اب پوچھ ہی لیا جائے ہم سے!

آزادی گوکہ ہر ذی حس کے لئے ہر چیز سے اعلیٰ ہے لیکن جن حالات سے جموں کشمیر کے عوام دوچار ہیں انہیں دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ان بد نصیبوں کو آزادی ملے تب زندہ رہ سکتے ہیں،ورنہ جو چیزفی الوقت جموں کشمیر میں زندگی کہلاتی ہے وہ در اصل ایک عذاب ہے۔آخرجو لوگ ظلم وجبر کے تحت زندگی گزاررہے ہوں، جنہیںغیروں کے سامنے روز ہی اپنا وجود شناختی کارڈ سے ثابت کرنا پڑ رہا ہو،جنکی چادر و چہاردیواری کو پامال کیا جارہا ہواور جنہیںاحتجاج کے حق سے بھی محروم کیاگیاہو انکی زندگی ہی کیا۔اس حال میں رہنے والوں کے لیے جدوجہد ِآزادی کیا معنیٰ رکھتی ہے سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

جموں کشمیر،با الخصوص وادی،کی موجودہ صورتحال کو سرسری طور بھی دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کواپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے اور ایسے لوگوں کے لیے آزادی انکی تہذیب وتمدن او ر انکی نسل کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔کشمیری عوام یہ شعوری طور سے سمجھتے ہیں کہ جہدِمسلسل ہی وہ واحدراستہ ہے کہ جس سے وہ اپنی انسانی حیثیت کو حاصل کرسکتے ہیں اورا پنا مستقبل تعمیر کرسکتے ہیں….یہ اس وقت کے کشمیر کی پکار ہے۔

اس کیفیت کو، آئے دن، کشمیری نوجوانوں کی شہادت اور انکے جنازوں میں لاکھوںافراد کی شرکت سے بھی سمجھا جاسکتاہے۔ عوامی جذبات اورانکے احساسات کونظرانداز نہیں کیا جاسکتاہے۔ عوام کی رضامندی نہ ہو تو نہ عسکری کارروائی کی جاسکتی ہے نہ سیاسی جلسے اور جلوس ہی نکالے جاسکتے ہیں اور نہ الیکشن کا بائیکاٹ ہی ہوسکتا ہے ۔ عوامی حمایت کے بغیرنہ ہی بندوق کی گولیوں سے زخمی اور پیلٹ گن کا شکار ہوکربینائی سے معذور افراد کی عیادت و کفالت ہی کی جاسکتی ہے۔

بھارت کا یہ کہنا، کہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سرحد پار کی ایماءپر ہوتا ہے،بھارتی عوام کو دھوکے میں رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ ایک بہت بڑی حماقت کے سوا کچھ بھی نہیںہے ۔ایسا ہوتا تو ایک طرف احتجاجی جلوسوں پر فائرنگ ہوتے دیکھ کر دوسری جانب لوگ چندہ جمع کرکے زخمیوں کے لئے مہینوں لنگر اور ادویات وغیرہ کا انتظام کرکے بنے رہنے کی قسمیں نہیں اٹھارہے ہوتے۔حقیقت یہی ہے کہ بھارت سرکار اور جموں کشمیر کی مخلوط سرکار دونوں اس مخمصمے میںپڑی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس تحریک کو طاقت اور قوت کے بل پر خاموش کردیا جائے…. مگر یہ انکی بھول ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے ان حکومتوں کے پاس کوئی واضح پالیسی ہی نہیں سوائے اس کے کہ ماردھاڑ ‘ قتل و غارت اور زورو زبردستی و سینہ روری سے کشمیریوں کو دیایا جائے اور ایسی مار ماری جائے کہ وہ دوبارہ کھڑا ہونے کے قابل بھی نہ رہیں۔

کشمیری کی موجو د ہ تحریک کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوجاتاہے کشمیری عوام کی اکثریت شعوری طور یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہندوستانی نہیں ہے۔ اگریہ حقیقت ہے ،جیسا کہ کشمیریوں کے احتجاج سے ظاہر ہوتاہے ،تو انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھیں۔

کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ کشمیری عوام کیا مانگ رہے ہیں۔ انہیں سیاحت سے کوئی دلچسی نہیں نہ ٹولپ گارڈن کے سرسبز و شاداب خوبصوت پھولوںمیںہی انہیںکوئی کشش نظر آتی ہے ۔ نہ ہی اقتدار کے لئے سرگرداں رہنے والے سیاستدانوں کی لن ترانیوں پر انہیں کوئی یقین ہے۔ کشمیر کے بچے،جو بصورت دیگر دنیا کے کسی بھی علاقہ کے بچوں سے کم قابل اور با صلاحیت نہیں ہیں،بندوق لئے سربکف ہوکرکشمیرکی گلی کوچوں میں موت اور شہادت کو تلاش کرتے نظر آرہے ہیں۔ انہیں سڑکیںپُل، نئی نئی فلک بوس عمارتوں سے دلچسپی تو ہے لیکن انہیں معلوم ہوچکا ہے کہ وہ ترقی کی ان نشانیوں سے تب ہی استفادہ کرسکتے ہیں کہ جب انہیں عزت سے جینے کی اجازت بھی ہو۔ وہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں سرگراداں ہیں جوانہیں ابھی حاصل نہ ہوسکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہےے کہ یہ راستہ انہیں کس نے دکھایا انہیں کس نے بندوق اُٹھانے پر مجبور کردیا، وہ موت سے کیوں پیار کرکرتے ہیں….؟

