کہانی ایک سِٹنگ آپریشن کی…!

ہماری پارٹی کے ترجمان انعام النبی نے” مظفر صاحب“کے ساتھ میری ملاقات کا وقت مانگنے کے لئے انکی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے کہا تھا”میں انہیں کسی اور سے بہت قریب سے جانتا ہو،مظفر صاحب ایک نہایت ہی معتبر شخص ہیں اور تحریک پسند حلقے میں خوب پہچان رکھتے ہیں، میرواعظ صاحب کی حریت کے لئے انہوں نے نارتھ کشمیر میں کئی پروگرام بھی تو کئے ہیں،انکا ہمارے ساتھ ملاقات کرنے کی خواہش کرنا تو ہماری معتبریت ثابت کرتا ہے “۔ظاہر ہے کہ یہ الفاظ مجھے آمادہ کرنے کے لئے کافی تھے اور میں نے مظفر کے ساتھ ملاقات کےلئے حامی بھرلی۔
یہ سال رواں کے جنوری کا دوسرا ہفتہ تھا اور منگل کی شام تھی کہ میں جموں کے محلہ شاہ آباد میں اپنی قیام گاہ پر اکیلے بیٹھا تھا مظفر صاحب آبیٹھے….میں نے انہیں بڑے تپاک اور گرمجوشی سے لیا۔تندرست و توانا ان صاحب کے ساتھ میری کوئی شناسائی تو تھی نہیں لیکن یوں ملے کہ جیسے برسوں کا یارانہ ہو اور پھر مسئلہ کشمیر اور اس سے منسلک چیزوں پر وہ اس اعتماد و صاف گوئی سے بولنے لگے کہ مجھے اپنے پارٹی ترجمان انعام النبی کی بتائی ہوئی وہ ہر بات درست لگی کہ جو انہوں نے مظفر صاحب کے ساتھ ملاقات کے لئے وقت مانگتے ہوئے انکے تعارف میں کہی تھی۔
کسی تاقف کے بغیر مظفر صاحب کہنے لگے ”میرا فقط ایک مقصد ہے کہ میں مسئلہ کشمیر کو حل ہوتے دیکھنا چاہتاہوں“،میں انہیں اس سے بھی بڑا سمجھنے لگا کہ جتنا بڑا بنا کر انعام نے انہیں پیش کیا تھا۔شائد اسلئے کہ میں خود کشمیر کی صورتحال کو لیکر جذباتی ہوں اور اس مسئلے کو یہاں کے ستم رسیدہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں اور اس حوالے سے کسی کے ساتھ بھی اخلاص کی بنیاد پر تعاون کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہوں۔ مظفرصاحب نے کہا”اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ہوا ہے اور یہ اسکا کرم ہے کہ مجھ پر نہ صرف ہندوستان کے کاروباری سیکٹر کے لوگ بھروسہ کرتے ہیں بلکہ میں نے انڈین پرائمیر لیگ (آئی پی ایل)کے ساتھ منسلک کاروبار میں بھی نام بنایا ہے اور اسکے علاوہ تحریکی قیادت نے بھی وقت وقت پر مجھ پر بھروسے اور اعتماد کا اظہار کیا ہے“۔

تندرست و توانا ان صاحب کے ساتھ میری کوئی شناسائی تو تھی نہیں لیکن یوں ملے کہ جیسے برسوں کا یارانہ ہو اور پھر مسئلہ کشمیر اور اس سے منسلک چیزوں پر وہ اس اعتماد و صاف گوئی سے بولنے لگے کہ مجھے اپنے پارٹی ترجمان انعام النبی کی بتائی ہوئی وہ ہر بات درست لگی کہ جو انہوں نے مظفر صاحب کے ساتھ ملاقات کے لئے وقت مانگتے ہوئے انکے تعارف میں کہی تھی۔

