افغان طالبان کی حربی خود انحصاری
افغانستان کی جنگ مختلف ادوار سے گذرتے ہوئے اب بہت پُرانی ہوچکی ہے تاہم دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کے ساتھ لوہا لیتے آرہے طالبان تمام تر مسائل کے باوجود بھی تازہ دم نظر آتے ہیں۔ان حالات میں کہ جب افغان طالبان کی شہرت، اثر اور کاٹ کو کم کرنے کے لئے اُنکے ہوبہو نام و نمود والی مختلف مسلم مخالف طاقتوں کو وجود ملا ہے،یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ طالبان کا حربی انحصار کس پر ہے؟ اس اہم اور دلچسپ مضمون پر معروف کالم نویس اور تجزیہ نگار سمیع اللہ ملک نے وضاحت کے ساتھ مندرجہ ذیل مضمون ،جسے جناب ملک کے شکری کے ساتھ شامل اشاعت کیا جارہا ہے ،میں بات کی ہے….( ادارہ تفصیلات)۔
افغانستان کے43میں سے41 صوبوں میں سیکڑوں مقامات سے معدنیات نکالی جا رہی ہیں۔ کابل سمیت کئی علاقوں میں طالبان معدنی وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مجموعی طور پر معدنیات کے 10ہزارذخائر ایسے ہیں جوحکومتی کنٹرول سے باہرکے علاقوں میں ہیں۔جون2016میں افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے تسلیم کیا کہ غیر قانونی طریقے سے معدنیات نکالی جارہی ہیں اور اس سلسلے کوروکنے میں غیرمعمولی مشکلات کاسامنا ہے۔ ساتھ ہی ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ کٹھ پتلی حکومت نے1027مقامات پرغیرقانونی طریقے سے معدنیات نکالنے کاعمل روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
امریکا افغانستان میں فوج کی تعدادمیں اضافہ کرکے دراصل اس سال افیون کی چودہ ارب ڈالر کی پیداوارہتھیاناچاہتاہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ طالبان اس سرمائے سے بلیک مارکیٹ سے جدیداسلحہ خریدکرایک بہترپوزیشن میں امریکا کی افواج کیلئے مزیدمشکلات پیداکرسکتے ہیں جس سے امریکااپنے مستقبل کے مقاصدکے حصول میں ناکام ہوجائے گا لیکن افغان طالبان نے امریکاکومتنبہ کیاہے ۔
طالبان نے صوبہ ہلمند پرزیادہ توجہ دی ہے کیونکہ2014 سے اب تک یہ صوبہ کئی مواقع پر پوراکا پوراطالبان کے کنٹرول میں آتارہاہے۔ طالبان ہلمند میں مختلف ذرائع سے ہر سال کم وبیش دوکروڑڈالر کماتے رہے ہیں۔ غیر جانبدار ذرائع کا کہنا ہے کہ کٹھ پتلی حکومت ہلمند کے حوالے سے جو اندازے پیش کر رہی ہے طالبان اُن سے کہیں زیادہ کما رہے ہیں۔ ہلمند میں سنگِ مرمرکی اعلیٰ اقسام پائی جاتی ہیں۔ زرد، ہلکا سبز،گہرا سبزاورگلابی یوں چار طرح کاسنگِ مرمرہلمند سے ملتا ہے،جس کی عالمی منڈی میں خاصی مانگ ہے۔گلابی سنگِ مرمرغیر معمولی اہمیت کاحامل اورخاصا مہنگاہے۔طالبان سنگِ مرمرلے جانے والے ہر ٹرک سے مال کی کوالٹی کے لحاظ سے 25تا60 ہزارروپے فی ٹن کی شرح سے ٹیکس لیتے ہیں۔ ہرٹرک پر7سے40 ٹن تک ماربل لداہواہوتاہے۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ2008 سے2014 کے دوران ہلمند سے ہرسال ایک لاکھ24ہزارتاایک لاکھ 55ہزارٹن تک سنگِ مرمرنکالاگیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ہلمندسے روزانہ50 ٹرک سنگِ مرمر لے کرپاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔حکومت کوسنگِ مرمرپرلگائے جانے والے ٹیکس سے خاصی قلیل 33 ڈالرتک فی ٹن،آمدنی ہے۔
