یہ2011کا واقعہ ہے،اسلام آباد میں پنجاب ہائوس کے ہال میں ہم سب بیٹھے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی آمدکے انتظار میں تھے۔گرمیوں کے دن تھے،ہال میں ایئر کنڈیشن چل رہا تھا،ہال کی ہوا میں عجیب سی مسحور کن خوشبو تھی ،سانس لیتے ہوئے شادابی کا احساس ہوتا تھا،میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایسی قوت بخش ،مسحور کن خوشبو کا سا ماحول میں نے پہلے کہاں دیکھا تھا،اچانک یاد آیا کہ لندن کے قریب واقع ایک قصبے ریڈنگ کے ٹائون ہال کے بازار میں گھومتے ہوئے ایسی ہی فرحت بخش خوشبو والی ہوائوں کا ماحول تھا۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ جس ملک کے حکمران ایسی شاندار فضا میں سانس لیتے ہیں،انہیں عوام کی مشکلات،مصائب اور ذلت بھری زندگی کا احساس کیسے ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالی کی طرف سے شاہی زندگی کی نعمت سے سرفراز اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ایک اجلاس میں سختی سے کہا کہ جائیدادوں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے،چناچہ پراپرٹی ٹیکس کی شرح میں (نمایاں،حسب ضرورت) اضافہ کر دیا جائے۔
دو تین دن پہلے،ٹی وی پہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے بعد بجٹ کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ایک صحافی نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے سوال کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ مزدوروں کے لئے صرف ایک ہزار روپے اضافہ کرتے ہوئے ان کی اجرت 14ہزار سے15ہزار کی گئی ہے اور یہ اضافہ7.1فیصد بنتا ہے۔اس پر شاہانہ زندگی انجوائے کرنے کی نعمت سے سرفراز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہنے لگے ،اچھا،اگر دس فیصد اضافہ کر دیا جائے تو یہ رقم پندرہ ہزار چار سو روپے بنتی ہے،چلو ابھی تو تجاویز آ رہی ہیں،دیکھتے ہیں۔(سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ یوں ہوتا ہے کہ سب سے بڑے افسران کی تنخواہوں میں اضافہ ”ہنڈسم” ہوتا ہے جبکہ چپڑاسی تک یہ اضافہ چند سو روپے رہ جاتا ہے)
اللہ تعالی کی طرف سے شاہی زندگی کی نعمت سے سرفراز اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ایک اجلاس میں سختی سے کہا کہ جائیدادوں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے،چناچہ پراپرٹی ٹیکس کی شرح میں (نمایاں،حسب ضرورت) اضافہ کر دیا جائے۔(بد بخت عوام کو پتہ نہیں کہ عوام کی خدمت پر معمور افراد کے اخراجات میں کتنا اضافہ ہو گیا ہے،ملک سے محبت،وفاداری اور اطاعت کا تقاضہ یہی ہے کہ عوام کا خون اب قطرہ قطرہ نہیں بلکہ زیادہ مقدار میں نکالا جائے،عوام غذائیت کی کمی لاحق ہونے کی فکر نہ کریں،رزق دینے والی اللہ کی ذات ہے)
پھر خیال آیا کہ ہم تو غلام ہیں ،تاہم ہماری غلامی کے طور طریقے بدل دیئے گئے ہیں،عوام کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ملک ان کا ہے،کیا ہوا اگر ان کے نصیب میں روز سسک سسک کر جینا اور مرنا تقدیر امر بن چکا ہے،
میں پھر سوچ میں پڑ گیا ،پاکستان بنانے کا احسان عوام کا ہے یا کاروبار ریاست چلانے والوں کا،پھر خیال آیا کہ ہم تو غلام ہیں ،تاہم ہماری غلامی کے طور طریقے بدل دیئے گئے ہیں،عوام کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ملک ان کا ہے،کیا ہوا اگر ان کے نصیب میں روز سسک سسک کر جینا اور مرنا تقدیر امر بن چکا ہے،ملک اور ملک چلانے والوں کا مفاد اسی میں ہے کہ عوام اپنا مال و اسباب بیچ کر(ہو سکے تو خود کو بھی بیچ کر) سرکاری وصولیوں کی ادائیگی کو یقینی بنائیں،غذائیت کی کمی کا شکار ہو کر مر جائیں لیکن اس ملک کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اور نہ ہی ملک کی فکر کریں کیونکہ ملک بہت مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ملک میں قائم اس مضبوط نظام پر کوئی بھی بری نظر بھی نہیں ڈال سکتا۔اللہ اکبر
آخر میں ارباب اختیار سے اتنی گزارش ہے کہ عوام کو اتنا ہی ” عزیز” رکھیں کہ آپ کا دل بہلتا جائے،اتنا زیادہ نہ چاہیں کہ عوام کا دم ہی نکل جائے۔عوام کو مفلوک الحال بنائے رکھیں اور سونے کے انڈے وصول کرتے جائیں، لیکن سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو ذبح کرنے پہ نہ تل جائیں۔