صدرِآزاد کشمیرکا اقبالِ شکست!

بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف میڈیا کے محاذ پر بھی خاص توجہ دے رہا ہے۔اس بارے میں صدرِ آزاد کشمیر مسعود خان نے ایک کانفرنس میں برملا اس حقیقت کا اظہار کیا کہ کیمیونیکیشن کے شعبے میں بھارت نے ہمیں ہرایا ہے۔ ا س حوالے سے یہ صورتحال درپیش ہے کہ پاکستان کا سرکاری اور نجی میڈیا کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ،مسئلہ کشمیر کو نا صرف بری طرح نظر انداز کر رہا ہے بلکہ بھارتی پروپیگنڈے کو مانیٹر کرنے اور اس کے موثر جواب کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں ہے۔

جدید دور میں میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر پاکستانی میڈیا میں پاکستان کی بقاء،اساس اور استحکام سے مربوط مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنا سنگین ہی نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔گزشہ کچھ عرصے سے دیکھا جا رہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے چند افراد کے ذریعے کالم، مضامین وغیرہ شائع کراتے ہوئے بھارتی موقف کے مطابق کشمیریوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارت اپنے وسائل سے اپنی جھوٹی بات کو بھر پور طور پر پھیلا رہا ہے جبکہ ہماری طرف سے بھارتی پروپیگنڈے کے مضر اثرات اور اس کے موثر جواب کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ہماری طرف سے میڈیا پر کشمیر پہ جو تھوڑی بہت بات ہوتی ہے،وہ بھی نمائشی،غیر موثر انداز میں،جس سے سنجیدہ افراد بالکل بھی متاثر نہیں ہوتے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قلمی محاذ پر ایسے کشمیریوں کی خدمات حاصل کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے جو ہندوستانی مائینڈ سیٹ کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہوئے ہندوستان کے جھوٹے،گمراہ کن پروپیگنڈے کی دھجیاں بکھیر سکتے ہیں۔ بھارتی پروپیگنڈے کو باقاعدہ مانیٹر کرتے ہوئے اس کا بھرپور اور موثر جواب نہ دینے میں حکومت اور دفاعی ادارے برابر کے ذمہ دار ہیں۔

جدید دور میں میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر پاکستانی میڈیا میں پاکستان کی بقاء،اساس اور استحکام سے مربوط مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنا سنگین ہی نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔گزشہ کچھ عرصے سے دیکھا جا رہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے چند افراد کے ذریعے کالم، مضامین وغیرہ شائع کراتے ہوئے بھارتی موقف کے مطابق کشمیریوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارت اپنے وسائل سے اپنی جھوٹی بات کو بھر پور طور پر پھیلا رہا ہے جبکہ ہماری طرف سے بھارتی پروپیگنڈے کے مضر اثرات اور اس کے موثر جواب کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔

کشمیر کے تاریخی قصبے بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے برطانیہ میں مقیم ،کشمیر کاز کے حوالے سے عالمی سطح پر سرگرم ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے ان دنوں سوشل میڈیا پہ مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوﺅں کے حوالے سے تحریروں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔گیلانی صاحب کی نئی تحریر کا موضوع بھی نہایت اہم ہے ۔اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی کوئی شخصیت اس انداز میں مسئلہ کشمیر کے حقائق،ضروریات اور عوامل بیان نہیں کر سکتی ،جتنا کوئی کشمیری بیان کرتے ہوئے بھارت کے کھوکھلے لیکن بھر پور اور موثر پروپیگنڈے کے اثرات کو زائل کر سکتا ہے۔گیلانی صاحب کی اس تحریر میںبحیثیت مجموعی، کشمیری پنڈتوں کا اصل چہرہ بیان کیا گیا ہے۔ سید نزیر گیلانی ”نہرو کی کشمیری پنڈتوں کو نصیحت ،کشمیری پنڈتوں کی کشمیریت کی اصل حقیقت“ کے عنوان سے لکھتے ہیں ”پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1940 میںکشمیر میں گزارے12 دن کے کچھ مشاہدات اپنے خصوصی مضمون میں قلم بند کئے ہیں۔ یہ مضمون Kashmir – Eden Of The East کتاب میں شروع کے مضمون کے طور شامل کیا گیا ہے۔ ایک دوسرے کشمیری پنڈت S N Dhar اس کتب کے مصنف ہیں۔کشمیری پنڈتوں کی تنظیم Yuvak Sabha کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے کہا” I need not repeat what I said then, for it has been said often enough, but I warned them not to fall into the trap into which minorities so easily fell.I spoke frankly and freely, for, having been born in a Kashmiri Pandit family, I could take liberties with my own people”.