دو ایک کمروں پر مشتمل میری قیام گاہ کی بیٹھک میں میرے برابر میں بیٹھے مظفر صاحب نمکین چائے کی چُسکیاں لیتے ہوئے اب اور بھی بے تکلف ہوگئے تھے۔وہ کہنے لگے”رشید صاحب کشمیری لوگ آپ کو چاہنے اور آپ سے محبت کرنے لگے ہیں،وہ آپ پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن آپ خود کو لنگیٹ تک محدود کرکے نہ رکھیں۔لوگوں کو آپ کی ضرورت ہے اور انکے کام آنے کے لئے آپ کو ہندوستان میں کشمیریوں کے نیک چاہنے والوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے“۔مظفر صاحب کی باتیں بے دم نہیں تھیں،بے جا بھی نہیں لہٰذا میں نے انہیں دلچسپی کے ساتھ سنا اور یوں جواب دیا”میں نے تو یہ بات بار بار اور کئی بار واضح کی ہے کہ میں اپنے مصیبت زدہ لوگوں کے بھلے کے لئے اُدھے ٹھاکرے سے لیکر حافظ سعیدسے ملنے پر بھی آمادہ ہوں“۔میرے مہمان نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا”اوجناب آپ بڑے سادہ ہیں،آپ کس بات کا انتظار کرتے ہیں آپ دلی آجائیں اور کارپوریٹ سیکٹر میں (وزیراعظم)مودی مخالف لابی کے لوگوں سے ملیں۔یہ لابی مودی مخالف فورسز کو متحد ہوکر کام کرتے اور مودی کو انکا اصل مقام دکھاتے دیکھنا چاہتی ہے۔ہندوستان میں کچھ بڑے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ آپ اسمبلی میں بعض اہم مسائل اٹھائیں،اسکے علاوہ بھی وہ آپ کے ساتھ کچھ اور اہم مسئلوں پر بات کرنا چاہتے ہیں“۔میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن مظفر یوں بے تکلف تھے کہ انہوں نے ایک بار پھر میری بات کاٹی اور کہنے لگے”اگر مگر کچھ بھی نہیں بلکہ ہمیں اسی سنیچر کو نئی دلی جانا ہے،سنیچر اور اتوار کو تو چھٹی ہے نا“۔اس سے پہلے کہ میں حتمی طور کچھ کہتا مظفر صاحب چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ سجائے چلے جانے لگے،اب ہم دلی میں ملیں گے“۔
جمعہ کی صبح مظفر صاحب نے انعام کو پھر فون کیا اور کہا کہ وہ ہم دونوں کے لئے سنیچر کی صبح کے جہاز کی ٹکٹیں بھیج رہے ہیں۔میں نے انہیں انعام کے ذرئعے یہ کہکرٹکٹ بھیجنے سے منع کروایا کہ ہم اپنے خرچے پر آئیں گے۔مظفر صاحب کی پیشکش ٹھکرانے کے بعد میں نے ہوائی ٹکٹ کی قیمت پتہ کرائی تو معلوم ہواکہ ،میرے بجٹ سے باہر، ایک جانب سے فی کس پندرہ ہزار روپے کا کرایہ ہے۔میں نے انعام سے کہا کہ وہ مظفر صاحب سے معذرت چاہیں کہ ہم اتنا مہنگا کرایہ دیکر دلی نہیں جاسکتے ہیں۔میرے کہنے پر انعام نے ایسا ہی کیا اور جواب میں مظفر صاحب نے گویا میری سادگی کا کسی حد تک تمسخر اڑاتے ہوئے کہا ” انجینئر صاحب بڑے سادہ ہیں،محض سٹھ ہزار روپے ایک مقدس مقصد کے سامنے کیا معنی ٰرکھتے ہیں“۔

آپ بڑے سادہ ہیں،آپ کس بات کا انتظار کرتے ہیں آپ دلی آجائیں اور کارپوریٹ سیکٹر میں (وزیراعظم)مودی مخالف لابی کے لوگوں سے ملیں۔یہ لابی مودی مخالف فورسز کو متحد ہوکر کام کرتے اور مودی کو انکا اصل مقام دکھاتے دیکھنا چاہتی ہے۔

