گزشتہ برس میں نے ’’ عافیہ صدیقی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب نہ بن جائے‘‘کے عنوان کے تحت ایک مضمون لکھا تھا اور اب عنوان ہی نہیں میں نے اس المیہ کے حوالے سے اپنا قلب وذہن ہی بدل لیا ہے اس لیے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کو جب کوئی ’’ملی یا قومی‘‘مسئلہ درپیش ہو تویہ اپنے آپ کو روئے زمین پرکمزور ترین اشرافیہ ثابت کرنے میں اپنی پوری قوت و ذہانت صرف کرتے ہیں اور جب سقوط ڈھاکہ سے لیکر پاناما لیکس تک کے گمبھیر ترین ایشوز درپیش ہوں تو صداقت و امانت کی تاریخ ان کے سامنے ہاتھ باندھے غلاموں کی طرح کھڑی ان کی شان میں قصیدے پیش کرتے ہو ئے نظر آتی ہے ۔سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ کے طفیل بہت سارے پاکستانیوں اور آزاد کشمیریوں سے تبادلۂ خیالات کا موقع میسر کیا آیا کہ بہت سارے پوشیدہ اور گمشدہ گوشے گویا وا ہو ئے اور معلوم ہوا کہ یہ قوم دنیا کی دوسری اقوام کی طرح بہت بدل چکی ہے اور ان کے ہاں نہ صرف پیمانے تبدیل ہو چکے ہیں بلکہ قدریں بھی ۔ویسے بھی عافیہ جیسی مظلوم بیٹی کے لیے یہ قوم کیا کر سکتی ہے اس لیے کہ جب مشرف جیسا گرجنے والا جرنیل ایک ٹیلی فون کال پر امریکہ کے سامنے ڈھیر ہو اتو اس نے عرب مجاہدین سے لیکر طالبان اور پاکستانی مجاہدین تک انسانی اسمگلنگ کا دھندہ اختیار کر کے اس لیے جائز کردیا کہ اسے اس کو اور اس وقت کی بیوروکریسی کواربوں ڈالر نصیب ہوئے، تو پتہ چلا کہ پاکستان کے اتنے بڑے لوگ ابھی تک پیسے کے شرمناک کھیل سے باہر نہیں آچکے ہیں۔ ان کی نگاہ ابھی تک پیسوں پرہی ہے۔اور جن کی خوشنودی کے لیے وہ یہ سب کچھ کر تے ہیں ان کے لیے قوم و ملت سب کچھ ہے پیسہ کچھ بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ مغرب اور امریکہ سے باربار اس طرح کی خبریں موصول ہوتی ہیں کہ صدر مملکت یاوزیر اعظم کی میعاد حکومت ختم ہونے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ ’’صدر صاحب یا وزیر اعظم صاحب‘‘کو کم آمدنی کی وجہ سے ابھی تک رہنے کا گھر خریدنے کی ہمت نہیں ہوئی ہے اور اب انہیں سستے داموں پر کرایے کے مکان کی تلاش ہے ۔
صدیوں پرانی بات ہے جب پاکستان کے جنم سے بہت پہلے اسی سرزمین پر ایک ”عرب نوجوان لڑکی”کی گرفتاری نے ”ظالم حجاج بن یوسف”کو اس قدر بے چین کردیا تھاکہ اس نے اپنی فوجوں کو محمد بن قاسم کی اطاعت میں اس بات پر سختی سے پابند کردیا تھا کہ”میری بیٹی”کوہرحال میں جیل سے نجات دلاکرراجہ داہرکواس کے جرم کی پاداش میں انجام بدسے دوچارکردینا۔اور ہاں کوئی آرام نہیں، کوئی پڑاؤنہیں!اپنی بہن کو چھڑا کر اولین فرصت میں مجھے باخبر کردینا اور مشن میں کامیابی کے بعدمیرے احکامات کا انتظار کرنا۔ محمد بن قاسم نے اپنی مسلمان بہن کو چھڑا کر اپنے گھر پہنچا کر نہ صرف حجاج بلکہ عالم اسلام اور ان سب سے برتر و اعلیٰ اپنے رب کو خوش کر دیا۔اللہ کی کریمی بھی بے مثال ہے یہ واقعہ جہاں پیش آیاوہاں آج سرزمین پاکستان پورے آب وتاب کے ساتھ قائم ہے۔پاکستان کے لوگ اگر یہ دعویٰ کریں کہ ہماری سرزمین برصغیر کے لیے نہ صرف ”باب الاسلام”ہے بلکہ بہوبیٹیوں کی عفت وعصمت کے حفاظت کی روشن تاریخ کااولین باب بھی یہیں سے رقم ہواہے توبے جا نہیں ہوگا۔
