بی جے پی کا مطلب کیا….؟

یوں توبی جے پی یابھاجپا کے مسلم دشمن نظریات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن یہ جماعت فقط مسلم دشمنی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسکا اصل مقصد بھارت کو ایک نظریاتی ہندو راشٹر بنانے کا ہے۔یہ تنظیم اصل میں آرایس ا یس نامی اُس جنونی ہندو گروہ کا سیاسی چہرہ ہے کہ جس نے آہستہ آہستہ” صبر آزماءطویل المدتی پروگرام“ کے تحت بھارت کو مکمل طور پر ایک” ہندو¿ ریاست“میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کر ہی لی ہے ۔آر ایس ایس یابھاجپابے شک” اعلانِ فتح“نہ کرے مگر سچائی یہی ہے کہ بھارت اب ایک ہندو¿ راشٹر بن چکا ہے ۔اور تو اور پوری دنیا نے گجرات کے قتلِ عام کے بعدبیرون ممالک سفر ی دستاویزات حاصل کرنے میں ناکام نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعدانہی مودی کو انتہائی گرم جوشی کے ساتھ ”دلی کے فاتح“کے طور پر قبول کر لیا ہے ۔وہ جہاں امریکی صدر کے چہیتوں کی فہرست میں شامل ہےں وہی عرب ممالک کے لئے بھی انتہائی قابلِ احترام شخصیات میں بھی شامل ہیں ۔

امریکہ اور اسرائیل اگر نریندر مودی کی آوبھگت کر یں تو گلہ ہی کیا ہے؟ مگر جب متحدہ عرب امارات انکی رضا و خوشنودی کے لئے مہنگی ترین اراضی دھان کرکے اس پر مندر تعمیرکرائے اور ”خادمین ِحرمین شریفین“انہیںاعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازےں تو تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہی انسانی قدروں اورمعیارات پر ماتم کرنے کے سواکیا ہی کیا جا سکتا ہے۔
بھاجپا کے مہاجن، کانگریسی لیڈروں ہی، کی طرح آپ کو سفید کھدرپہنے ہنستے ہو ئے نظر آئیں گے ۔سفید کُرتے اورلُنگی میںملبوس ”جوع الارض کے مرض میں مبتلا“ ان” شریف زادوں“ نے یہ چال ڈال ”اہنسا کے پیامبر“ گاندھی جی سے سیکھی ہے۔ وہی گاندھی جی…. جن کی موجودگی میں تقسیم ِبرصغیر کے وقت سرزمین ِ ہند لالہ زار ہو رہی تھی مگر موصوف ہندوستان میں فسادات پر روک لگانے کے برعکس قلیل لباس پہنے ہنستے ہو ئے سری نگر میں کشمیر ہتھیانے کے پروگرام میں مصروف تھے ۔بھاجپا کو جنم دینے والی آرایس ایس کادوسروں سے متعلق بنیادی نظریہ جاننے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس تنظیم کے عزائم کیا ہیں۔چناچہ آرایس ایس کے مشہور فکری رہنماایم ایس گول والکر اپنی کتاب we or our nationalhood Definedمیں لکھتے ہیں:
“There are only two courses open to the foreign elements,either to merge themselves in national(Hindu)race and adopt its culture,or to live at its mercy so long as the national race may allow them to do so and to quit the country at the sweet will of the national race.That is the only logical and
correct solution ”

یعنی وہ کہتے ہیں”غیر ملکی عناصر کے لئے دو ہی راستے ہیں کہ یا وہ ہندو مذہب میں اپنے آپ کو ضم کر کے اس کی ثقافت اپنائے یا مقامی لوگوں کے رحم و کرم پر تب تک جیئے جب تک وہ اس کی اجازت دیدیں اور ہاں ایک اور راستہ یہ بھی ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں درست اور دلیل پر مبنی حل صرف یہ ہے“ ۔گول والکراسی پر بس نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ تمام غیر ہندوں کے متعلق لکھتے ہےں کہAll others are either traitors or enemies یعنی ”دوسرے سب دشمن اور غدار ہیں“۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ہندوستان میں رہنے والے غیر ہندو¿ں کو ہندو¿ں کے مماثل دئے گئے آئینی حقوق پر بھی نالاں ہو کر لکھتے ہےں کہ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی اپنی جائیداد کی تقسیم میں بچوں کے ساتھ چوروں کو بھی شامل کر لے۔