ہلمند میں طالبان کا معاملہ اب سنگِ مرمر پر ٹیکس عائد کیے جانے تک ہی محدود نہیں رہا ہے بلکہ وہ مائننگ لائسنس پر بھی رقوم وصول کرتے ہیں۔ طالبان اسے اپنی اہم کامیابی گردانتے ہیںکیونکہ اس سے ان کی آمدن میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ کان کنی کرنے والے چند ادارے لائسنس کی مد میں کٹھ پتلی حکومت کو بھی رقم ادا کرتے ہیں تاہم لائسنس ان کے پاس صرف طالبان کا ہوتا ہے۔ حکومت کااندازہ ہے کہ ہلمند میں ایسے35 مقامات ہیں جہاں سے غیرقانونی طور پرسنگِ مرمرنکالاجارہاہے ان میں ایسے دورافتادہ علاقے بھی شامل ہیں جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
دابارو کمسیون اور مالی کمسیون سے تعلق رکھنے والے افغان ذمہ داران خان نشین اور بیرم چاہ جیسے اضلاع میں اپنی موجودگی یقینی بناتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وصولی ممکن بنائی جاسکے۔ سنگِ مرمرکی چندایک کانیں طالبان عہدیداروں کی ملکیت میں بھی ہیں۔ ان میں سینئرطالبان کمانڈر(امیرخان متقی) کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ امیرخان متقی ثقافتی کمیشن کے سربراہ رہے ہیں۔ دیگر عہدیداروں میں ملامنان اورملا محمدعیسٰی بھی شامل ہیں۔
طالبان نے ماضی میں بھی معدنیات پرٹیکس عائد کرکے اس مدمیں غیر معمولی آمدن یقینی بنانے کی کوشش کی تھی۔کرومائٹ اوردیگرمعدنیات نکالنے پرٹیکس لگایاگیاتھااوراس حوالے سے کچھ نہ کچھ وصولی کی جاتی تھی۔ معدنیات سے وصولی کی پوری ذمہ داری داباروکمسیون پرعائد ہوتی ہے۔مائننگ کمپنیوں سے لائسنس یاکسی اورمد میں وصولی بھی داباروکمسیون ہی کرتا ہے۔دابارو کمسیون کئی کاروباری شخصیات سے بھی رابطے میں رہتاہے تاکہ غیرقانونی طورپر نکالنے جانے والی معدنیات کوبلیک مارکیٹ میں آسانی سے فروخت کیاجاسکے۔
طالبان سنگِ مرمرلے جانے والے ہر ٹرک سے مال کی کوالٹی کے لحاظ سے 25تا60 ہزارروپے فی ٹن کی شرح سے ٹیکس لیتے ہیں۔ ہرٹرک پر7سے40 ٹن تک ماربل لداہواہوتاہے۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ2008 سے2014 کے دوران ہلمند سے ہرسال ایک لاکھ24ہزارتاایک لاکھ 55ہزارٹن تک سنگِ مرمرنکالاگیا۔
ایسا نہیں ہے کہ قیمتی پتھرغیرقانونی طریقے سے نکالنے کاسلسلہ دورافتادہ علاقوں تک ہی محدودہے۔کابل سے محض 25کلومیٹراورامریکی کنٹرول والی بگرام ایئربیس سے محض12کلومیٹرکے فاصلے پرپروان صوبے میں قیمتی پتھرنکالنے والی ایک سائٹ پراب تک کام جاری ہے اوربظاہر کسی بھی طرف سے روک ٹوک کاکوئی خطرہ نہیں۔ یہاں سے نیفرائٹ جیڈنکلتا ہے جوزیورات کی تیاری میں کام آتاہے۔ یہ مقام نیلی کہلاتاہے۔ذرائع کہتے ہیں کہ نیلی میں مائننگ کاعمل بہت حد تک طالبان کے کنٹرول میں رہا ہے اوریہ سلسلہ 2016 کے دوران بھی جاری رہا ہے۔ یہ قیمتی پتھرکابل لایاجاتاہے اوروہاں سے پاکستان منتقل کردیا جاتاہے۔
سروبی کے مقام پربھی معدنیات کے وسیع ذخائرہیں جن سے بھرپوراستفادہ اب تک ممکن نہیں ہوسکاتاہم غیر قانونی طریقوں سے معدنیات نکال کراسمگل کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔ طالبان کے زیرِتصرف یہاں سے زمرداوردیگر قیمتی پتھر نکالے جاتے رہے ہیں۔ یہاں سے نکالاجانے والاایک زمرد دبئی میں6لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ افغان سیکورٹی فورسزنے غیر قانونی مائننگ روکنے کی بہت کوشش کی ہے مگراب تک اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ سروبی سے اب تک معدنیات نکالی جارہی ہیں۔ قیمتی پتھر نکال کرپاکستان اور دیگرممالک کواسمگل کردیے جاتے ہیں۔ کابل کے نواح میں غیرقانونی کانوں سے نکالی جانے والی معدنیات اورقیمتی پتھر پشاورمنتقل کیے جاتے ہیں۔کابل کے نواح سے نکالنے والے قیمتی پتھرپشاورکی نمک منڈی میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
