بھارت کا سہواگ…کشمیر کا ٹنڈولکر

بڈگام کے اس نوجوان کو فوج نے انسانی ڈھال بناکر استعمال کیا

27سال کے فاروق احمد کو جس طرح فوجی گاڑی کے ساتھ باندھ کر درجنوں دیہات میں گھمایا گیا وہ عالمی برادری کا ضمیر جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بیروہ(بڈگام) کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا شرمناک واقعہ ہے بلکہ جموںکشمیر کے مسلم علاقوں کی ہر بستی میں اس سے کئی گنا زیادہ شرمناک واقعات گذشتہ تین دہائیوں سے رونما ہوتے آرہے ہیں لیکن نہ ہی عام لوگ ایسے واقعات کوبیان کرنے کی ہمت کر پاتے ہیں اور نہ ہی عیاں وجوہات کی وجہ سے لوگوںکے پاس ان زیادتیوںکا کوئی زندہ ثبوت موجود ہے۔ یہسب سوشل میڈیا کی بدولت ممکن ہوا ہے کہ بیروہ میں کشمیر ی نوجوان کے ساتھ بد ترین قسم کا انسانی سلوک کرنے کا جو واقعہ پیش آیا و ہ دنیا کی نظر وںمیں آ گیا۔
جیسا کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل ہوئے ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے ، پلوامہ میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے نوجوانوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ مار مار کر پاکستان کے نام فحش گالیاں بولنے کیلئے مجبور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ گائے کو ماتا، مہاتما گاندھی کو باپو کہنے والے ”اہنسا کے پجاری“ اب راکھشس کے ریکارڈ توڑنے کی شرمناک دوڑ میں مصرف ہیں۔ماضی میں جب بھی ایسے واقعات رونما ہوئے یا شکایات منظر عام پر آئیں تو سرکار اور فوج نے ،صرف یہ کہکر کہ ایسا حفاظتی افواج کو بدنام کرنے کی غرض سے کہا جا رہا ہے، اپنے آپ کو خود ہی بے گناہی کی سند فراہم کرنے کی کوشش کی۔
دراصل سیکورٹی افواج کو جہاں ریاست کی پوری پشت پناہی حاصل ہے وہاں قومی میڈیا ،جسے بے گناہو ں و مظلوموں اور بے زبانوں کی زبان کے علاوہ تیسری آنکھ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، کشمیر میں ہونے والی ہر طرح کی زیادتی سے آنکھیں چراتا آیا ہے ۔بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہندوستان کے قومی ٹیلی ویژنچینل ”ملکی مفاد“ اور جھوٹی قوم پرستی کے نام پر ہر واقعہ کو معمولی اور سو فیصدی جائز ثابت کرنے کی دوڑ میں ایک سے بڑھکر ایک کشمیریوں کو بدنام کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کرناہ سے لکھن پور تک کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے گئے اس کی مثال ملنا محال ہے۔ کشمیریوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی سرحد ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ براہ ِراست کسی ایسے علاقہ سے نہیں ملتی ہے جہاں سرحد کے دونوں طرف آبادی ہو اور کسی نہ کسی طرح سے بات باہر کی دنیا تک پہنچ سکے۔ قومی چینلوں پر جسطرح ہندوستان کے دفاعی تجزیہ نگاربیروہ میں پیش آمدہ واقعہ(فوج کی 53آر آر کے افسر کی توہین اور ذلت آمیز حرکت )کو، یہ کہکر صحیح ثابت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ اسرائیل فلسطین میں پہلے سے ہی ایسا کرتا آیا ہے، گویا اس بات کا اعتراف کرتے ہےں کہ کشمیریوں کو فلسطینیوں سے بھی بد تر صورتحال کا سامنا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فلسطینیوں کی بات کہیں نہ کہیں عالمی اداروں اور ایوانو ں میں کسی حد تک کبھی کبھار گونجتی رہتی ہے جبکہ اہل کشمیر پر ڈھائے جانے والے ہندوستانی مظالم ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تو تو میں میں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کشمیریوں کی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اگر علیحدگی پسند لیڈران انسانی حقوق کی پامالیوں پر واویلاکریں تو نئی دلی فوراً اسے” پاکستانی ایجنٹوں کا پروپگنڈہ “کہہ کر مسترد کرتی ہے اور اگر کوئی مین اسٹریم کہلانے والا شخص یا جماعت کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھائے تو علیحدگی پسند قیادت براہ راست اُن سیاستدانوں کو ہی زیادتیوں کیلئے ذمہ دار ٹھہرا کر ان کیلئے فرار کا راستہ آسان کرتی ہے۔ غرض…. جہاں وردی پوش اہلکاروں کی ہر وحشیانہ حرکت کیلئے ملکی قیادت ، تعصب پرست میڈیا ، جنونی حلقے اور کالے قوانین ان کا دفاع کرنے کیلئے چاک و چوبند ہیں وہاں کشمیری آپس میں گتھم گتھا ہو کر ایک دوسرے کو ہی مشکوک بنانے کے عمل میں مصروف ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مین اسٹریم جماعتیں اپنے آپ کو بے اعتبار کروانے کیلئے خود ہی ذمہ دار ہیں کیونکہ دونوں بڑی علاقائی جماعتوں ،نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی،نے اپنے اپنے دور اقتدار میں نام نہاد تحقیقاتی کمیشن قائم تو کئے لیکن ان تحقیقاتوں کا مقصد قاتلوں اور سر پھروں کو تحفظ دینے اور وقت گذاری کے سوا کچھ بھی نہتھا۔