آر،ایس،ایس نے بھارت کو ہندو دیش میں تبدیل کرنے کے لئے جس خاموش لگن اور محنت سے کام کیا ہے اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ بھارت کے دروبست پر اب آر ایس ایس چھا چکی ہے ۔حالانکہ آر ایس ایس پہلے بھی طاقتور تھی تاہم اب اس حد تک مستحکم و مقبول ہوچکی ہے کہ ملک میں حکومت ہی اسی کی ہے ،جیسا کہ مرکزی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ سے لیکر جموںو کشمیر اسمبلی کے اسپیکر کویندر گپتاتککئی ایک نے آر ایس ایس کی تابعداری کا کھلے عام اقرارواعلان کیا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ ان مناصب پر براجمان لوگ آر ایس ایس جیسی جنونی تنظیموں سے اپنی وابستگی کے بارے میں عوام کے سامنے کم ہی بولا کرتے تھے ۔

چھ دہائیوں پر محیط کانگریس کے دورِ اقتدار میں آر ایس ایس نے صرف میدانی سطح پر اپنی دعوت کا ہی کام نہیں کیا بلکہ اس نے سلیقے سے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے ،قتل کرنے اورانہیں ترقی کے تیزرفتار سفر میں شریک ہونے دینے پر روک لگانے کے لئے سبھی مشکل کام کانگریس ہی کے ہاتھوںکرائے ۔اس حوالے سے بڑی مثال سابق وزیر اعظم پی وی نرسیماراو¿ کے دور میں بابری مسجد کا انہدام اور چالیس ہزار مسلم کش فسادات میں ایک بھی مجرم کو عبرتناک سزا نہ ملناہے ۔اب جب کہ بھارت کی حکومت انسانی جذبات اور ہمدردی سے محروم لوگوں کے ہاتھوں میں ہے تو کیا گجرات کے قتل عام کے مجرمین کی کبھی سزا ہو گی ؟کبھی نہیں۔بلکہ خود بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نے یہ انکار ان شرمناک الفاظ میں کیا ہے ” ہاں افسوس تو ہے جیسے کتے کا کوئی بچہ کار کے پہیے کے نیچے کچل جائے“ ۔

حدتو یہ ہے کہ ہندتواکے علمبردار حکومت میں آنے کے بعد پورے بھارت کو پیلے رنگ میں رنگنے کے لئے نہ صرف اُتاولے ہو رہے ہےں بلکہ اخلاق و تہذیب سے گر کر ساری انسانیت کی دشمنی پربھی اُتر آئے ہیں ۔ مسلمانوں کو مار نا پیٹنا ،قتل اوربے عزت کرنا اب عام سی بات بن چکی ہے ۔گذشتہ برس ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں ایک نوجوان مسلمان لڑکی کو تقریباََ بیس ہندو¿ نوجوانوں نے زبردستی پکڑ کر کسی گنجان بستی میں لے جانے کے بعد باری باری اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس واقعہ کی قلم بناکر اسے فیس بُک پر ڈالاگیا ۔ کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے ؟یقیناََ ہے تو پھر ان دہشت گردوں کے لئے سزا کیوں نہیں ہے ؟اس کا سیدھا اور انتہائی سادہ جواب یہ ہے کہ جس تنظیم کے” لیڈر“یہ کہنے پر ،کہ مسلمانوں کی مردہ بیٹیوں کو قبروں سے نکال کر انکی عصمت دری کی جانی چاہیئے،وزارتِ اعلیٰ کا انعام پاتے ہوں وہ کسی مسلمان بہو بیٹی کی عزت تار تار کرنے والے کو سزا کیوں دیدے؟۔یوگی کی قابل نفرت تقریر اب تک انٹرنیٹ پر موجود ہے جس میں وہ ایک بڑے جلسے میں لوگوں سے کہتا ہے کہ” اگر مسلمان لڑکی مردہ بھی مل جائے اس کا بھی ریپ کرو“22مارچ 2017ءکی یہ افسوسناک خبر نہ صرف ”نیوز آورآ ٓن لائین “پر اب تک موجود ہے بلکہ تمام تر بڑے اخبارات کے علاوہ بڑی بڑی نیوز چینلز نے بھی اس خبر کو نشر کیا تھا جب یوگی آدتیہ ناتھ نے جلسہ عام میں ریپ کے علاوہ یہ تک کہا کہ” ہم مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھین لیں گے اور انھیں دوسرے درجے کے شہری قرار دیں گے“ ۔اسی جلسے میں انہوں نے کہا تھا کہ مساجد کو ہندو¿ں کے مندروں میں تبدیل کردیا جائے گا اور اذان کے ذریعہ مساجد میںنماز کے لئے بلانے کی جگہ ہر ہر مہادیو کہنا ہوگا۔
یوگی آدتیہ ناتھ جیسے ”لیڈروں“کو جنم دینے والی اسی آر ایس ایس کی فکر وفلسفہ میں جوان ہوئے لوگ آج سرینگر سے لیکر نئی دہلی اور لکھنو تک برسرِ اقتدار ہیں لہذاایسے میں کیمسٹری کیا بنتی ہے میرے خیال میں تصور کرنا محال نہیں ہے ۔22اکتوبر2015ءکو جموں و کشمیر اسمبلی میںبحث کے دوران اسمبلی اسپیکر کویندرگپتا نے اپوزیشن ممبران کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا ”ہاں مجھے آرایس ایس کا آدمی ہو نے پر فخر ہے “۔یہ بات اتنی سیدھی سادہ نہیں ہے جتنی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف دعوے ہوں حقائق اور حالات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہو۔بھارت میں مسلمان جواز اور قانونی تحفظ کے باوجود خوف زدہ ہیں ،گاو¿کشی تو درکنار یوپی میںیوگی کے وزیر اعلیٰ بنتے ہی بھیڑ یا بکری کاٹنے والے سبھی مسلمان قصائیوں کی بھی دکانیں بند کرالی گئیں اس زبردستی سے لاکھوں خاندان بے روزگارو تباہ حال ہو چکے ہیں۔