طالبان نے لائم اسٹون اورکوئلے کی مائننگ بھی جاری رکھی ہوئی ہے، جس سے خاصی آمدن ہوتی ہے۔ کوئلہ بامیان میں نکالاجاتاہے،اس صوبے میں کوئلے کی بیشترکانیں بندکی جاچکی ہیں مگرپھر طالبان کی آمدن کا ایک اہم ذریعہ بامیان کی مائننگ ہے۔ اِجمالاًیہ کہاجاسکتاہے کہ طالبان نے آمدن کے دیگرذرائع کے ہوتے ہوئے بھی معدنیات کے شعبے پرخاص توجہ دی ہے۔ پوست کی فصل،عُشراور ٹیکس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مائننگ کادائرہ بھی وسیع کیاہے۔ کان کنی سے جڑے ہوئے اداروں سے بھی وہ لائسنس کی مد میں خطیررقوم وصول کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بہت سے علاقوں میں خودبھی معدنیات نکال کرفروخت کر رہے ہیں اس حوالے سے بھی اچھی خاصی رقوم جمع ہوتی ہےں۔ دابارو کمسیون طالبان سے وابستہ اداروں میں غیرمعمولی ساکھ کے ساتھ ابھرا ہے۔معدنیات کے شعبے میں طالبان کانفوذکئی سال سے جاری ہے اوراس راہ میں بظاہرکوئی بڑی رکاوٹ نہیں۔طالبان نے اپنی پوزیشن اس حوالے سے غیرمعمولی حدتک مستحکم کرلی ہے۔ جہاں بھی طالبان کاتصرف غیرمعمولی ہے وہاں معدنیات نکالے جانے کاعمل تیزی سے جاری رہاہے۔اس مدمیں طالبان کی آمدن اتنی ہے کہ وہ خود بھی نظر اندازنہیں کرسکتے۔
افغانستان میں معدنیات کے ذخائرکوجس بُری طرح نوچااوربھنبھوڑاجارہاہے اسے دیکھ کرکابل حکومت اورغیرسرکاری تنظیمیں یکساں طورپر پریشان ہیں مگراس صورتِ ِحال میں فوری طورپر کوئی انقلابی قدم اُٹھاناان کے بس کی بات نہیں کیونکہ ان کوبھی اندازہ ہے کہ جب تک ملک میں استحکام نہیں آئے گا ،سلامتی کی صورتِ حال قابل ِرشک حد تک بہتر نہیں بنائی جاسکے گی تب تک معدنیات سے مستفید ہونااورقومی خزانے کوبھرنا کابل حکومت کیلئے ممکن نہ ہوسکے گا۔ اس حوالے سے لیگل فریم ورک تیارکرنااور مائننگ کے شعبے کوباضابطہ شکل دینالازم ہے مگروہ فی الحال ایساکچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اس وقت افغانستان میں مائننگ کاشعبہ انتہائی قابل رحم حالت میں ہے۔ افغان حکومت اب تک اپنی بقاءکیلئے لڑرہی ہے اوردوسری طرف سیکورٹی اب تک کاسب سے بڑامسئلہ ہے۔طالبان جہاں بھی موقع دیکھتے ہیں،حکومت کے سیکورٹی سیٹ اَپ کونقصان پہنچانے سے گریزنہیں کرتے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ملک میں سیکورٹی کامسئلہ رہے گاتوتمام غیرملکی افغان سرزمین سے نخلاءکیلئے مجبورہوجائیں گے اوریہی ان کی اولین ترجیح ہے۔
ادھرافغانستان کے امورسے متعلق ایک اہم ذریعے سے معلوم ہواہے کہ امریکا افغانستان میں فوج کی تعدادمیں اضافہ کرکے دراصل اس سال افیون کی چودہ ارب ڈالر کی پیداوارہتھیاناچاہتاہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ طالبان اس سرمائے سے بلیک مارکیٹ سے جدیداسلحہ خریدکرایک بہترپوزیشن میں امریکا کی افواج کیلئے مزیدمشکلات پیداکرسکتے ہیں جس سے امریکااپنے مستقبل کے مقاصدکے حصول میں ناکام ہوجائے گا لیکن افغان طالبان نے امریکاکومتنبہ کیاہے ۔
کہ2014تک افغانستان میں امریکااورنیٹو کے48ممالک کے ایک لاکھ65ہزارفوجی افغان طالبان کوشکست دینے میں ناکام رہے ہیں جبکہ طالبان اب توپہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اورجدیداسلحے سے لیس افغانستان کے شمال میں بھی اپنی پوزیشن مستحکم کرچکے ہیں،اس لئے انہیں ان گیدڑ بھبکیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