کولگام میں فوجی آفیسر لیفٹینٹ عمر فیاض کے نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد نئی دلی نے کشمیریوں کے خلاف اپنی غیر اعلانیہ جنگ کو اعلانیہ جنگ میں تبدیل کیا ہے ۔
سیاسی قیادت تو ایک طرف ٹی وی چینلوں پر جسطرح کشمیری قوم کو گالیاں دینے، بے عزت کرنے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی دانستہ کوششوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے ۔ نام نہاد دانشور، فوجی ماہرین ، سرکردہ تجزیہ نگار اور صحافی تمام پیشہ ورانہ اور اخلاقی اقدار کی مٹی پلید کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ جہاں ہندو انتہا پسند ریاست میں جاری عوامی مزاحمت کو اسلامی انتہا پسندی کا نام دیکر ہندوستان کی ہر سطح پر کھلی جارحیت کو جواز بخشنے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہاں چند مسلم تجزیہ نگار اور سیاسی لیڈران ، جن کی وقعت اور قدر وقیمت اب ہندوستان میں گائے سے کم ہے اپنے کو شاہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کیلئے کشمیریوں کو بدنام کرنے میںہندو جنونیوں کو بھی پیچھے چھوڑ رہے ہیں ۔ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے عمر فیاض کے قتل کے بعد کشمیر کے ہر گھر میں جشن جاری ہے اور ہندوستان کے ہر گھر میں عمر فیاض کے غم میں ابھی ماتم داری کی وجہ سے کوئی چولہا تک بھی نہیں جل رہا ہے ۔ ساتھ ہی مزاحمتی قیادت تو دور کی بات عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جو کبھی کسی بات پرباہم متفق نہیں ہوتے اس بات پر آسانی سے اس حد تک متفق ہوئے کہ جیسے عمر فیاض کے قتل سے پہلے ان دونوں سے باضابطہ مشورہ کیا گیا ہے اور ان سے اجازت نامہ حاصل کیا گیا ہے ۔
ستم ظریفی دیکھئے ایک وقت تھا جب کشمیریوں کی سیاسی قیادت میں انتہائی شدت پسندانہ خیالات رکھنے والے لوگ کشمیر مسئلہ کو سیاسی نہیں بلکہ مذہبی مسئلہ مانتے تھے اور نئی دلی کی بظاہر بہت بڑی خواہش تھی کہ کشمیری لوگ تنازعہ کو سیاسی تنازعہ مانیں اور آج کی تاریخ میں گیلانی صاحب سے لیکر میر واعظ تک چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ جموں اور کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ٹی وی انکر س سے لیکر وزیر اعظم ہند اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی کا مسئلہ ہے ۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ گیلانی سے لیکر مفتی ناصر الاسلام اور منتخب عوامی نمائندوں سے لیکر طالب علموں تک کو صرف حق بات کہنے کے جرم میں تامل ناڑو، ناگالینڈ اور انڈومان جیلوں میں پابند سلاسل کرنے اور ان پر مقدمہ چلا کر انہیں بغاوت کے الزام میں سزا ئے موت دینے کا سیدھا سیدھا مطالبہ ارنب گو سوامی جیسے لوگ کھل کر کر رہے ہیں۔ عمر فیاض کے قتل کا ہر حال میں بدلہ لینے کی رات دن دہائیاں دی جا رہی ہیںاور قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں کشمیریوں پر کیاگذرتی ہوگی اسکا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے ایک وقت تھا جب کشمیریوں کی سیاسی قیادت میں انتہائی شدت پسندانہ خیالات رکھنے والے لوگ کشمیر مسئلہ کو سیاسی نہیں بلکہ مذہبی مسئلہ مانتے تھے اور نئی دلی کی بظاہر بہت بڑی خواہش تھی کہ کشمیری لوگ تنازعہ کو سیاسی تنازعہ مانیں اور آج کی تاریخ میں گیلانی صاحب سے لیکر میر واعظ تک چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ جموں اور کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ٹی وی انکر س سے لیکر وزیر اعظم ہند اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی کا مسئلہ ہے ۔