میں جب کبھی سوچتا ہوں تومجھے ٹائمز آف انڈیاکے ایک مشہور و معروف مضمون نگار مدھو کشور کی وہ باتیں یاد آتی ہیں جو انہوں جولائی 2000کے ایک مضمون میں تحریرکی تھیں۔ انہوں نے لکھا تھا ” کشمیر میں ہمارے فوجی جوانوں یا محافظ دستوںکو اپنا محافظ نہیں بلکہ جلاد تصور کرتے ہیں ۔ ان پر عورتوں کی عصمت دری، تشدد اور معصوم افراد کے قتل کا الزام عائد کیا جاتاہے…. لیکن اگر اس میں تھوڑی بہت ہی حقیقت ہے تو یہ ہمارے اخلاقی زوال کا بدترین ثبوت ہے“۔میرے خیال میں انکا یہ بیان کشمیر کی موجودہ صورتحال کی بہترین عکاسی ہے ۔

یوں توریاست جموں و کشمیرکے مظلوم عوام ایک طویل عرصہ سے بھارتی حکمرانوںکے مختلف النوع ظلم وجبر کی چکی میں پس رہے ہیں اوریہ سب مقامی حکومتوں کے مشورے اور تعاون کے بغیرممکن نہیں انکے جیرو تشدد میں یہاں کا حکمران طبقہ برابر شریک ہے۔ چاہے پیلٹ گن کا معاملہ ہو یا راتوں کے دوران گھروں کی تلاشی کا مسئلہ ہو، دنوں میں ماردھاڑ کا مسئلہ ہویا راہ چلتے بے گناہوں کی گرفتاری اور ان پر تشدد کا معاملہ ہو بھارتیوں کواس میں ہمیشہ ہی مقامی حکومتوں کا تعاون حاصل رہا ہے۔ آج نہتے کشمیری نوجوانوںکے جسم کاانگ انگ زخموں سے چور ہے، ان کا بدن خون سے لہو لہاںہے، انہیں آنکھوں سے محروم کیا جارہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب کشمیری نوجوانوں کوفوجی گاڑیوں سے باندھ کر انہیں گاﺅں گاﺅں نچایا جارہاہے، کہیں زمین پرگھسیٹا جارہا ہے اورہاتھ پاﺅں باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تشدد کاوہ کونسا حربہ ہے جوکشمیریوں کو زیرکرنے کے لیے بھارت نے آزمایا نہیں ہو اور ابھی بھی نہ آزما رہاہے۔ میڈیا سے جو خبریں چھن چھن کر سامنے آتی ہیں ان سے بدن پر لرزہ طاری ہوتاہے۔ مگر اسکے باوجود بھی کشمیریوں کے جذبہ¿ آزادی کو سرد کیا جاسکا ہے اور نہ ہی انکے جذبہ¿ ایمانی میں کوئی کمی آسکی ہے۔وہ اپنی جدوجہد آزادی کی حفاظت کرنے میں پرعزم نظر آتے ہیں۔ گرچہ کشمیری قوم نے ہر زمانہ اور ہر دور میں استعماری قوتوںکی مزاحمت اورآزادی کی جدوجہد میں قربانیوں اوراستقامت کی ایک تاریخ رقم کی ہے مگر موجودہ تحریک کی مثال ماضی میںکہیں نظر نہیں آتی۔
اس وقت کشمیر میں جو تحریک جاری ہے اس نے جہاں ایک طرف بھارتی حکمرانوں کے ظلم و ستم کے تمام ہتھکنڈوں کو ناکام بنایادیاہے وہیں کشمیر کے بوڑھوں اور جوانوں ہی نے نہیں بلکہ بچوں، خواتین اور طلباءو طالبات کے ایک سیلاب نے دلی کے ایوانوں میں بھی کھلبلی مچادی ہے۔ یہاں تک کہ بھارتی وزارتِ داخلہ کو یہ کہنا پڑا ہے” کشمیر کے حالات انتہائی پریشان کُن ہیں اور ہمارے کنٹرول سے باہر جارہے ہیں“۔چناچہ خود بھارتی اخباروں میں یوں سُرخیاں پڑھی جا سکتی ہیںKashmir situation not completely under control: Union Minister ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتِ ہند کوابھی کچھ دن پہلے کشمیرمیں تمام تعلیمی مراکز کو کئی دنوں کے لیے بند کرنا پڑا۔ کشمیر میں کشیدہ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھارتی وزیراعظم کو بند کمرے میں آف لائین کمیرہ کی میٹنگ کرنا پڑی جس میں کابینہ کے تمام بڑے بابے موجود تھے یہاں تک کہ آرمی چیف کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس میٹنگ سے متعلق جو باتیں میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آرہی ہیں انسے یہی تاثر ملتا ہے کہ حکومتِ ہند اب اپنی محبوبہ کی چھٹی کرنے پرتُلی ہوئی ہے اور ریاست میں صدر راج نافذکرنے پر سوچ و بچار کررہی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوگا انہیں محبوبہ بہن کی اشد ضرورت ہے۔ وہ انہیں اس طرح نہیں چھوڑیں گے بلکہ ان سے ابھی دوسرے بہت سے کام لینے ہیں۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدارتی راج مسئلہ کشمیر کا کوئی دیرپا حل ہے یا اسطرح سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ حالانکہ اس طرح کے سبھی حربے توپہلے بھی آزمائے جاچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے حفاظتی دستوں کی بربریت اوروحشت سے تو یہاں ہرروز نئے نئے جواں سال مجاہدجنم لیتے ہےں۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ انہیں ایک دفعہ شہید ہونا ہے ۔آخر انہیں شہید کرکے ہی دم لیا جاتا ہے لیکن ایک یا دو مسلح جوانوں کو شہید کرنے کے لیے آرمی کو کئی بٹالین کی ضرورت پڑتی ہے ۔ مگر شہادت کے بعد بھی وہ نہیں مرتے بلکہ لاکھوں اور ہزاروں سوگواروں اور پورے عوامی اعزاز کے ساتھ انہیں سپردخاک توکردیاجاتاہے مگر وہ بحث و مباحثوں میں، باتوں میں، تذکرے میں اور سب سے بڑھکر نوجوانوں کے دلوں میں جیتے ہی جاتے ہیں….اور یہ بھارت کے لئے انکے زندہ رہنے سے بھی زیادہ خطرناک بات ہے ۔