اس روشن اورمثالی تاریخ کے باوجود” پاکستان کی نامی فوج کے بدنام جنرل” پرویزمشرف کے دورمیں جب امریکانے افغانستان پرحملہ کیاتوطالبان،القاعدہ، اوراسلام پسندوں کے علاوہ ہزاروں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا یا گرفتار کر کے درجنوں عقوبت خانوں میں پہنچا دیا۔امریکہ نے بہ یک وقت خوف اور ڈالروں کی لالچ کا کھیل کھیلا یہاں تک پاکستان کے متعلق خود امریکی اداروں نے یہ خوف ناک انکشاف کردیا کہ”طالبان اورالقاعدہ” والوں کی میدان میں ناممکن گرفتاری کے بعدڈالروں کے عوض عام انسانوں کو امریکیوں کے ہاتھوں بیچنے کاکاروبارعروج پرپہنچا۔انہی بد نصیبوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی ایک تھی۔امریکیوں کی شکایتوں کامشرف اینڈ کمپنی نے احترام کرنا اپنے لیے ایسا ناقابل انکار فرض مان لیا تھا کہ اِدھر کسی افسر نے شکایت پہنچائی اُدھربلاتوقّف پاکستانی ادارے اس غریب پرقیامت ڈھانے پہنچ گئے، نتیجہ اس کایہ نکلا کہ کب ،کون ،کہاں مرا،کسی کوکچھ خبرنہیں۔اس کاردّعمل صرف پاکستان ہی بھگت رہا ہے اورامریکہ ساتھ چھوڑ کر بھارت کی جھولی میں ”کامل خلوص”کے ساتھ جا گرا ہے۔یہ کام مشرف اور چند ضمیر فروشوں کا تھا مگر ”بد اعتمادی ”پاکستان کا ایسا حصہ بن گئی کہ شاید ہی مستقبل میں کوئی اسلام پسند اس پر بھروسہ کرے گا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے بچوں سمیت کراچی سے اسلام آباد آتے ہو ئے لا پتہ ہو گئی۔والدہ کو” بہادراداروں ”نے چپ سادھ لینے کا مشورہ دیا حتیٰ کہ وہ روتے روتے کئی بار موت کے منہ میں جا پہنچی۔ایک دن اچانک” معظم بیگ نے سمیع اللہ ملک صاحب کے تعاون سے اس بات کا انکشاف کیا کہ افغانستان کے بگرام ایئربیس پرقید قیدی نمبر 650عافیہ صدیقی ہے ،جہاں امریکی ”حیوان نما سپاہی” اس کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کر رہے ہیں۔ایوان ریڈلی اس میں قدم قدم پر ساتھ رہی یہاں تک کہ ساری دنیا کے سامنے یہ بات آگئی کہ کئی برس قبل کراچی سے اسلام آباد جاتے ہو ئے اغواہو کر امریکیوں کے ہاتھوں فروخت ہونے والی کوئی اور نہیں عافیہ صدیقی تھی۔افغانستان میں امریکیوں نے گرفتاری کا ایسا بیہودہ ڈرامہ رچایا کہ ساری دنیا اس شرمناک کارروائی پر تڑپ اٹھی پر امریکہ بہادر سے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔عافیہ کو امریکہ پہنچا دیا گیا۔عدالت میں مقدمہ چلا جہاں اسّی برس کی سزا سنائی گئی۔تب سے لیکر آج تک ”زخموں اور صدمات سے چور وجود”کے ساتھ نحیف ،بیمار اور لاغر عافیہ دیارِ غیر میں اپنی بے گناہی کی سزاکاٹ رہی ہے۔اس کوفروخت کرنے والامشرف پورے پروٹوکول اوراعزازکے ساتھ اندرون اوربیرون ملک امریکہ سے انسانی خون اورعزت پر کمائی ہوئی دولت سے لطف اندوز اور محظوظ ہو رہا ہے۔