مین اسٹریم سیاستدان ویسے بھی تعمیر و ترقی کے علاوہ انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے ووٹ لیتے ہیں جبکہ اٹانومی اور سیلف رول کے نعروں کا واحد مقصد دلی کے اشاروں پر مزاحمتی تحریک کا توڑ کرنا ہے۔ سرینگر پارلیمانی حلقہ میں ووٹنگ عمل کا عبرتناک حشر اور اننت ناگ حلقہ کیلئے ووٹنگ عمل کا مﺅخر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مین اسٹریم کے قول و فعل کے تضاد کو عام لوگوں نے بھانپ لیا ہے۔ اگر چہ ہر کوئی یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے اور ووٹو ںکی شرح کے 7% یا 70%رہنے سے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا ہےتاہم الیکشن عمل کو جو شدید دھچکہ لگا ہے اس کا ضروریہ فائدہ ہو ا ہے کہ نہ صرف مین اسٹریم جماعتوں کو اپنی اوقات یاد آئی ہونگی بلکہ دلی کی طرف سے ان انتخابات کو کشمیریوں کا ہندوستانی نظام کے تئیں بھروسے کے اظہار کا دعویٰ بھی زمین بوس ہو گیا۔
یہ کشمیریوں کے انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہندوستان کے قومی میڈیا کو پہلی بار دفاعی رُخ اختیار کرنا کرنا پڑ رہا ہے اور ساتھ ہی فاروق احمد اور پلوامہ کے معصوم نوجوانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد ترین سلوک کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا، جھوٹا ہی سہی،وعدہ تو کیا جا رہا ہے۔ اگر چہ واقعہ کی تحقیقات کرنے کے وعدوں پر کسی کشمیری کو بھروسہ نہیں لیکن جسطرح نئی دلی خود ہر نئے دن کے ساتھ اپنا اعتبار کھوتی جا رہی ہے اس کا تقاضہ یہی ہے کہ ہندوستانی فوج ، تحقیقاتی ادارے اور حکمران خوابِ غفلت سے جاگ کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ جس طرح ٹیلی ویژںچینلوں پر ہر شام کشمیریوں کو رسوا کرکے انہیں مظلوم کی بجائے ظالم ثابت کرنے کیلئے ہندوستانی دانشور ، سیاستدان اور دفاعی ماہرین ایک ہو کر گلا پھاڑتے ہیں وہ بے حد افسوسناک ہے۔اب تو ان نام نہاد قوم پرستوں کے بے لگام ریوڑ میں ہندوستانی کرکٹ کھلاڑی بھی ایسے شامل ہو رہے ہیں جیسے کہ جنرل بخشی سے لیکربی جے پیکے ترجمان سمِت پاتراکی گالیاں اہل کشمیر کیلئے ناکافی تھیں۔
فوج، سی آر پی ایف اور پولیس پر سنگ بازی کرنے والوں کو پاکستان بھیجنے کی باتیں کرنے سے پہلے گوتم گھمبیر اور وریندر سہواگ کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ عدم تشدد اور امن کی سب سے زیادہ ضرورت کشمیریوں کو ہے لیکن 70سال پُرانے سیاسی مسئلہ کو امن و قانون کا مسئلہ جتلا کر نہ صرف ہندوستانی عوام بلکہ خود عام فوجی جوانوں کو گمراہ کرکے کشمیریوں کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ سیکورٹی فورسز کی طرح گوتم گھمبیر اور وریندر سہواگ کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جموں و کشمیر نہ امن و قانون کا مسئلہ ہے اور نہ ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی بین الاقوامی کرکٹ میچ، بلکہ یہ ایک کروڑ بیس لاکھ جیتے جاگتے اُن مظلوم انسانوںکا،تاریخی المیہ اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی پاسداری ، معاملہ ہے جن کی اپنی تاریخ متحدہ ہندوستان کی تاریخ سے زیادہ پُرانی اور شاندار رہی ہے۔ کوئی گھمبیر اور سہواگ جیسے لوگوں سے یہ پوچھے کہ اگر انہیں سیکورٹی افواج پر پتھر پھیکنے والوں سے اتنی زیادہ نفرت ہے تو پھر بنگر گنڈ اور دودھی پورہ ہندوارہ میں کرکٹ کھیلتے بچوں کی زندگیوں کے چراغ گ±ل کرنے والیبے رحم فوجکے ساتھ کیوں نہیں۔سہواگ اور گھمبیر کو اس سوال کا بھی جواب دینا یا تلاش کرنا چاہیئے کہ طفیل متو کا کیا قصور تھا اور ہندوارہ کا ندیم، جو کہ کشمیر کے سچن ٹنڈولکر کے نام سے جانا جا تا تھا ،کو گھمبیر اور سہواگ بننے سے پہلے ہی کیونکر قیامت تک کیلئے خاموش کیا گیا۔ بے شک ان عالمی شہرت یافتہ کرکٹ کھلاڑیوں کی بہت بڑی پہچان ہے لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ کشمیر میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں کہ جو کرکٹ یا کسی بھی اور شعبہ میں کوئی بھی بڑا کارنامہ انجام دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
جسطرح پلوامہ میں کالج طلباءکو پاکستان کے نام فحش گالیاںدینے کیلئے اُن کونا قابل یقین حد تک لہو لہان کر دیا گیا اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستانی فوج کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ کشمیر کے لوگ ہندوستان سے نفرت کرتے ہیں اور پاکستان کو اپنا کعبہ اور قبلہ مانتے ہیں۔ جس قدر ہندوستان کی فوج کشمیریوں کو اذیتیں دے دے کر مارتی رہے گی اسی قدر خود ہندوستان کے بچے کھچے مفادات کا کشمیر سے تیزی کے ساتھ جنازہ اٹھتا جائے گا ….پھر قانون ِقدرت یہی ہے کہ دنیا کی کسی قوم کو ظلم و جبر کے بل پر ہمیشہ غلام نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔

Exit mobile version