اپنے کمزور مقدمے کو جلا بخشنے کیلئے پہلے کشمیر میں مقامی TVچینلوں پر پابندی عائد کرکے اہل کشمیر کو تعصب پرست ہندوستانی میڈیا کی یکطرفہ داستان گوئی اور داروغ گوئی سننے کیلئے مجبور کیا گیا اور اب اس پہلے قدم کی کامیابی کے بعد انتہائی بے شرمی کے ساتھ 34چینلوں کو یا تو پاکستانی یا پھر اسلامی نام دے کر وادی میں بند کرکے اکثریتی طبقہ کا ناک میں دم کر دیا گیاہے ۔ فیاض عامر کی ہلاکت کو لیکر غلط پروپگنڈہ اسی مذموم عمل کا حصہ ہے ۔ کوئی آرام دہ TVاسٹیڈیو ز میں بیٹھے ریٹائرڑ فوجی جرنیلوں سے پوچھے کہ ان کے بے رحم ہاتھوں کتنے عامر فیاض اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
ہندوستانی میڈیا عامر کے قتل سے زیادہ دلچسپی یہ پروپگنڈہ کرنے میں صرف کر رہا ہے کہ اصلی ہیرو برہان ہے یا عامر اور ساتھ ہی انہیں یہ شکوہ بھی ہے کہ آخر کشمیریوں نے عامر کے جنازے میں اسی بھا ری تعداد میں شرکت کیوں نہیں کی جسقدر وہ برہان کے نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ جرنیل اور ٹی وی اسٹیڈیوز میں بیٹھے دانشور اس قدر بیوقوف نہیں ہونگے کہ انہیں ان تمام سوالوں کا جواب معلوم نہیں ہوگا۔
ہندوستانی میڈیا عامر کے قتل سے زیادہ دلچسپی یہ پروپگنڈہ کرنے میں صرف کر رہا ہے کہ اصلی ہیرو برہان ہے یا عامر اور ساتھ ہی انہیں یہ شکوہ بھی ہے کہ آخر کشمیریوں نے عامر کے جنازے میں اسی بھا ری تعداد میں شرکت کیوں نہیں کی جسقدر وہ برہان کے نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ جرنیل اور ٹی وی اسٹیڈیوز میں بیٹھے دانشور اس قدر بیوقوف نہیں ہونگے کہ انہیں ان تمام سوالوں کا جواب معلوم نہیں ہوگا۔ دراصل یہ سارے لوگ جان بوجھ کر ایسے بیہودہ سوالات کھڑے کر رہے ہیں جن کا واحد مقصد کشمیریوں کی دل آزاری کرنا اور انہیں امن کے دشمنوں کے طور پیش کرنا ہے ۔
ذاکر موسیٰ کے خیالات سے اختلاف کرنے کا ہر کسی کو حق ہے لیکن کوئی یہ تو بتا دے کہ جب جنرل حسنین ،جنرل بخشی ،ارنب گو سوامی، معروف رضا ، آر کے سنگھ اور ان کے قد کے باقی لوگ ہر بات کو لیکر براہ راست ہر برائی کیلئے اسلام کو بیچ میں لاتے ہیں اور کشمیر میں کبھی وہابی اسلام اور صوفی اسلام کے نام پر تو کبھی شعیہ اور سُنی کے نام پر مسلمانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے کی کوششیں کرکے ۰۷سالہ دیرینہ تنازعے کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں تو ایسے میں ذاکر موسیٰ کی باتوں سے اتفاق کرنے کی کافی گنجائش بنتی ہے ۔جسطرح ذاکر نائک جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالر اور اعتدال پسند کو ہندوستان چھوڑنا پڑا وہ تو نام نہادسیکولر الزم کے دعوےداروں کے چہرے پر جہاں بڑا کالک ہے وہاں اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ ہندو جنونی مسلمانوں کے متعلق کس قدر نفرت رکھتے ہیں۔ جب ہندوستان ایک مکمل ہندو دیش بننے کی طرف رواں دواں ہے اور شرعی امورات بشمول سہہ طلاق اور اذان جیسے اہم اور نازک معاملات کو لیکر مسلمانوں سے زیادہ اسلام کو حدف تنقید بنانے کی راہ پر سارا ہندوستان نکل پڑا تو اسلامی سلطنت کا مطالبہ کرنا کونسا بڑا جرم ہے۔ اگر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو اپنی ہی ریاست میں غالب اکثریت میں ہونے کے باوجود ہندﺅں کی خوشنودی کیلئے بڑا گوشت کھانا تو دور کی بات مویشیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا بھی جرم قرار پایا ہے تو ذاکر موسیٰ اگر آزادی برائے اسلام کی بات کرے تو انہیں ہدف تنقید بنانا کیا معنیٰ رکھتا ہے ۔