نہرو کی نصیحت اور انتباہ کے ٹھیک 50 سال بعد 1990 میں کشمیری پنڈتوں نے کشمیریت کی دھول اپنے اپنے فرن سے جھاڑ کر اس سازش کا ساتھ دیا جس کا مقصد بھارتی فوج کے لئے مسلمانوں کے soft targets کی نشاندہی کرنا تھا۔کشمیری پنڈت اجتماعی طور اپنے مسلمان ہمسائیوں کو بھارتی افواج کے ظلم اور انکی بربریت کے سامنے ایک target کے طور چھوڑ کر بھاگ نکلے۔دہلی اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں اپنی خود ساختہ ہجرت کا رونا رو کر مفادات اور احسانات کی دنیا کے غلام ہوکر رہ گئے۔ادھر کشمیریت اور کشمیر میں امن کے نام پر مسلمان ہمسائیوں اور دوستوں کے ساتھ تعلق محض مخبری اور چغلی کی کمائی کے لئے قائم رکھتے رہے۔کشمیری پنڈت بھارت کے کشمیری مسلم مخالف پروپیگنڈے کا اعلانیہ طور ہتھیار بن گیا۔ اس نے کشمیریت کا فرن اُتار پھینکا۔کشمیری پنڈتوں کی کشمیریت محض ایک دکھاوا تھا جس کی آڑ میں وہ کشمیر میں دہلی سرکار کی آنکھیں اور کان کا کام سر انجام دیتے تھے۔1990 سے لے کر آج تک کشمیری پنڈتوں نے مسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔کشمیر میں ایک نسل کے قتل، مسلم خواتین کی بے حرمتی، torture, custodial killing, involuntary disappearance, degrading and inhumane treatment بینائی سے محروم کرنا، قیدوبند، مذہبی آزادی میں رخنہ ڈالنا، جیلوں میں مسلمان قیدیوں سے بد سلوکی، سور کا گوشت کھلانا اور پیشاب پینے پر مجبور کرنا اور ایسی دوسری ذیادتیوں کے خلاف کسی کشمیری پنڈت نے ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔کشمیری پنڈتوں نے کشمیریت کے دعویٰ کے منہ پر بے وفائی کی سیاہی مل کر ثابت کر دیا کہ وہ من کے جھوٹے تھے اور کشمیریت کا نقاب شدت پسند بھارتی ہندووں کے لئے مخبری کا ایک بہانہ تھا۔بد ہمسائے کی بدی کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔ مگر کشمیری پنڈتوں کی ایذا رسانی کی بھوک ابھی تک نہیں مٹی“۔

ریاست جموں و کشمیر کی ایک مائیہ ناز شخصیت ،میرے والد گرامی خواجہ عبدالصمد وانی(1935۔2001)،نے کشمیری پنڈتوں کے بارے میں ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ سنایاہے۔میرے والد وادی کشمیر کے علاقے صفا پور سونا واری میں پیدا ہوئے۔والد صاحب سناتے تھے کہ ان کے محلے میں دو تین پنڈتوں کے گھر تھے اور ان کے ساتھ ہمارے نہایت گہرے تعلقات تھے۔ہمارے گھر کوئی اچھی چیز پکتی تو ہم ان کے گھر بھیجتے،ان کے گھر کوئی اچھی چیز پکتی تو وہ ہمارے گھر بھیجتے تھے۔وہ پنڈت گھرانے علمی طور پر بھی بہت آگے تھے اور علاقے کے تمام لوگوں میں ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔وانی صاحب کی صفا پور میں ہی رہنے والے شیام کول سے گہری دوستی تھی۔ان کی دوستی کا سلسلہ وانی صاحب کی 14سال کی عمر میں پاکستان ہجرت اور اس کے بعد انتقال تک جاری رہا۔ وانی صاحب سناتے تھے کہ گرمیوں میں شام کے وقت اہل علاقہ ایک درخت کے نیچے چارپائیوں پر بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرتے اور مختلف امور،حالات و واقعات پر تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ ان کی عمر آٹھ نو سال تھی،ایک دن اسی طرح سب درخت کے نیچے چارپائیوں پہ بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے،وہاں محلے میں رہنے والے تین پنڈت بھی موجود تھے اور وہ سب کو کہہ رہے تھے ” ہم آپس میں بھائی ہیں،دشمن ہمیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ میں ان کی باتیں سن کر بہت متاثر ہوا کہ یہ پنڈت کتنے اچھے ہیں جو ہمارا اتنا خیال کر رہے ہیں۔اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی تو پنڈتوں کے سوا سب اٹھ کر نماز پڑھنے ساتھ ہی واقع مسجد میں چلے گئے۔ میں درخت کے سائے میں ایک چارپائی کے پائے کے کنارے بیٹھا ہوا تھا،درخت کی چھاﺅں کا سایہ اور دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے پنڈتوں کی نظر ان پر نہیں پڑی،پنڈت سمجھے کہ سب چلے گئے ہیں،وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ایک آٹھ ، نو سال کا بچہ وہاں موجود ہے۔ پھر جو پنڈتوں نے آپس میں بات چیت کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف باتیں شروع کیں تو میں حیران و پریشان رہ گیا کہ میں تو نہیں اپنا اصل ہمدرد سمجھ رہا تھا لیکن یہ تو اندر سے ہمارے پکے دشمن ہیں“۔

خواجہ عبدالصمد وانی کے فرزنداطہر مسعود وانی ایک نامور صحافی و لکھاری ہیں،اُنہوں نے یہ تحریر تفصیلات میں شائع کرنے کے لئے بھیجی ہے جسے اس وضاحت کے ساتھ من و عن شائع کیا جارہا ہے کہ ادارہ تفصیلات کا مضمون کے مندرجات کے ساتھ کلی یا جزوی طور متفق ہونا لازمی نہیں ہے۔

Exit mobile version