں کشمیر میں اور ہندوپاک کے مابین بھی بات چیت کرانے کے جیسے وعدے بھی شامل ہیں۔پی ڈی پی کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدے کو روبہ عمل لائے جانے سے ریاست میں امن و ترقی ہوگی اور لوگ اپنے زخموں پر پھاہا رکھے جاتے محسوس کرینگے لیکن جب بھاجپا کے ریاستی صدر کھلے عام یہ کہتے ہوں کہ نئی دلی نے کشمیر کے حوالے سے کوئی بات چیت نہ کرنے کا اعلیٰ سطح پر فیصلہ لیا ہے تو پھر پی ڈی پی کیا کہے اور لوگ کیا سنکر امن کی امید باندھیں، یہ ایک سوال ہے۔
اس ساری صورتحال میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر دلی دربار جموں کشمیر کی دھماکہ خیز صورتحال کا صحیح ادراک کرنے میں مزید دیر کرتی ہے تو چیزیں نا قابلِ مرمت حد تک بگڑ سکتی ہیں۔یہ بات ممکن ہے کہ” آج کے ہندوستان “میںچھاتیوں کا سائز ماپنے اور صلح جوئی کی باتیں نہ کرنے سے کچھ لوگ خود کو ”باہو بلی“بتانے میں اور اپنی واہ واہ کرانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن اسکے جموں کشمیر میں انتہائی بُرے نتائج نکلیں گے۔یہی نہیں کہ وادی کشمیر کی ایک اور بہار تباہ ہوجائے گی بلکہ یہ بھی کہ وادی کشمیر دلی سے اور بھی زیادہ دور ہوجائے گی….!