ہفتے گزر گئے ….اسمبلی کا اجلاس ختم ہوگیا،ہم سرینگر آگئے تھے ،5مارچ کو انعام نے مجھے بتایا کہ مظفر صاحب نے کئی بار فون کرکے بتایا ہے کہ انکے وہ دوست سرینگر میں ہیں اوراگلے دن شام 5بجے ہمیں سونہ وار میں واقعہ ہوٹل سروورمیں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔
ہم وقت پر ہوٹل پہنچ گئے،مظفر نے اپنے ساتھیوں کا تعارف کرنا چاہا لیکن ان میں سے ایک شخص نے انہیں موقعہ دئے بغیر ایک خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ خود ہی اپنا تعارف کرایا….میرا نام جمشید ہے۔اسکے ساتھ ہی وہ دوسری منزل میں اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگے اور ہم دونوں بھی انکے پیچھے پیچھے ہو لئے۔وقت ضائع کئے بغیر جمشید اور انکے دو ساتھی انتہائی سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کرنے لگے۔انہوںنے کہا”آپ کو نہیں معلوم کہ لوگ آپ پر کس حد تک بھروسہ کرتے ہیں اور آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔آپ کو نہیں معلوم ہے کہ مودی جی نہ صرف کشمیر کی تباہی پر تُلے ہوئے ہیں بلکہ وہ تو پورے بھارت کو تباہ کررہے ہیں۔ہم سبھی امن چاہنے والوں اور سکیولر و مودی مخالف طاقتوں سے رابطے میں ہیں اور اس صورتحال پر مشترکہ طور سوچنا چاہتے ہیں۔ہمیں لگتا ہے کہ آپ کو خود اپنے کام کا اور اپنی حیثیت و معتبریت کا اندازہ تک نہیں ہے“۔یہ سب جمشید انتہائی اعتماد،سنجیدگی اور بھلا کی زیرکی سے یوں کہہ رہے تھے کہ انکی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر رہنا مشکل تھا۔
مسئلہ کشمیر اور اس سے جُڑے معاملات پر جمشید اس طرح بولنے لگے کہ جیسے کوئی غیر نہیں بلکہ خود ایک عام کشمیری ہوں کہ جو خود وہ سب سہتے آرہے ہوں کہ جو اب دہائیوں سے کشمیریوں کا مقدر ہوکے رہ گیا ہے۔انکا کہنا تھا”دائمی امن اور خود بھارت کے اپنے مفادات کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے لیکن انجینئر صاحب کیا آپ کو لگتا ہے کہ عمر عبداللہ،محبوبہ مفتی اور یہاں تک کہ حریت کانفرنس بھی کر سکتی ہے“۔سچ پوچھئے تو آپ امید کی واحد کرن ہیں،ہم آپ کی ،آپ کے عزم اور استقلال کے لئے،عزت کرتے ہیں۔البتہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بے کار ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے انہیں رد کرنا ضروری ہے“۔ایک لمحے کے لئے ہمیں یوں لگنے لگا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ کوئی کشمیریوں کی پریشانیوں کو محسوس ہی نہیں کرتا ہے اور ان پر بیتتی آرہی مشکلات سے واقف ہی نہیں ہے۔بلکہ یوں لگا کہ جیسے کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کو واقعی خود ہندوستان میں بھی مقبولیت اور سہارا ملنے کی امید پیدا ہوگئی ہو۔میں خاموشی سے جمشید کی باتیں سنتا رہا۔

میں نے بڑی سادگی کے ساتھ کہا کہ یہ سب تو ہم کرتے آہی رہے ہیں اس میں نیا کیا ہے تاہم جمشید نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں بجٹ بناو¿ں اور وہ مجھے نہ صرف ان احتجاجی مظاہروں بلکہ ہر طرح کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے لئے بہت بڑی رقم دیدیںگے۔میں نے کسی قسم کے شک میں مبتلا ہوئے بغیر اپنی اصولی پالیسی ان پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی سے کوئی خفیہ فنڈنگ قبول نہیں کرتے ہیں لہٰذا انسے بھی نہیں کرسکتے