جہاں تک آر ایس ایس اور اسکے سیاسی بازو بی جے پی کے ” مشن کشمیر“کا تعلق ہے،صورتحال آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی کے ساتھ واضھ ہوتی جا رہی ہے۔ جموں کشمیرمیں پی ڈی پی کے ساتھ حکومت بناتے ہی دفعہ 370کے خاتمے کی باتیں کی جانے لگیں ۔مسلم اکثریتی ریاست ہو نے کے باوجود گاو¿ کشی پر پابندی لگانے کے لئے قانون بنانے کے لئے بہت جتن کئے گئے ۔پنڈت اور فوجی کالنیوں کے بد نیتی پر مبنی منصوبے اگرچہ عوامی مزاحمت کے خوف سے فی الحال روک دئے گئے ہیں تاہم یہ لوگ تاک میں بیٹھے ہیں اور کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں۔کئی علاقوں میں ”غاروں “کو تلاشنے کے بعد انہیں ”پوتر گپھاو¿ں “کی فہرست میں لانے کی کوشش کر کے وہاں ”یاترا“کے شوشے چھوڑ کر حالات کو جان بوجھ کر بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ تاثر دینے کی سازشیں ہو رہی ہیں کہ جیسے جموں کشمیر فطرتاََ مسلم اکثریت والی ریاست نہ ہو بلکہ اسکی ایک ”ہندووانہ تاریخ“بھی ہو ۔کشمیر اسمبلی میںپاکستانی ہندو پناہ گزینوںکے لئے پانچ اورپنڈت مہاجرین کے لئے تین نشستیں مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے جبکہ1947کے قتل عام کے شکار مسلمانوںکی جائیداد پر قابض لوگوں کو مالکانہ حقوق دینے کی باتیں کی جارہی ہیں اوردفعہ35-Aکو ختم کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

یہ صورتحال ویسے بھی تشویشناک ہے مگر معاملہ تب اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے کہ جب آر ایس ایس کے اس خفیہ ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے کشمیری مسلمان ہی ذریعہ اور سبب بنتے ہیں ۔بھلے پی ڈی پی اس کی تردید کرے مگر سچائی یہی ہے کہ وہ ان سبھی سازشوں میں شعوری یا غیر شعوری طورشامل ہے ۔المیہ یہ ہے کہ مفتی سعید نے اپنی زندگی میں ہی ان عزائم کی طرف،مارچ 2015ءکو حلف برداری تقریب کے فوراََ بعد اس نے پریس کانفرنس کے دوران، ان الفاظ میں” پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ جو ایلائینس کیا ہے ضرورت کا نہیں عقیدے کا اتحاد ہے“ اشارہ کیا تھا۔افسوس کہ جموں کشمیر کی اکثریت، بالخصوص لیڈرشپ ،نے اُس وقت اس چونکا دینے والے بیان کا کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیایا پھر اسے بر وقت سمجھنے میں کوتاہی ہوئی۔اسی پریس کانفرنس میں موصوف نے یہاں تک کہا ” ہم اس اتحاد کو تاریخِ کشمیر کے لئے Turning pointبنانا چاہتے ہیں“۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ اسی پریس کانفرنس میں مفتی صاحب نے اس ٹرنینگ پوائنیٹ کی بھی وضاحت فرماتے ہو ئے کہا” ہم کشمیریوں کو بھارت کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں ۔ جموںکشمیر واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے جس نے جناح کی تھیوری رد کرتے ہو ئے بھارت کے ساتھ الحاق کیاہے“ ۔وادی کشمیر کے معروف قلمکار اور مصنف حسن زینہ گیری صاحب اپنی قابل قدر تصنیف ”کشمیر آتشِ زیر پا“میں اسی طرح کے سینکڑوں انکشافات کا خلاصہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ”یہ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا وہ انداز تکلم ہے جس کا مقصد صرف اور صرف دربار کی خوشنودی حاصل کرنا ہے “۔