وادی کشمیر کی صورتحال جب بھی مزید بگڑ جاتی ہے ہندوستان کی جانب سے اس طرح کا تاثر دئے جانے کی کوششیں ہوتی ہیں کہ جیسے وہ اس مسئلے کے حل کے لئے پریشاں ہوں اور بس حل کی جستجو میں ہی لگے ہوں مگر انہیں پتہ نہیں چلتا ہو کہ کشمیری چاہتے کیا ہیں اور مسئلے کا حل کیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے نیتا ، انکے ملٹری ایڈوائیر، انکی خفیہ ایجنسیاں اور دوسرے مخبر حضرات اس سے بخوبی واقف ہیںکہ کشمیری کیا چاہتے ہیں اورکیا نہیں چاہتے ہیں۔مسئلہ کشمیر کا اصل حل نہ ملٹری کے ہاتھ میں ہے اورنہ دلی کے ماتحت جموں کشمیر کی، غلامانہ ذہنیت والی، سرکارکے پاس ۔مسئلہ کشمیرکا فیصلہ کرنے کا حق نہ یہاں کے لیڈروں کے پاس ہے نہ ہی صحافیوں یا بیروکریٹس کے پاس ، نہ باہر کی دنیا میں کشمیر کے نام پر” درد بانٹنے والوں“ کے پاس ہی ہے بلکہ اس کا فیصلہ خود کشمیریوں کو کرنا ہے اور وہی اسکے اصلی حق داربھی ہیں اور مختار بھی۔

اس لیے اِدھر ُادھر جانے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ کشمیری عوام اور یہاں کے رہنے والوں سے پوچھا جائے کہ وہ اپنا مستقبل کس طرح سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے حق میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہ اپنا وقت اور اپنا سرمایہ ضائع کیے بغیر اپنا مقدمہ کشمیری عوام کی عدالت میں پیش کریں ….وہ جو فیصلہ دیں وہ سب کو قبول ہونا چاہے۔ گذشتہ ستر سال سے کشمیر میں ہلاکتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ہندوستان کے حکمرانوں پر یہ ذمہ داری کجھ زیادہ ہی ہے کہ وہ اپنے گربیاں میں جھانک کردیکھیں کہ انہوں نے ستر سالہ عرصہ میں کشمیریوں کوکیا دیا اورانکے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھاہے۔دفعہ 370 یا الحاقی دستاویز جیسی قانونی موشگافیوںمیں وقت ضائع کیئے بغیر اب کشمیریوں سے پوچھ ہی لیا جانا چاہیئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس بات پر راضی ہو سکتے ہیں۔

اس وقت بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی بھاری اکثریت سے اقتدار میں ہے۔ اس حکومت کے پاس طاقت ہے وہ اگر چاہیے تو اس مسئلہ کا کوئی پائیدار حل نکال سکتی ہے ۔مجھے پورا یقین ہے کہ مودی جی کی سرکار سخت گیر موقف اپنانے کی بجائے کوئی ایسا لائحہ عمل ضرور اختیار کرے گی جس سے اس مسئلہ کا کوئی پائیدا ر حل نکالا جاسکتا ہے۔یہی وقت کی ضرورت ہے۔یہی امن کی شاہ کلید بھی ہے۔

Exit mobile version