عافیہ صدیقی کی بدنصیبی یہ ہے کہ حکمرانوں کواس کی رہائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اوریہ کام بغیرگہری حکومتی دلچسپی کے ہوہی نہیں سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ معاملہ کسی مسلمان ملک کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ دنیا کے” بدترین مجسمہ شر ودجالِ دورِحاضر”کے ہاتھ میں ہے اور اس کے منہ کو عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کا خون لگ چکا ہے۔اس کے نزدیک کسی مسلمان بیٹی کے ساتھ جیلوں میں عصمت ریزی کوئی بڑی بات نہیں ہے جیسا کہ دنیا نے عراق اور افغانستان میں دیکھ لیاہے۔خود عافیہ کے متعلق تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود عصمت ریزی کی روح فرسا خبریں کئی بار میڈیا میں آچکی ہیں۔اس کے گھر میں اس کی نحیف والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی دہائیاں دیتے دیتے تھک چکی ہیں۔ابتداء میں عمران خان اس معاملہ پر بہت چیختا چلاتا رہا مگر پھر اچانک اس کو سانپ سونگھ گیا اور اب اس کی پوری ”اسلامی فلاحی ریاست کے لیے بیتاب ماڈرن ٹیم”میں بھی کوئی فرد اس مسئلے پر بات نہیں کرتا ہے۔پیپلز پارٹی سے کوئی امید نہیں۔نواز شریف سے متعلق ابتداء میں امیدیں تو تھیں مگر اب ان کے حوالے سے تمام تر ”خوش فہمیاں ”بھی ختم ہو چکی ہیں۔ لے دے کے نگاہیں پاکستان کی مذہبی جماعتوں پر جا کر ٹکتی ہیں مگر ان میں اکثر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے بیان بازیوں سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ سال بھر میں ان کے گھر(کراچی) جا کر دو میٹھے بول اور سوشل میڈیا پر چند ایک تصاویر اور معاملہ اگلی ملاقات تک ختم۔حیرت یہ کہ اب بعض لوگ سال میں صرف ایک مرتبہ عافیہ کی رہائی کے لیے ایک دن مذہبی تہواروں کی طرح منا کر حق ادا کرتے ہیں۔
پہلے مجھے اندیشہ تھا کہ31مارچ 2003ء کا یہ المناک دن جس میں مسلمانوں کی ایک مظلوم بیٹی گرفتار کر کے ڈالروں کے عوض اپنے معصوم بچوں سمیت امریکہ کے ہاتھوں بیچ دی گئی پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین باب ہی نہ بن جائے اس لیے کہ عافیہ صدیقی عرصہ دراز سے مختلف خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہے،مگر اب چودہ برس مکمل ہو نے کے بعدمجھے یقین ہو چکا ہے کہ پاکستان کی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ اس ’’شرمناک سانحہ ‘‘کو جان بوجھ کر اپنی روشن تاریخ میں ایسا سیاہ دھبہ ڈالنے پر بضد ہے جس سے پاکستان کی نئی نسلیں خود اپنے اگلوں سے ہی نفرت کرنے لگیں گی۔امریکیوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ ان کی جیل میں عافیہ خدانخواستہ مر جاتی ہے یا پاگل ہو جاتی ہے یا جیل میں وحشی عملے کے ہاتھوں باربارتوہین وتحقیرکا نشانہ بن جاتی ہے۔ امریکہ کے بے رحم سراغرساں اداروں کے ظالم ذمہ داروں کو اس طرح کی خبروں سے فرحت و مسرت محسوس ہوتی ہے اور یہ لوگ عافیہ سے متعلق باربار جان بوجھ کر وفات پانے کی خبریں پھیلا کر مسلمانوں کا ردعمل جانچ لینا چاہتے ہیں۔بے غیرتی کی آخری حد یہ کہ جب بھی اس طرح کی کوئی جھوٹی روح فرسا خبر پھیل جاتی ہے تو اب لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بالعموم اور دینی تنظیموں کو بالخصوص اس بات پر غور کر لینا چاہیے کہ اگر ”عافیہ صدیقی”امریکی جیل میں رہائی سے پہلے ہی مر گئی تو پھر اس ذلت و رسوائی کا داغ آپ کروڑ نیکیاں کر کے بھی دھو نہیں سکتے۔یہ سانحہ پاکستان کی تاریخ پر گہرا نقش ثبت کر دے گا اور آپ کو اپنی نئی معصوم نسلوں سے آنکھیں ملانا مشکل ہو جائے گا۔تاریخ کا بے رحم قلم پاکستان کی تاریخ کا وہ تصور ہی مسخ کردے گا جس میں اب تک یہ بات جلی حروف سے لکھی ہوئی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ایک قلعہ ہے۔
سگی بہنوں سے بھی پیاری عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے گزشتہ برس پاکستانی فوج کے سپہ سالارِ اعلیٰ جنرل راحیل شریف سے ایک پریس کانفرنس میں اس المیہ کو حل کرنے کے لیے براہ راست دلچسپی لینے کی اپیل کر کے بدیر ہی سہی ایک اچھا کام ضرور کیا تھامگر افسوس بہن فوزیہ کی دردناک اپیل جنرل صاحب کے دل کوپسیج نہ سکی۔ شاید انہیں اپنے بھائی جنرل کے شرمناک کام نے عدم دلچسپی کی راہ پر چلا کر ایک تاریخی کام کرنے سے روک دیا ۔یقیناً وہ شخص پاکستان کی تاریخ میں قابل احترام مقام پا لے گا جو عافیہ کی رہائی ممکن بنا لے گا۔اس شخص کو ملت اسلامیہ کا لیڈر اور رہنما کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے جو مسائل کے حل میں رکاوٹوں کا دن رات رونا روئے۔رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنے خلوص ،لگن ،محبت اور جذبہ للٰہیت کے ساتھ میدان میں اتر کر ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔کیا کسی بھی مسلمان رہنما جس کا اسلامی تاریخ میں نام روشن ہے ،کے لیے میدان ہموار اور رکاوٹوں کے بغیر تھا ؟صلاح الدین ایوبی ہو یا نورالدین زنگی اور محمد بن قاسم ،کیا انہیں رکاٹوں کے بغیر یہ نام اور عزت نصیب ہوئی ہے ؟دنیا کے لوگ اگر فی المثل واہ واہ نہ بھی کریں تو کیا کسی کا عوام سے پوشیدہ عمل اللہ سے بھی چھپا رہ سکتا ہے ؟ ایک مسلمان بیٹی کے لیے کل ”تڑپنے والاظالم حجاج ”کا یہ کارنامہ آج بھی اندرہی اندر خوشی دوڑا دیتا ہے ۔کیا عافیہ کے لیے تڑپنے والا حاکم کل اللہ کے دربار میں اسی ایک واقعے سے سرخرو نہیں ہو سکتا ہے ؟جو اللہ ”پیاسے کتے ”کو پانی پلانے والے شخص پر صرف اسی ایک عمل سے مہربان ہو سکتا ہے وہ عافیہ جیسی پاکیزہ روح کو وحشی درندوں کے جہنم سے نکال کراپنے گھر واپس لانے والے سے کس قدر خوش ہوگا؟؟