رہی سہی کسر تو چند کشمیر دشمن اور مسلمان دشمن نام نہاد کشمیری پنڈت دانشور پورا کر رہے ہیں جو کشمیر کی سر زمین کو اپنا وطن تو کہتے ہیں لیکن اس کا وجود مٹانا اُن کا سب سے بنیادی مقصد ہے جس کی غالب وجہ ان متعصب کشمیری پنڈتوں کی مقامی اکثریتی آبادی سے بے پناہ نفرت ہے ۔رہی بات عامر فیاض کی ہلاکت کو لیکر ہندوستانی دانشوروں اور میڈیا کی فرضی کہانیوں اور ہمدردیوں کی تو اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ نئی دلی عامر فیاض کی ہلاکت کو اپنے مخصوص عزائم کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے ۔ قومی میڈیا پر کشمیریوں اور برہان کی کردار کشی کرنے والے متعصب دانشوروں اور ٹی وی اینکروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس سارے خون خرابے سے اگر کوئی سب سے زیادہ تنگ آ چکا ہے تو وہ کشمیری لوگ ہیں ۔
متعصب دانشوروں اور ٹی وی اینکروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس سارے خون خرابے سے اگر کوئی سب سے زیادہ تنگ آ چکا ہے تو وہ کشمیری لوگ ہیں ۔
عامر فیاض کے غم میں مگر مچھ کے آنسو بہانے والے ہندوستانیوں کو چاہئے کہ وہ برہان کی والدہ سے عامر کے اہل خانہ کے درد کے بارے میں ایک بار پوچھ لیں ۔شائد انہیں یہ سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ برہان کی ماں کو لیفٹننٹ عامر فیاض کی ماں کا درد پوری شدت سے محسوس ہوتا ہوگا کیونکہ وہ ایک عامر فیاض کو نہیں بلکہ اپنے دو عامر فیاض ہندوستان کے بہادر وردی پوشوں کے ہاتھوں کھو چکی ہےں ۔ لیکن مارا ماری کا یہ کھیل روکنا نہ تو عامر فیاض کی ماں کے ہاتھ میں ہے اور نہ ہی برہان کی ماں کے ہاتھ میں ہے کیونکہ مسائل کے حل کی چابی صرف اور صرف نئی دلی کے پاس ہے جو فی الحال طاقت کے نشے میں چور ہو کر کشمیریوں کو ہی نہیں بلکہ اُن کے مذہب کو بھی ناقابل برداشت حد تک بالواسطہ یا بلاواسطہ شدید حملوں کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ کشمیر یوں کیلئے بلاشبہ واپسی کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں ۔
زمینی سطح پر برسر پیکار عسکری قیادت پر تنقید کرنے والوں کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ حزب المجاہدین کے ساتھ جنگ بندی کے بعد نئی دلی نے جسطرح حزب کی اعلیٰ قیادت کو کیوں پہلے اپنے ہی لوگوں کی نظروں میں مشکوک بنا دیا اور پھر انہیں چن چن کر بے دردی کے ساتھ تہہ تیغ کیا ۔ لہذا اگر کشمیری اس تلخ حقیقیت کو نہ سمجھیں کہ نئی دلی کشمیریوں کی اعتدال پسندی کو اُن کی کمزوری سمجھتی ہے تو ایسے میں سارا نقصان کشمیریوں کو ہوگا اور نئی دلی انہیں اپنی انگلیوں پر نچاتی رہے گی۔ جب تک نہ نئی دلی اپنی جارحانہ اور مسلم دشمن پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے آمادی ہو جائے گی تب تک کسی بھی سطح پر کشمیریوں کا اپنے موقف میں ذرہ بھر بھی لچک لانا خود کشی سے کچھ کم نہیں ہوگا۔