مظفر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اس سب کے لئے آپ کو پیسہ چاہیئے ہوگا اور وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ جمشید نے کہا”وہ کوئی مسئلہ نہیں ہے،ہم اس کاز کی مدد کےلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں کہ جسکے لئے انجینئر صاحب لڑ رہے ہیں کیونکہ یہ دراصل ہمارا مشترکہ کاز ہے“۔اسکے بعد جمشید نے کہا کہ میں پرانے کرنسی نوٹوں کی تنسیخ،ایل او سی پر ہورہی فائرنگ اور متواتر ہورہی انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کے خلاف احتجاجی مظاہرے کروں۔میں نے بڑی سادگی کے ساتھ کہا کہ یہ سب تو ہم کرتے آہی رہے ہیں اس میں نیا کیا ہے تاہم جمشید نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں بجٹ بناوں اور وہ مجھے نہ صرف ان احتجاجی مظاہروں بلکہ ہر طرح کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے لئے بہت بڑی رقم دیدیںگے۔میں نے کسی قسم کے شک میں مبتلا ہوئے بغیر اپنی اصولی پالیسی ان پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی سے کوئی خفیہ فنڈنگ قبول نہیں کرتے ہیں لہٰذا انسے بھی نہیں کرسکتے البتہ ہم خوش ہونگے کہ اگر وہ ہماری اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھتے ہوئے کشمیریوں کے مصائب کی زندگی سے باہر آنے کا راستہ آسان کرنے میں مدد کرنے پر تیار ہوں۔جمشید اور انکے ساتھیوںکے جتن مجھے آمادہ یا قائل کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے کمرے میں موجود ایک لاکر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انکے ساتھ پرانے کرنسی نوٹوں میں کچھ کروڑ روپے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میں انہیں بدلنے میں انکی مدد کروں۔انہوں نے کہا کہ میں اس بھاری رقم میں سے ”اپنا حصہ“لے سکتا ہوں اور اسے اپنے کارکنوں میں تقسیم کرسکتا ہوں اور یہ سب،انکے بقول،غیر اخلاقی نہیں تھا۔میں کھڑا ہوکر کمرے سے یہ کہتے ہوئے جانے لگا کہ یہ سب میرے ضمیر کے مطابق صحیح نہیں ہے لہٰذا میں یا میرا کوئی بھی ساتھی اس پر تیار نہیں ہو سکتا ہے،البتہ میں نے انہیں اتنا ضرور کہا کہ میں انکا ہمیشہ مشکور رہوں گا کہ انہوں نے حمایت کی پیشکش کی ہے اور وہ ہماری مدد کرنے کی پیشکش لے کر آئے۔وہ لوگ مایوس ہوگئے تاہم جمشید نے اپنا ذاتی موبائل نمبر (8076621667)لکھواتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کا موڈ بنا تو انسے رابطہ کروں،اسکے ساتھ ہی دو گھنٹہ طویل یہ دلچسپ ملاقات ختم ہوگئے اور ہم یہاں سے چلے آئے۔5
مارچ کی اُس شام سے لیکر 6مئی کی صبح تک میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان لوگوں کا مقصد کچھ اور ہوسکتا ہے بلکہ میں اس حسن ظن میں مبتلا تھا کہ وہ واقعہ خود ہندوستان کے اپنے مفاد میں کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ لیکن 6مئی کو انڈیا ٹوڈے نے حریت لیڈرنعیم خان اور دیگراں کا سٹنگ آپریشن سامنے لایا تو مجھے یہ سمجھنے میں تھوڑا بھی وقت نہیں لگا کہ وہ جو کشمیریوں کے لئے دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری مددکرنا چاہتے تھے کوئی کاروباری تھے اور نہ آئی پی ایل کے اسپانسر بلکہ وہ دراصل جاسوس رہے ہیں کہ جو حریت لیڈروں کے ساتھ ساتھ میرا بھی اسٹنگ آپریشن کرنا چاہتے تھے۔حالانکہ میں نے صرف اپنے اصولوں کی خاطرانکی پیشکش ٹھکرادی تھی۔

انڈیا ٹوڈے میں رتی برابر بھی ایمانداری یا کسی اصول کی پاسداری ہے تو پھر انہیں ہمارے اسٹنگ آپریشن کو بھی سامنے لانا چاہیئے تھا۔مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کرینگے کیونکہ ایسا ہوا تو یہ بات ایک بارپھر دنیا کے سامنے آئے گی کہ سبھی کشمیری بھکاو نہیں ہیں اور یہاں جاری جائز تحریک کسی خاص لیڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ خود سبھی لیڈر اس تحریک کی وجہ سے وجود رکھتے ہیں

ہوسکتا ہے کہ انڈیا ٹوڈے اس اسٹنگ آپریشن نامی غیر اخلاقی کام کے لئے جواز پیش کرے لیکن اگر انڈیا ٹوڈے میں رتی برابر بھی ایمانداری یا کسی اصول کی پاسداری ہے تو پھر انہیں ہمارے اسٹنگ آپریشن کو بھی سامنے لانا چاہیئے تھا۔مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کرینگے کیونکہ ایسا ہوا تو یہ بات ایک بارپھر دنیا کے سامنے آئے گی کہ سبھی کشمیری بھکاو نہیں ہیں اور یہاں جاری جائز تحریک کسی خاص لیڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ خود سبھی لیڈر اس تحریک کی وجہ سے وجود رکھتے ہیں لیکن انڈیا ٹوڈے سمیت سارے بھارت کا میڈیا ایسا کبھی ہونے دے گا اور نہ ہی ایسا ہوتے دیکھنے کی بھارتیوں میں برداشت پیدا ہونے دیگا۔

Exit mobile version