آر ایس ایس کاسیاسی چہرہ جس تیزی اور بے صبری کے ساتھ بھارت کو مکمل طور پر ہندو راشٹرمیں تبدیل کرنے کے جتن میں مصروف ہے ا سے بھارت کا” اعتدال پسند“ طبقہ بھی اب آہستہ آہستہ متاثر ہوکر ہاں میں ہاں ملانے لگاہے اس لئے کہ بھارت کا سیکولر طبقہ کا نگریس کی ناقابل یقین شکست کے بعد عوام کے بدلتے موڈ سے مرعوب یا متاثر ہے ۔حالانکہ بدلتے حالات میں ایک سوال ذہن میں یہ بھی آتا ہے کہ کیا بھارت میں واقعی کو اعتدال پسند حلقہ باقی ہے بھی اور اگر کہیں کوئی ہے بھی تو وہ ”جان کی امان“کے لئے پریشان،مزاحمت سے بتدریج شکست کی طرف آکر سرنڈر کرنے لگا ہے ۔اس کی ایک مثال بھارت کے معروف صحافی کلدیپ نائیرکی ہوسکتی ہے۔

25 جولائی2015ءکو سرینگر میں منعقد ایک سیمنار میں سیکولر،لبرل اور اعتدال پسندی کا مکھوٹا پہنے ہو ئے ان صاحب نے فرمایا ”کشمیر کی آزادی بھارت کے دو اہم اساسی اقدار کے لئے سنگین خطرہ ہے ۔اگر کشمیر یوںکو آزادی دی گئی توسیکولرازم اور ڈیموکریسی کے لئے سنگین خطرہ ہوگا۔اس صورت میں انڈیا اپنا وجود باقی نہیں رکھ پائے گالہٰذاکشمیریوں کی آزادی روکنے کے لئے انڈیا کی سول سوسائٹی ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے“۔یہی وہ شخص ہےں جنہوں نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین محمد یٰسین ملک سے بطور ”لبریشن فرنٹ چیف“جیل میں ملاقات کے وقت کہا تھا ” آپ عسکری جدوجہد ترک کر کے گاندھی جی کے طرز پر پُرامن جدوجہد کا آغاز کریں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے “۔

وقت نے ثابت کیاہے کہ بھارت کا سیکولر اور اعتدال پسندی کا جبہ پہنے ہوئے لوگ گاندھی جی اور جواہر لال نہرو سے لیکر کلدیپ نائر تک سب دراصل کشمیریوں کے معاملے کسی نریندر مودی اور اجیت ڈوول سے کم شدت پسند نہیں ہےں بس فرق اتنا ہے کہ انکے مشترکہ راگ کے سُر الگ الگ ہیں ۔ پی ڈی پی نے سنگھ پریوار کے ساتھ اتحاد کر کے یہ ثابت کردیا کہ جس نیشنل کانفرنس سے نجات کے لئے لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے تھے وہ شائد اس سے زیادہ خطرناک نہیں تھی۔پھر یہ بات بھی بار بار واضح ہوتی رہی ہے کہ اقتدار کی گدی سے گر کر مفتی ہوں یا عبداللہ جو کچھ بھی کشمیر یا کشمیریوں کے لئے کہتے ہیں وہ فقط واپس گدی اقتدار پر پہنچنے کا ایک طریقہ بلکہ دھوکہ ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔یہ ساری صورتحال جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے لئے سبق ہی نہیں بلکہ عبرت بھی ہے ۔اس ساری صورتحال پر عربی کا یہ مقولہ صاد آتا ہے ”کل شئی یرجع الی اصلہ“ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے چاہیے ظاہر میں کوئی کچھ بھی نظر آئے نہ اس کی بنیاد بدلتی ہے نہ فطرت ….!

Exit mobile version